2014۔۔۔۔۔۔۔ جنوبی پنجاب میں خواتین پر ظلم و تشدد میں اضافہ ہوا
سلیم ناز
عورت کی عظمت اور اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ وہ جس روپ میں بھی ہو قابل احترام ہوتی ہے۔ ماں، بہن، بیٹی اور بیوی کے روپ میں وہ اپنے فرائض ذمہ داریاں بخوبی نبھاتی نظر آتی ہے۔ ہمارا مذہب اسلام تو عورت کے ساتھ خوش اخلاقی، رواداری کے ساتھ پیش آنے کا حکم دےتا ہے۔ اس کے باوجود ہمارے معاشرے میں عورت کی تذلیل اور اس پر ظلم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ پسماندہ علاقہ میں تو اسے پاو¿ں کی جوتی خیال کیا جاتا ہے ۔ اگر وہ ماں باپ کے گھر میں ہے تو بھائیوں کے تشدد سے محفوظ نہیں۔ اگر سسرال میں ہے تو یہاں ظلم وستم کی چکی میں پستی رہتی ہے۔ خواتین پر ظلم و تشدد کی خبریں آئے روز پڑھنے کو ملتی ہیں۔
ضلع مظفرگڑھ کے قصبہ بھیرہ میں تین ملزمان نے تعلقات استوار نہ کرنے پر خاتون پر تیزاب کی بوتل انڈیل دی جس سے خاتون کے چہرے کا بایاں حصہ شدید متاثر ہو گیا۔ گزشتہ دنوں گلگشت کالونی کے علاقے میں دو خواتین اور ایک بچی کو قتل کر کے لاشیں ویرانے میں پھینک دیں۔ تاحال پولیس ان اندھے قتل کا سراغ نہیں لگا سکتی۔
اڈا ہیڈ کرمانوالہ کے رہائشی محمد ممتاز سہو نے اپنے اہل خانہ اور اہل علاقہ کے ہمراہ پولیس گردی کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے بتایا تقریباً دس بجے دس مسلح افراد ہمارے گھر میں داخل ہو گئے اور اپنے آپ کو پولیس تھانہ صدر کہنے لگے اور ہمارے گھر میں موجود عورتوں پر رائفل کے بٹ مارے‘ خواتین کے زیورات نوچ لئے۔ مزاحمت پر لعل بی بی کو دائیں ہاتھ پر رائفل کے بٹ مارے اور پکڑ کر گھسیٹتے رہے جس کی وجہ سے وہ بے ہوش ہو گئی ۔
اسی طرح تھانہ کوٹ ادو کے علاقہ وارڈ نمبر 14/C کوٹ ادو کے محمد بخش لشری کی بیٹی سمعیہ بی بی کی شادی تین سال قبل اقبال منجوٹھہ سے ہوئی جس سے اس کی چھ ماہ کی بیٹی عائشہ تھی۔ چند روز قبل عائشہ بیمار ہو گئی جس کی دوائی کیلئے سمعیہ بی بی نے خاوند اقبال سے بیٹی کی دوائی کیلئے پیسے مانگے جس کا اقبال نے برا منایا اور والد حنیف منجوٹھہ کے ساتھ مل کر بیوی سمعیہ بی بی پر تشدد کیا۔ بعدازاں 6 ماہ کی بیٹی عائشہ کو اس سے چھین کر سمعیہ بی بی کو گھر سے بھگا دیا ۔
مظفرگڑھ کے نواح میں تین افراد نے چھیڑ خانی سے منع کرنے پر خاتون پر تیزاب پھینک دیا جس سے اس کا 60 فیصد جسم جھلس گیا۔ نہ جانے ظلم ڈھاتے اور تشدد کرتے ہوئے مرد کیوںیہ بھول جاتا ہے کہ ”وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ“
ماں کے روپ میں دنیا کا سب سے قیمتی تحفہ، بہن کے کردار میں ایثار و قربانی کا مجسمہ، بیٹی ہو تو رحمت، اور بیوی کے روپ میں زندگی کی پرخلوص ساتھی۔ عورت ہر روپ میں محبت ،شفقت کا بہترین نمونہ ہے پھر نہ جانے درندہ صفت لوگ اس کے ساتھ درندگی سے کیوں پیش آتے ہیں۔ ایک این جی او کی رپورٹ کے مطابق اختتامی سال جنوبی پنجاب کے مختلف شہروں میں پانچ ہزار سے زائد واقعات ہوئے جن میں سینکڑوں خواتین موت کے منہ میں چلی گئیں۔۔ معروف سماجی کارکن اور صنعت زار ملتان کی سرگرم رکن طاہرہ نجم نے اس حوالے سے کہا تعلیم کی کمی اور قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث خواتین پر تشدد کے واقعات میں آئے روز اضافہ ہو رہا ہے۔ معاشرے کی فرسودہ روایات بھی عورت کی ترقی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ اسلام نے عورت کو جو عزت مقام دیا ہے وہ کسی اور مذہب میں ان کو حاصل نہیں پھر نہ جانے ہم عورت کو ظلم کا نشانہ بناتے ہوئے اسلامی احکامات کو پس پشت کیوں ڈال دیتے ہیں۔
