• news

راکھ اور ساکھ امداد اور سیاست

کراچی میں آتشزدگی سے متاثر ہونے والے لوگوں کے لئے بحریہ ٹائون والے ملک ریاض نے دس دس لاکھ روپے فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ اس کے بعد ’’شرمو شرمی‘‘ قائم علی شاہ کی طرف سے شرجیل میمن نے ایک ایک لاکھ فی کس دینے کا اعلان کر دیا ہے۔ تو پھر ’’صدر‘‘ زرداری ملک ریاض کو وزیر اعلیٰ سندھ بنا دیں۔ ملک صاحب نے لاہور میں بلاول ہائوس بھی ’’صدر‘‘ زرداری کو بنا کے دیا ہے۔ اب بلاول صاحب اپنے ہائوس کے حوالے سے کب اپنے والد کے ساتھ معاملات طے کریں گے۔ ایسے میں کراچی والے بلاول ہائوس پر بھی بلاول کا حق ہے۔ اس کے بعد پشاور میں بلاول ہائوس بنانے کا اعلان کس خوشی میں زرداری صاحب نے کر دیا ہے۔ یہ تو خیر ان کا خاندانی موروثی جائیدادی تنازعہ ہے۔ ان کے لئے کچھ معاملات بینظیر بھٹو کی پراپرٹی کے بھی ہوں گے۔ان کی کچھ پراپرٹی کا ابھی تک ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی پتہ نہیں ہے؟ اس حوالے سے ’’صدر‘‘ زرداری پریشان ہیں۔ اس کے لئے آصفہ بی بی ’’صدر‘‘ زرداری کا ساتھ دے گی۔ بختاور بی بی بلاول کے ساتھ ہو گی۔ صنم بھٹو بھی بلاول کے ساتھ ہو گی۔
مگر میں یہ سوچ رہا ہوں کہ کیا پاکستان میں صرف امیر کبیر ملک ریاض ہی ایسا ہے جو روپیہ پیسہ یوں لٹاتا رہتا ہے۔ ان کا مطلب ہے کہ پاکستان میں صرف لوٹنا ہی آسان نہیں ہے لٹانا بھی آسان ہے؟ مگر یہ دل کسی کسی امیر کبیر کو ملتا ہے۔ پچھلے دنوں ہمارے محبوب سماجی ورکر ایدھی صاحب کو لوٹا گیا۔ بڑے معنی خیز انداز میں لوٹا گیا۔ لوٹنے والا لازماً کچھ کچھ سیاستدان ہو گا۔ سیاستدانوں کا ساتھی ہو گا۔ اس طرح کی لوٹ مار تو نہ دیکھی نہ سنی۔ کوئی سب کچھ لے کے چلا گیا جیسے مانگ کے لے گیا ہو۔ افسوس کے ساتھ ساتھ حیرت بھی ہوئی۔ اس حیرت میں ملک ریاض نے اور اضافہ کر دیا کہ پورے پانچ کروڑ ایدھی صاحب کو دے دئیے۔ اتنا تو نقصان بھی نہ ہوا ہو گا کچھ جمع پونجی ایدھی صاحب کی دوسری بیوی لے گئی تھی۔ ایدھی صاحب تعریف اپنی پہلی بیوی کی کرتے ہیں۔ تھوڑی سی تعریف دوسری بیوی کی بھی کرنا چاہئے تھی۔
اس کے علاوہ انصار برنی کی جو ڈیل بلکہ گراں ڈیل پاکستانی مسافروں کو دوسری بار بحری قذاقوں سے بچانے کے لئے ہوئی تھی اس کے لئے اربوں روپے ملک ریاض نے پیش کر دئیے اور یہ روپے ’’صدر‘‘ زرداری کے کہنے پر دئیے۔ اب ملک ریاض نے کراچی میں بحریہ ٹائون شروع کر دیا ہے عجیب اتفاق ہے کہ بحیرہ عرب بھی ساتھ ہے؟ بحری قذاقوں کو ملنے والی رقم میں سے نجانے کس کس کو کتنے پیسے ملے؟ بہرحال آتشزدگی سے متاثر ہونے والوں کے لئے دس لاکھ کی امداد بڑی رقم ہے۔
اس کے بعد سندھ حکومت کو کچھ سوچنا چاہئے کہ پوری حکومت پر ایک آدمی کس طرح بھاری ہے۔ ’’صدر‘‘ زرداری کو بھی چاہئے کہ متاثرین کے لئے کوئی اعلان کریں۔ انہوں نے تھر میں مرنے والے معصوم بچوں کے لئے بھی کچھ نہیں کیا۔ سندھ حکومت نے کچھ نہیں کیا بلکہ قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کے مزاحیہ بیانات نے انسانیت کے خون ٹپکتے زخموں پر نمک چھڑکا ہے۔ انہوں نے کچی شراب پینے والوں کو شہید کہا ہے تو ان کا تھر میں ’’غربت‘‘ سے مرنے والوں کے لئے کیا خیال ہے۔ اگر یہ بچے بھوک سے مرتے تو ان کو بھی شاہ جی شہید کہتے اور پھر شاید کچھ امدادی رقم کا اعلان بھی کرتے۔
