• news

مولانا الطاف حسین حالیؒ بلند پایہ ادیب، شاعر اور نقاد

علامہ نعیم احمد
معارف شمارہ نمبر5جلد 19میں مولانا الطاف حسین حالی کی خود نوشت سوانح عمری شائع کی جسے ہم اپنے قارئین کیلئے ذیل میں آسان الفاظ میں پیش کررہے ہیں۔
مولانا الطاف حسین حالی ؒ کے والد ایزد بخش اسی شاخِ انصار سے تعلق رکھتے تھے اور ان کی والدہ¿ محترمہ سادات کے ایک معزز گھرانے سے تعلق رکھتی تھیں جو وہاں” ساداتِ شہدا پور“ کے نام سے مشہور تھا۔الطاف حسین کو تعلیم حاصل کرنے کا دلی شوق تھا مگر باقاعدہ اور مسلسل تعلیم حاصل کرنے کا موقع کبھی نہ مل سکا تاہم ایک بزرگ سید جعفر علی جو میر ممنون دہلی کے بھتیجے اور داماد تھے‘ پانی پت میں مقیم تھے ۔وہ فارسی ادب، تاریخ اور طب میں کمال رکھتے تھے۔ الطاف حسین حالی نے ان سے فارسی کی دو چار ابتدائی کتابیں پڑھیں تو فارسی ادب سے لگاﺅ پید اہو گیا۔ بعدازاں انہیں عربی پڑھنے کا شوق چرایا۔ انہی دنوں مولوی حاجی ابراہیم حسین انصاری لکھنو¿ سے اجتہاد کی سند لے کر آئے تھے ۔ ان سے صرف و نحو پڑھنا شروع کی مگر چند روز بعد بھائی اور بہن نے جنہیں وہ والدین کے برابر سمجھتے تھے‘شادی پر مجبور کیا۔ اس وقت ان کی عمر محض سترہ برس تھی۔ سارے گھر کا گزارہ بھائی کی نوکری پر تھا مگراب یہ ذمہ داری ان کے کندھوں پر بھی آن پڑی۔ الطاف حسین حالی گھر والوں سے روپو ش ہو کر دلّی چلے گئے اور وہاں کے مشہور واعظ اور مدس مولوی نواز ش علی سے ڈیڑھ برس تک صرف و نحو اور منطق کی کچھ ابتدائی کتابیں پڑھیں۔ دلّی پہنچ کر جس مدرسے میں انہیں شب و روز قیام کرنا پڑا، وہاں کے تمام اساتذہ اور طلبہ کالج کے تعلیم یافتہ لوگوں کو جاہل تصور کرتے تھے۔ لہٰذا کبھی بھول کر بھی انگریزی تعلیم کا خیال دل میں نہ آتا تھا۔
انہوں نے شرح مسلم پڑھنا شروع کی مگر رشتے داروں اور بزرگوں کے جبر سے نہ چاہتے ہوئے بھی 1855ءمیں دلّی سے پانی پت واپس آنا پڑا۔ تقریباً ڈیڑھ برس پانی پت ہی میں رہے تو ان کتابوں کے مطالعے میں منہمک رہے جو اب تک نہ پڑھی تھیں۔ 1856ءمیں انہیں ضلع حصار میں معمولی تنخواہ پر کلکٹر کے دفتر میں ایک نوکری مل گئی لیکن جب 1857ءمیں جب جنگ آزادی برپا ہوئی تو حصار سے انگریز حکومت کی عملداری ختم ہو گئی تو وہ پانی پت واپس چلے آئے اور لگ بھگ چار برس بیکاری کی حالت میں بسر کئے۔ اس عرصہ کے دوران پانی پت کے مشہور علماءو فضلاءمولوی عبدالرحمن، مولوی محب اللہ اور مولوی قلندر علی سے کبھی منطق اور فلسفہ تو کبھی حدیث اور تفسیر پڑھتے رہے تاہم یہ سارا عمل کسی ترتیب یا نظام کے بغیر ہی انجام پاتا رہا۔ جس زمانے میں ان کا دلّی قیام تھا تو اکثر مرزا اسد اللہ خان غالب کی خدمت میں حاضر ہوا کرتے تھے۔ ان کے اردو اور فارسی دیوان کے جو اشعار سمجھ میں نہ آتے تھے، ان کا مفہوم ان سے پوچھ لیتے تھے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب نے اپنے دیوان میں سے کچھ فارسی قصیدے انہیں خود پڑھائے۔ مرزا اسد اللہ خان غالب کی عادت تھی کہ وہ اپنے ملنے جلنے والوں کو شعر کہنے سے منع کیا کرتے تھے لیکن جب الطاف حسین حالی نے ایک آدھ بار اُردو یا فارسی کی اپنی غزل ان کو دکھائی تو وہ کہنے لگے کہ میں کسی کو شعر کہنے کا مشورہ نہیں دیا کرتا لیکن تمہاری نسبت میرا خیال ہے کہ اگر تم شعر نہ کہو گے تو اپنی طبیعت پر سخت ظلم کرو گے۔ تاہم اس زمانے میں الطاف حسین حالی کو ایک دو غزل سے زیادہ شعر لکھنے کا اتفاق نہ ہوا۔
جنگ آزادی ختم ہو جانے کے بعد جب کئی برس بیکاری کی حالت میں گزر گئے تو فکر معاش نے گھر سے نکلنے پر مجبور کیا۔ حسن اتفاق سے ان کی شناسائی ضلع بلند شہر کے علاقے جہانگیر آباد کے تعلقہ دار نواب مصطفی خان سے ہو گئی۔ وہ اعلیٰ شعری ذوق رکھتے تھے اور اردو میں شیفتہ اورفارسی میں حسرتی تخلص رکھتے تھے۔ سات آٹھ سال تک بطور مصاحبت ان کے ساتھ رہنے کا اتفاق ہوا جس کے دوران ان کے بیٹوں کی اتالیقی کی خدمات انجام دیں۔ ابتداءمیں انہوں نے اپنا فارسی اور اردو کلام مومن خان کو دکھایا تھا مگر ان کے وفات پا جانے کے بعد وہ مرزا غالب سے مشورہ کرنے لگے۔ نواب مصطفی خان شیفتہ کی وفات کے بعدالطاف حسین حالی کو لاہور میں پنجاب گورنمنٹ بک ڈپو میں ملازمت مل گئی۔ انہیں انگریزی سے اردو زبان میں ہوئے تراجم کی عبارات درست کرنا پڑتی تھیں ۔ انہوںنے تقریباً چار سال تک یہ کام کیا جس کی بدولت انگریزی ادب کے ساتھ ایک طرح کی مناسبت پیدا ہو گئی اور غیر محسوس طور پر مشرقی ادب بالخصوص فارسی ادب کی وقعت دل میں کم ہونے لگی۔ بعد ازاں الطاف حسین حالی لاہور سے دلّی چلے گئے اور وہاں اینگلو عربک سکول میں بطور استاد تعینات کر دیے گئے۔نظم کے علاوہ حالی نے اردو نثر میں بھی چند کتابیں تحریر کیں جن میںسب سے پہلی کتاب ”تریاقِ سموم“ 1867ءمیںشائع ہوئی ۔حالی نے ترجمہ شدہ اس کتاب کے اشاعتی حقوق بغیر کوئی معاوضہ لئے پنجاب یونیورسٹی کو دے دیے ۔ چنانچہ ڈاکٹر لائٹنر کے زمانہ میں یونیورسٹی نے اسے شائع کر دیا۔ لاہور ہی میں انہوں نے عورتوں کی تعلیم کےلئے ایک کتاب ”مجالس النسائ“ تحریر کی تھی۔الطاف حسین حالی نے مرزا اسد اللہ خان غالب کی زندگی پر بھی کتاب لکھی جو یادگار غالب کے نام سے شائع ہوئی اس کے علاوہ سرسید احمد خان کی زندگی کے بارے کتاب بعنوان”حیات جاوید“ بھی تحریر کی۔ فارسی گرائمر وغیرہ پر متعدد دیگر کتابیں بھی لکھیں ۔ ان کے علاوہ تہذیب الاخلاق، علی گڑھ انسٹی ٹیوٹ گزٹ اور متعدد دیگر اخبارات و جرائد میں درجنوں مضامین تحریر کئے۔
مولانا الطاف حسین حالی نے اردو کے علاوہ فارسی اور عربی نظم و نثر میں بھی طبع آزمائی کی تاہم اس میں فارسی کا حصہ قدرے زیادہ ہے۔

ای پیپر-دی نیشن