ڈی جی خان سے عابدہ بزدار نے کہاخواتین کے خلاف سنگین جرائم میں اضافہ کی بڑی وجہ قوانین پر عمل درآمد نہ ہونا ہے۔
مظفرگڑھ سے جویریہ ندیم نے کہا کس قدر افسوسناک بات ہے کہ جنوبی پنجاب میں خواتین پر تشدد کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہے۔ خواتین کی سرعام بے حرمتی، عصمت فروشی، جنسی تشدد ، غیرت کے نام پر قتل ، تیزاب پھینکنے کے واقعات لمحہ فکریہ ہیں۔سماجی کارکن شاہد انصاری نے کہاحق تلفی اور قتل و غارت کے بڑھتے ہوئے واقعات سے عورت غیر محفوظ ہو کر رہ گئی ہے۔ جب تک عورت کو اس کا اصل مقام نہیں دیا جائے گا معاشرتی بگاڑ اسی طرح قائم رہے گا۔ آواز فا¶نڈیشن کے عذیر سلیم نے کہا اس پہلو کو بھی نظر انداز نہیںکیا جا سکتا ۔ عورت کے خلاف تشدد کے بیشتر واقعات میں عورت کا ہاتھ بھی ہوتا ہے۔ اس لئے صرف مرد کو مورد الزام ٹھہرانا درست نہیں۔ کالم نگار صفدر حسین نے کہاپسماندہ اور گھٹیا سوچ کا مالک مرد ایک عورت چاہے وہ ماں ہے یا پہلی بیوی کے کہنے پر ہی دوسری عورت کے خلاف تشدد کا مرتکب ہوتا ہے۔ شاعر و ادیب احمد ہارون ثاقب ایڈووکیٹ نے کہا گزشتہ دنوں عورتوں پر تشدد کے خاتمہ کا عالمی دن منایا گیا ۔ تقریبات منعقد ہوئیں ۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان تقریبات میں کس مظلوم عورت کو بلایا گیا یا اس کی دادرسی کی گئی۔این جی او سیف کے سلطان محمود نے کہا اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ دنیا بھر میں بڑی تعداد میں خواتین اور لڑکیاں کس کس طرح کے مظالم کا شکار ہیں۔ وہ روزانہ مرتی اور جیتی ہیں۔سماجی کارکن مرزا فاروق جان نے کہا یہ حقیقت ہے کہ تعلیم کی کمی سے عورت مرد کے تشدد کا شکار ہے۔ جب تک اس پر آگہی کے در پوری طرح نہیں کھولے جائیں گے خواتین کو اپنے حقوق کا احساس نہیں ہوگا۔ نیشنل یوتھ فورم کے جنرل سیکرٹری ربنواز بھٹہ ہمارے علمائے کرام اور اساتذہ، بزرگ اور پنچائیتوں کا فرض بنتا ہے کہ وہ قرآن کے احکامات کے مطابق عورت کو اس کا مقام دلائیں اور مردوں کو ان احکامات پر عمل کرنے کا درس دیں تاکہ معاشرے میں پائی جانےو الی بے چینی ختم ہو سکے ۔
افسانہ نگار و شاعرہ صبیحہ گیلانی نے کہا ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد عام سی بات بن چکی ہے۔ پسماندہ علاقوں میں تو اس کی انتہا کر دی جاتی ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے ہم مسلمان قوم ہیں کیا ہماری خواتین اسی سلوک کی مستحق ہیں؟
ناھید لودھی نے کہا اسلام نے عورت کو اعلیٰ مقام عطا کیا ہے اور ہمارے قانون میں بھی خواتین کو عزت و احترام دینے کا پابند کیا گیا ہے پھر ان قوانین پر عملدرآمد کیوں نہیں کیا جاتا جو خواتین کو ممتاز مقام دیتے ہیں۔