لولے لنگڑے فیصلوں سے نکل کر دستور کی عملداری کا امتحان
سانحہ ء پشاور کے تناظر میں منعقد ہونے والی قومی پارلیمانی کانفرنس کی دوسری نشست میں 11گھنٹے کی بحث کے بعد فوجی افسروں کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ۔قومی پارلیمانی کانفرنس میں بیشتر سیاسی جماعتوں کی قیادت اپنے اپنے تحفظات کے باوجود فوجی افسران کی سربرا ہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کے بارے میں حکومت کے ساتھ فیصلہ کر کے اٹھی ۔ وزیر اعظم محمد نواز شریف نے قومی پارلیمانی کانفرنس میں کئے جانے والے فیصلوں پر عمل درآمد کے لئے ایکشن پلان کمیٹی قائم کر دی ہے۔ وہ دہشت گردی کے خاتمے کیلئے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کے لئے قانون سازی کے عمل کو تیز رفتاری سے پایہ ء تکمیل تک پہنچانے کے لئے ذاتی طور پر دلچسپی لے رہے ہیں۔ انہوں نے دہشت گردی کے خاتمے کے لئے موثر اقدامات اور لائحہ عمل تیار کرنے اور اس پر عمل درآمد کے لئے وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کو ٹاسک دے دیا ہے۔ جو روزانہ مختلف کمیٹیوں کے اجلاس اور رابطوں کے ذریعے سیاسی و عسکری قیادت کو اعتماد میں لے کر تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں ۔ پچھلے چند دنوںمیں ہونے والے واقعات نے وزیر اعظم اور وفاقی وزیر داخلہ کے درمیان میں قربت میں اضافہ کر دیا ہے۔ حکومت فوجی افسران پر مشتمل عدالتوں کے قیام کے لئے آئینی و قانونی ترامیم کے مسودہ کی تیاری کے لئے دیگر پارلیمانی جماعتوں سے مشاورت کرہی ہے۔ اس سلسلے میں دو تین اجلاس منعقد ہو چکے ہیں لیکن تاحال آئینی وقانونی ترامیم کے مسودہ پر تمام جماعتوں کے درمیان اتفاق رائے پیدا نہیں ہو سکا۔ پیر کے روز خصوصی عدالتوں کے قیام کے لئے آئینی ماہرین کا اجلاس ہوا جس میں آئینی وقانونی ترامیم کے مسودے پر غور کیا گیا۔ اجلاس میں پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف سمیت بعض جماعتوں نے اس بات پر زور دیا ہے کہ آئینی ترمیم و قانونی ترامیم کا مرکز و محور صرف ’’دہشت گردی کی واردات ‘‘ ہونا چاہیے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان آرمی چیف جنرل راحیل شریف کی موجودگی میں منعقد ہونے والی قومی پارلیمانی کانفرنس میں فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام کی حمایت کر چکے ہیں ۔جب کہ آئینی ماہرین کے اجلاس میں تحریک انصاف کے وائس چیئرمین نے فوجی افسران پر مشتمل خصوصی عدالتوں کے قیام کی مخالفت کر دی ۔جس پر چوپدری اعتزاز احسن نے ان سے طنزاً کہا کہ ’’قومی پارلیمانی کانفرنس کے اجلاس میں آپ کے لیڈر کا موقف کچھ اور تھا جب کہ بعد میں آپ بدلے ہوئے مؤقف کا اظہار کر رہے ہیں۔ جس پر حامد علی خان نے کہا کہ ’’میں وکیلوں کا لیڈر ہوں بار کونسل نے فوجی عدالتوں کی مخالفت کر دی ہے اس لئے میں بھی مخالف ہوں بہر حال چوہدری اعتزاز احسن نے کہا کہ ہمیں کوئی درمیانی راستہ اختیار کرنا پڑے گا شنید ہے آئینی و قانونی ترامیم کا پہلا مسودہ مسترد کر دیا گیا۔اب اٹارنی جنرل پاکستان سلیمان بٹ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کی مشاورت سے آئینی وقانونی ترامیم کا نیا مسودہ تیار کر رہے ہیں ۔جو رواں ہفتے کے دوران ہی منظوری کے لئے پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔تازہ ترین اطلاع ہے حکومت نے آئینی و قانونی ترمیم کی منظوری کے لئے درمیانی راہ نکالی ہے فوجی افسران پر مشتمل خصوصی عدالتوں کو مروجہ عدالتی نظام کا حصہ بنا دیا جائے گا ۔ جس کیلئے وفاقی حکومت کی جانب سے طلب کرنے پر آج قومی اسمبلی کا اجلاس ہو رہا ہے، جب کہ سینیٹ کا اجلاس پہلے ہی جاری ہے۔ اس بات کا قوی امکان ہے حکومت پارلیمنٹ سے دہشت گردی کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے آئینی و قانونی ترمیم منظور کروا لے گی۔ حکومت قومی اسمبلی سے آئینی ترمیم منظور کراسکتی ہے لیکن سینیٹ میں اکثریت حاصل نہ ہونے کے باعث اس کیلئے آئینی ترمیم یا عام قانون منظور کروانا ممکن نہیں۔ اس کے لئے اسے اپوزیشن کی تمام جماعتوں کو ’آن بورڈ‘‘ لینا پڑے گا۔ سینیٹ میں پیپلز پارٹی ،جی یو آئی(ف)، ایم کیو ایم اور عوامی نیشنل پارٹی کی حمایت حاصل کئے بغیر آئینی ترمیم منظور کرانا مشکل ہے۔ لہذا یہ بات کہی جا سکتی کہ جن قوتوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے سخت قوانین کی ضرورت ہے وہی ان جماعتوں کو فوجی افسران کی سربراہی میں قائم ہونے والی عدالتوں کے لئے آئینی ترمیم کی حمایت پر آمادہ کر لیں گی۔ بلا شبہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں دہشت گردی کے خلاف حکومت ،اپوزیشن اور فوج ایک ہی صف میں نظر آتی ہیں لیکن بڑی کانفرنس میں ہونے والے فیصلوں کو عملی شکل دینے میں آئینی وقانونی رکاوٹیں بھی اپنی جگہ موجودہیں ۔ بظاہر وزیر اعظم محمد نواز شریف نے فوجی عدالتوں کی بجائے فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتوں کے قیام پر اتفاق رائے پیدا کر کے قومی پارلیمانی کانفرنس کو ناکامی سے بچا لیا تھا۔ کئی بار ایسے مراحل آئے کہ عدم اتفاق کی وجہ سے کانفرنس بے نتیجہ ختم ہو سکتی تھی لیکن وزیر اعظم نے دوٹوک الفاظ میں واضح کر دیاکہ’’ آج ہم کوئی فیصلہ کئے بغیر نہیں اٹھیں گے ‘‘ وزیر اعظم کی قیادت میں اہم قومی ایشوز پر اتفاق رائے اس لئے بھی ہو گیا کہ اس وقت اجلاس میں سیاست دانوں کے ساتھ عسکری قیادت موجود تھی۔ جس میں وزیر اعظم نے فوجی افسران کی سربراہی میں قائم عدالتوں کو سیاسی مخالفین کو دبانے کے لئے استعمال نہ کرنے کی یقین دہانی بھی کروا ئی ہے اسی لئے جس طرح سب نے حکومتی فیصلوں کی تائید کر دی ، اس کانفرنس کے بعد میاں نواز شریف کو فیصلہ سازی میں ایک مرکزی کردار حاصل ہو گیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ و اقتصادی امور سینیٹر محمد اسحقٰ ڈار کو ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے رابطہ قائم کر کے ان کے تحفظات دور کر دئیے ہیں۔ اب ایم کیو ایم بھی’’ آن بورڈ ‘‘ہو گئی ہے۔ مسلم لیگ(ق) کے سیکریٹری جنرل مشاہد حسین نے سید قومی پارلیمانی کانفرنس میں وزیر اعظم کو مخاطب کر کہا کہ ’’ یہ وقت فیصلے کرنے کا ہے، فوجی عدالتیں قائم کی جائیں، وزیر اعظم صاحب، ہم آپ کے ساتھ ہیں، امریکہ نے بھی فوجی عدالتیں قائم کی ہیں، وزیر اعظم بھی قدم آگے بڑھائیں‘‘ قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپائو نے بھی کہا کہ غیر معمولی حالات میں فوجی عدالتوں کا قیام ہونا چاہیے ۔جب پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ انسداد دہشت گردی کی عدالتیں ان کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں تو وزیر اعظم محمد نواز شریف نے برجستہ جواب دیا ’’ آپ فکر نہ کریں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ان کو بھی سزا دی تھی لیکن وہ آج تیسری بار وزیر اعظم منتخب ہو گئے ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین و سابق صدر آصف علی زرداری نے فوجی عدالتوں کی حمایت کرتے ہوئے کہا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے تاہم انہوں اس خدشے کا برملا اظہار کر دیا ہے ’’ کہیں ایسا نہ ہو میں اور نواز شریف ہی اس قانون کے تحت جیل چلے جائیں ۔‘‘پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹرز میاں رضا ربانی اور کاظم شاہ شدو مد سے فوجی عدالتوں کی مخالفت کر رہے ہیں کاظم شاہ نے تو اپنی پارٹی کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سوچ سمجھ کر ’’زہر کا پیالہ ‘‘ پیئے۔ حکومت نے مسودہ قانون میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے دو سال کی مدت کا تعین کر دیا ہے، مقررہ مدت کے بعد یہ عدالتیں خود بخود ختم کردی جائیں گی۔ سیاسی جماعتوں کا کہنا ہے کہ خصوصی عدالتوں میں سیاسی کارکنوں کے خلاف مقدمات بنانے کی بجائے اس کا دائرہ دہشت گردوں تک محدود ہو گا۔ وزیراعظم نواز شریف دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اقدامات کرنے کے لئے اس حد تک پر عزم ہیں کہ دستور کی عملداری بھی رہے اور انہیں لولے لنگڑے فیصلے بھی نہ کرنا پڑیں۔ان کا کہنا ہے ایک جنگ شمالی وزیرستان میں دہشت گردی کے خلاف لڑی جارہی ہے دوسری جنگ ان عناصر کے خلاف لڑنی پڑے گی جو ہمارے اندر بیٹھ کر دہشت گردوں کی مدد اور ان کو کنٹرول کررہے ہیں۔ بروقت فیصلے نہ کئے گئے تو سانحہ پشاور جیسے مزید واقعات رونما ہوسکتے ہیں ۔آج قومی اسمبلی کے اجلاس میں صورت حال واضح ہو جائے گی کہ حکومت فوجی افسران کی سربراہی میں خصوصی عدالتیں قائم کرنے میں کامیا ب ہوتی یا پسپائی اختیار کرتی ہے صورت حال واضح ہو جائے گی۔