• news

”پاور فیلیور“....... نصف صدی کی سیاسی کہانی

محمد دلاور چودھری

dilawarch25@gmail.com
افلاطون کی شہرہ آفاق کتاب ”ریپبلک“ پڑھیں تو سیاست ایک مشن دکھائی دیتی ہے۔ ایک ایسا مشن جس میں ”فلسفی حکمران“ کی کوئی نجی زندگی نہیں ہوتی بلکہ اسکا سب کچھ قوم کیلئے وقف ہوتا ہے۔ دوسری طرف صدیوں کا سفر طے کرکے میکاولی کی مشہور کتاب ”دی پرنس“ کا مطالعہ کیا جائے تو افلاطون کی ”نیک سیرت“ سیاست ایک انتہائی مکروہ اور ناپسندیدہ شے بن جاتی ہے جو اپنی خواہشات کی غلام بن کر حصول مقصد کیلئے ہر روپ اختیار کرنے اور ہر راستے پر چلنے کیلئے ہمہ وقت تیار رہتی ہے۔ ایسے روپ اور ایسے راستے جن کا تصور کرکے بھی انسانیت شرما جائے۔
ان حالات میں انسان سوچنے لگتا ہے کہ آخر سیاست کیا ہے؟ کوئی مقدس مشن ہے یا کوئی قابلِ نفرت کام ہے جس میں جنگ اور محبت سے بھی بڑھ کر ”سب کچھ جائز“ ہوتا ہے۔
دو انتہاﺅں کے درمیان سوچتے ہوئے جب بات نہیں بنتی تو وِل ڈیورانٹ کی مشہور زمانہ تصنیف ”سٹوری آف فلاسفی“ کا دیباچہ ذہن میں گھومنے لگتا ہے جس میں ”لفظوں کا جادوگر“ ڈیورانٹ اپنی قدرتی مہارت سے کام لیکر لکھتا ہے کہ ”سائنس انسانوں کو ہلاک کرنے کا علم ہے اور اسکے ساتھ ساتھ انسانیت کو بچانے کا ”ہتھیار“ بھی ہے‘ اصل بات یہ ہے کہ ہم اسے کس مقصد کیلئے استعمال کرتے ہیں“۔
ڈیورانٹ کی اس بات کو ذہن میں رکھ کر دو انتہاﺅں میں سے درمیانی راستہ یہ نکلتا ہے کہ سیاست بذاتِ خود اچھی یا بری نہیں ہوتی بلکہ اچھے یا برے سیاستدان ہوتے ہیں
سیدہ عابدہ حسین ایک نفیس خاتون ہیں۔ اکثر سیاستدان اپنے چھوٹے چھوٹے مفادات کیلئے مختلف سیاسی جماعتوں کے گرد گھومتے اور ”من کی مرادیں“ پانے کی جستجو میں دنیا و مافیہا سے بے خبر ہر دم مصروف دکھائی دیتے ہیں‘ لیکن مٹھی بھر ہی سہی بعض سیاستدان ایسے بھی ہیں جو اپنی سیماب صفت طبع کے باعث بڑے بڑے مقاصد کی تکمیل کیلئے سیاسی پارٹیوں کو ”چھوٹا“ پاتے ہیں اور بے چین اِدھر سے اُدھر اور پھر اُدھر سے اِدھر گوہرِ مقصود کی تلاش میں ماہی بے آب کی طرح پھڑپھڑاتے رہتے ہیں۔ سیدہ عابدہ حسین ان مٹھی بھر سیاستدانوں میں شامل قابل قدر سیاستدان ہیں جو کچھ عرصہ سے میدانِ سیاست سے ”غیرحاضر“ رہ کر انگریزی زبان میں اپنی ضخیم آپ بیتی لکھتی رہی ہیں جو ”پاور فیلیور“ (Power Failure) کے نام سے شائع ہو کر سب کے سامنے آگئی ہے۔ ان کی یہ کتاب محض کہنے کو نہیں بلکہ حقیقی معنوں میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کا ”نصف صدی کا قصہ“ ہے بلکہ انکی لکھی ہوئی کرنل عابد حسین (انکے والد) کی سیاسی یادداشتوں کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ ”قصہ“ نصف صدی کی حدوں کو بھی کہیں دور چھوڑ دیتا ہے۔
سیدہ عابدہ حسین اپنے والد اور قائداعظم کے ساتھی کرنل عابد حسین کے بارے میں لکھتی ہیں کہ وہ سیدھی بات کرنیوالے شخص تھے اسلئے ان سے اختلاف رائے کرنا انتہائی مشکل ہوتا تھا۔ انہوں نے دوٹوک انداز میں سیاست کرنا شاید اپنے والد ہی سے سیکھا ہے۔
وہ لکھتی ہیں ایوب خان کے دور میں صدارتی الیکشن کے دوران انکے والد محترمہ فاطمہ جناح کے زبردست حامی تھے اسلئے الیکشن سے دو روز قبل انہیں گرفتار کرلیا گیا اور ہتھکڑیاں لگا کر عدالتوں میں گھمایا گیا تاکہ مادر ملت کے دوسرے حامیوں کو خوفزدہ کیا جاسکے۔ وہ بتاتی ہیں کہ کس طرح سے ”ایوب خانی ہتھکنڈے“ ناکام ہوئے اور جھنگ پنجاب کا وہ واحد ضلع بن گیا جہاں سے محترمہ فاطمہ جناح الیکشن جیت گئیں۔
عابدہ حسین اپنے والد کی قائداعظم سے پہلی ملاقات کا احوال بھی بیان کرتی ہیں جس میں راجہ صاحب محمود آباد بھی موجود تھے اور قائداعظم نے انکے والد کو راجہ صاحب محمود آباد کے سامنے اپنا سب سے کم عمر ساتھی کہہ کر پکارا تھا۔
عابدہ حسین اپنے والد کے انتقال کے بعد اپنے سیاسی سفر کے آغاز کا قصہ بھی سناتی ہیں جب ستمبر 1970ءمیں انہوں نے پیپلز پارٹی کی رکنیت کا فارم پُر کرکے ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور پھر 2 برس بعد وہ جھنگ سے پنجاب اسمبلی کی رکن منتخب ہوگئیں۔
سیدہ عابدہ حسین کی یہ کتاب محض ایک آپ بیتی نہیں بلکہ پاکستانی سیاست کے کرتا دھرتاﺅں کی وہ داستان بھی ہے جس کا بہت سا حصہ ابھی تک منظرعام پر نہیں آیا اور یہ حصہ سیاسی طالبعلموں کے ساتھ ساتھ عام قارئین کیلئے بھی انتہائی دلچسپ اور ”خاصے کی چیز“ ہے۔
700 سے زائد صفحات پر مشتمل یہ کتاب آکسفورڈ یونیورسٹی پریس نے نہایت عمدہ کاغذ پر شائع کی ہے۔ یادگار تصاویر سے مزّین اس کتاب کی قیمت 2195 روپے ہے۔ یہ کتاب یقیناً ایک مستند سیاسی دستاویز کا درجہ رکھتی ہے۔
....٭....٭....

ای پیپر-دی نیشن