حیرت ہے کہ ’’صدر‘‘ زرداری کے لئے ملک صاحب نے لاہور میں بلاول ہائوس بنا کے دیا ہے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ ’’صدر‘‘ کے کسی گھر میں آتشزدگی ہوئی ہے یا ان کے ہاں بھی ڈاکہ پڑا ہے۔ ان کا کچھ تو نقصان کہیں نہ کہیں ہوا ہو گا کہ ملک ریاض کا دل پسیج گیا اور انہوں نے ان کی دل جوئی کے لئے ایک پورا ’’قلعہ نما محل‘‘ بنا کے دے دیا۔ ان کے آرام کے علاوہ ان کی سکیورٹی پر زیادہ توجہ دی ہے۔
دوسرے دن لاہور میں انارکلی کے خالد پلازہ کے اندر آگ بھڑک اٹھی۔ پریشانی یہ ہے کہ اتنے تواتر سے آگ کیوں لگ رہی ہے۔ آگ لگ رہی ہے یا لگائی جا رہی ہے۔ کراچی میں ڈاکٹر بابر اعوان کے ساتھ اس حوالے سے بات ہو رہی تھی۔ وہاں کئی لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ آگ بھتہ خوروں نے لگائی ہے۔ ظالموں کا خیال ہے کہ ہمیں کچھ نہیں دیتے ہو تو تمہارا بھی ’’ککھ‘‘ نہیں رہے گا۔ آج سے دس پندرہ سال پہلے تو آگ نہیں لگتی تھی تو پھر یہ کیا ہو رہا ہے۔ پورے پاکستان میں آگ لگائی جا رہی ہے۔ اس طرح ذاتی نقصان ہوتا ہے تو ریاست کا بھی نقصان ہوتا ہے۔
ایم کیو ایم نے بجا طور پر پیپلز پارٹی کی حکومت پر بے حسی اور نااہلی کا الزام لگایا ہے مگر شرجیل میمن نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے اس سانحے کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی ہے۔ اتنی ڈھٹائی سے بہت جھوٹ سندھ حکومت کی طرف سے بولے گئے ہیں۔ تھر میں مرتے ہوئے بچوں کے حوالے سے بھی بڑے ظالمانہ انداز میں نازک صورتحال کا مذاق اڑایا گیا ہے۔ سندھ حکومت لوگوں کے مسائل کی طرف پوری توجہ دے۔ جلتے ہوئے لوگوں کے لئے ایک لاکھ روپے اور قائم علی شاہ اپنے لئے ایک ارب روپے سے زیادہ کا ہیلی کاپٹر خرید رہے ہیں۔ شرجیل میمن اس گاڑی میں موجود ہوتے ہیں جو بیرون ملک سے تھر کے بچوں کی امدادی کارروائیوں کے لئے بھجوائی گئی ہے۔ سندھ حکومت کے پاس تھر کے قحط زدہ لوگوں تک گندم پہنچانے کے لئے فنڈز نہ تھے۔ بیوروکریسی بھی ڈیموکریسی کے ساتھ ملی ہوئی ہے۔ مل کر لوگوں کو ذلیل و خوار کر رہے ہیں۔
کبھی قائم علی شاہ اور شرجیل میمن کی گاڑی میں پٹرول ختم نہیں ہوا ہو گا۔ کبھی ان کی گاڑی خراب نہیں ہوئی ہو گی۔ کبھی ان کی گاڑی کے ٹائر پنکچر ہو کر استعمال کے ناقابل نہیں ہوئے ہوں گے۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیوں میں یہ تمام مسائل پوری طرح موجود ہوتے ہیں۔ الطاف حسین کہتے ہیں کہ ہماری ضلعی بلدیاتی حکومت سب سے پہلے فائر بریگیڈ کی گاڑیوں پر توجہ دیں گے۔ ملتان سے ایم کیو ایم کے رائو خالد نے بتایا کہ یہاں مظفر گڑھ کے گرڈ سٹیشن میں آگ لگ گئی ہے۔ بلدیاتی حکومت ہوتیں تو اتنی مشکلات نہ ہوتیں۔
لاہور میں آتشزدگی سے متاثر ہونے والوں کے لئے شہباز شریف نے پانچ پانچ لاکھ فی کس دینے کا اعلان کیا ہے۔ اب شرجیل میمن کہیں گے کہ یہ سندھ حکومت کو چڑانے کے لئے کیا گیا ہے؟

ای پیپر-دی نیشن