دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی‘ مالی وسائل کی روک تھام اہم ترین مسئلہ بن گیا
اسلام آباد(سہیل عبدالناصر) دہشت گرد تنظیموں کی بیخ کنی کے سلسلہ میں ان کے مالی وسائل کی روک تھام اہم ترین مسئلہ کے روپ میں سامنے آیا ہے۔ ایک مستند ذریعہ کے مطابق ابتدائی جائزوں سے معلوم ہوا ہے کہ ان تنظیموں اور گروپوں کے مالی وسائل کا دائرہ ملک کے طول و عرض سے لے کر بھارت و افغانستان اور خلیجی ریاستوں تک پھیلا ہوا ہے جب کہ بعض یورپی ممالک سے بھی ان کیلئے رقوم بھجوانے کے شواہد اکٹھے کئے گئے ہیں۔ اس ذریعہ کے مطابق دہشت گردوں کے مالی وسائل کا مکمل سراغ لگانے اور ان وسائل کی روک تھام اور مالی نیٹ ورک بنانے والے عناصر کو قانون کی گرفت میں لائے بغیر فوجی اور انٹیلی جنس آپریشنز کی کامیابی سوالیہ نشان ہی رہے گی۔ بھارت اور افغانستان سے براہ راست مالی مدد کے شواہد اگرچہ کم ہیں لیکن ان دونوں ملکوں سے بالواسطہ وسائل فراہم کرنے کے ثبوت اور شواہد کافی تعداد میں میسر ہیں۔ دہشت گردوں کو افغانستان سے ملنے والی مالی مدد میں لازم نہیں کہ افغان حکومت ملوث ہے کیونکہ حکومت کی کمزور گرفت کی وجہ سے بھارت سمیت متعدد ملک افغان سرزمین کو پاکستانی گروپوں کی مدد کیلئے استعمال کر رہے ہیں ۔ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستانی گروپوں کی سرپرستی کیلئے جس ملک کی سرزمین کو سب سے زیادہ استعمال کیا جا رہا ہے وہ افغانستان ہے۔ اس ذریعہ کے مطابق شدت پسند تنظیموں کے مالی اثاثوں اور نقد رقوم کا اس بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ آپریشن ضرب عضب سے پہلے شمالی وزیرستان کے صدر مقام میران شاہ میں کرنسی کا بہت بڑا بازار قائم تھا جہاں روزانہ کروڑوں روپے کا لین دین ہوتا تھا۔ لین دین کرنے والے تاجر نہیں بلکہ سب ہی شدت پسند ہوتے تھے۔ ایسا نہیں کہ ان تنظیموں کو دوسروں سے مالی مدد مل رہی ہے۔ بیت اللہ محسود کے دور سے تحریک طالبان نے خلیجی ریاستوں میں بھاری رقوم کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔ طالبان دھڑوں میں اختلافات کی ایک بڑی وجہ یہ رقوم بھی تھیں جن کا کنٹرول بعد میں حکیم اللہ محسود کے پاس رہا۔ ملک کے اندر کراچی سے لے کر پنجاب کے صنعتی اور تجارتی شہروں سے یہ تنظیمیں ہم خیال افراد سے عطیات وصول کرتی ہیں جب کہ اغواء برائے تاوان، بنک ڈکیتیاں اور منشیات کی سمگلنگ بھی ان تنظیموں کے مالی وسائل کا اہم جزو ہیں۔ سرکاری اداروں کی رائے ہے کہ دہشت گردی میں معاونت دینے والے نیٹ ورک سے بڑا نیٹ ورک مالی معاونین کا ہے جس کے سدباب کی ضرورت ہے۔