فوجی عدالتوں کا کسی بھی شکل میں قیام آئین و قانون کیخلاف ہے: لاہور ہائیکورٹ بار
لاہور (وقائع نگار خصوصی) لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن نے فوجی عدالتوں کی کسی بھی شکل میں قیام کو آئین اور قانون کے خلاف قرار دیتے ہوئے مسترد کردیا ہے۔ جنرل ہائوس اجلاس میں منظور کی گئی متفقہ قرارداد میں قومی اسمبلی اور سینٹ سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ کسی طور پر ایسا بل کو منظور نہ کریں جس کے تحت فوجی عدالتیں قائم ہوں۔ موجودہ نظام عدل مضبوط کیا جائے۔ متعلقہ ایجنسیوں اور تفتیش کا نظام بہتر کیا جائے۔ گواہوں کی سکیورٹی کا مناسب بندوبست کیا جائے۔ بار ملک بھر کی وکلاء برادری سے فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالہ سے آگاہی حاصل کرنے کیلئے آل پاکستان نمائندہ وکلا کنونشن بلائیگی۔ اجلاس ملٹری کورٹس کے قیام پر وکلاء برادری کے تحفظات، خدشات اور تجاویز پر غورکیلئے عامر جلیل صدیقی قائم مقام صدر لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کی زیرصدارت ہوا جس میں عاصمہ جہانگیر، میاں محمد احمد چھچھر سیکرٹری، میاں محمد اقبال فنانس سیکرٹری کے علاوہ وکلاء کی کثیر تعداد نے شرکت کی۔ قائم مقام صدر لاہور ہائیکورٹ بار عامر جلیل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم حکومت اور پارلیمنٹ میں موجودہ سیاسی جماعتوں کے نمائندوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ آئین، قانون، عدلیہ اور جمہوریت کے اصل فریق پاکستان کے وکلا ہیں۔ میاں محمد احمد چھچھر،چودھری ذوالفقار علی، عبدالرشید قریشی، بیرسٹر ظفر اللہ خان ، ملک محمد احمد قیوم، راجہ ذوالقرنین، تنویر چودھری، شیخ مشتاق احمد اور حامد خان نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سانحہ پشاور کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔ اس سانحہ نے نہ صرف پاکستان بلکہ تمام مہذب دنیا کے عوام کو رلا دیا۔ سانحہ پشاور کے بعد فوج ، حکومت اور پارلیمنٹ میں موجود سیاسی اکابرین سرجوڑ کر بیٹھے اور فیصلہ فوجی عدالتوں کے قیام کے حق میں ہوا۔ وکلاء برادری آئین کی امین ہے ہم نے آئین و قانون کی حکمرانی، عدلیہ اور جمہوریت کی مضبوطی کیلئے بے پناہ قربانیاں دی ہیں۔ ہم دہشت گردی میں ملوث افراد اور انکے حامیوں کی سخت سے سخت سزا کے حق میں ہیں لیکن اسکا حل فوجی عدالتوں کے قیام سے اسلئے ممکن نہیں، اس سے پہلے فوجی عدالتوں کے تجربہ میں عوام گزر چکے ہیں۔ موجودہ عدالتی نظام اور جمہوریت میں خامیاں ہوسکتی ہیں لیکن یہ تمام خامیاں مارشل لاء کے نفاذ سے بدرجہا بہتر ہیں۔ فوجی عدالتوں کا قیام بنیادی انسانی حقوق کی نفی ہے جسے وکلاء کسی صورت برداشت نہیں کریں گے، ہمیں یہ دیکھنا اور سوچنا ہے کہ سانحہ پشاور کس ادارے کی ناکامی ہے۔ کیا فوجی عدالتوں کے قیام کا مقصد دہشت گردوں کو خوفزدہ کرنا ہے جو پہلے ہی اپنے آپ کو مارنے پر تیار ہیں۔ موجودہ عدالتی نظام آئین کے دائرہ میں رہ کر بہتر بنایا جائے، اچھی اور بری جہادی تنظیموں میں فرق بھی ختم کردیا جائے، تمام نجی فوجوں کی موجودگی کا قلع قمع کیا جائے۔ عوام فوج کے ساتھ کھڑے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ لڑنا انکا کام ہے۔ فوجی عدالتوں کا قیام آئین میں دیئے گئے بنیادی انسانی حقوق کو ختم کرنا ہے، ہم پارلیمنٹ کو یہ کام نہیں کرنے دیں گے۔ سول اداروں کی بالادستی دہشت گردی روکنے کی واحد چابی ہے۔