• news

سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری پر بھارتی جارحیت کی انتہائ‘ فلیگ میٹنگ کیلئے بلا کر پاکستانی اہلکاروں پر فائرنگ اور ڈھٹائی

اس جنونیت کا جواب محض رسمی احتجاج نہیں‘ دشمن کو سبق سکھانے والے اقدامات ہیں
جنگی جنون میں مبتلا بھارتی سکیورٹی فورسز نے سیالکوٹ ورکنگ بائونڈری کے شکرگڑھ سیکٹر میں فلیگ میٹنگ کیلئے بلائے گئے رینجرز کے جوانوں پر فائرنگ کردی جس سے دو رینجرز اہلکار نائیک محمد ریاض شاکر اور نائیک محمد صفدر شہید ہو گئے۔ یہ دونوں اہلکار بھارتی فائرنگ سے زخمی ہو کر گرے تو رینجرز کے جوان انہیں اٹھانے کیلئے آگے بڑھے مگر بھارتی بی ایس ایف کے اہلکاروں نے ان پر بھی فائرنگ کر دی اور انہیں اپنے زخمی ساتھیوں کو فوری طبی امداد کیلئے اپنے ساتھ نہ لے جانے دیا جبکہ بھارتی فورسز نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور تمام دوطرفہ امن معاہدوں اور بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے زخمی جوانوں تک ایمبولینس کی رسائی بھی نہ ہونے دی چنانچہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے موقع پر ہی شہید ہو گئے۔ دشمن فوج کی فائرنگ کے بعد پاک رینجرز کی جانب سے بھرپور جوابی کارروائی کی گئی۔ ترجمان پاک رینجرز کا کہنا ہے کہ بی ایس ایف لوکل کمانڈر نے فلیگ میٹنگ سے متعلق کال دی تھی‘ رینجرز افسروں کو بلا کر دھوکے سے فائرنگ کی گئی۔ بھارتی فورسز نے ورکنگ بائونڈری پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری بھی کی اور بھورے چک‘ لمبڑیال اور ٹنڈر چیک پوسٹوں کو نشانہ بنایا۔ بھارت نے مزید ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کنٹرول لائن پر سیزفائر کی خلاف ورزی کا الزام بھی پاک فوج پر عائد کر دیا اور کہا کہ پاکستانی فوج کی سامبا سیکٹر پر فائرنگ سے ایک بھارتی فوجی ہلاک اور دوسرا زخمی ہوا ہے۔ دوسری جانب بھارتی وزیر دفاع منوہر پریکر نے ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی طرف سے سیزفائر کی خلاف ورزیوں کی صورت میں بھارت جوابی کارروائی میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریگا۔
ویسے تو قیام پاکستان کے وقت سے ہی ہمیں بھارت کی جانب سے بدترین دشمنی اور جارحیت کا سامنا ہے جو ہم پر تین جنگیں مسلط کرکے پاکستان کو دولخت بھی کر چکا ہے تاہم بھارت کی مودی حکومت نے تو اقتدار میں آتے ہی پاکستان دشمنی کی انتہاء کر دی ہے اور وہ پرامن بقائے باہمی کے عالمی اصولوں سمیت جنگی قوانین اور اخلاقیات کو بھی ملیامیٹ کررہا ہے جو اس امر کا بین ثبوت ہے کہ بی جے پی کی حکمرانی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اپنے دور حکومت میں ہی پاکستان کی سلامتی ختم کرنے کی گھنائونی منصوبہ بندی کئے بیٹھے ہیں جس کا وہ آئے روز کی ننگی جارحیت کے ذریعے ثبوت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ اسکے برعکس وزیراعظم میاں نوازشریف کو بی جے پی کے سابقہ اقتدار میں پاکستان بھارت تنازعات کے حل کیلئے واجپائی کے ساتھ ہونیوالی پیش رفت کے تناظر میں توقع تھی کہ پاکستان بھارت مذاکرات کا جو ایجنڈا اکتوبر 99ء میں حکومت پاکستان پر فوجی شب خون کے باعث ادھورا رہ گیا تھا‘ وہ اب بی جے پی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے سے پیش رفت کے اگلے مراحل طے کرلے گا۔ اسی خوش فہمی میں وزیراعظم نوازشریف بھارت پر ریشہ خطمی ہوتے رہے اور اسکے ساتھ نرم سے نرم شرائط پر تجارت اور دوستی کی راہیں ہموار کرتے رہے۔ اسی خوش فہمی میں وہ نریندر مودی کی دعوت پر انکی حلف برداری کی تقریب میں شمولیت کیلئے نئی دہلی گئے مگر مودی نے اگلے روز رسمی ملاقات میں بھی تمام سفارتی آداب اور مہمان نوازی کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ان پر دراندازی کے بے بنیاد الزامات کی صورت میں چڑھائی کر دی اور اپنی جانب سے الزامات کی طویل فہرست تھما کر انہیں پاکستان روانہ کیا چنانچہ مودی کے اقتدار کے آغاز میں ہی پاکستان کو واضح پیغام مل گیا تھا کہ مودی پاکستان اور مسلمانوں کیخلاف اپنی جنگی جنونی ذہنیت کو عملی جامہ پہنانے کی ٹھان کر اقتدار میں آئے ہیں جس کیلئے انہوں نے اپنے انتخابی منشور میں ہی پاکستان دشمنی کو فوکس کرکے منصوبہ بندی کی تھی۔ اس طرح مودی پاکستان کیلئے بغل میں چھری منہ میں رام رام کا عملی نمونہ ثابت ہوئے ہیں اور اپنے اقتدار کے ابتدائی چھ ماہ کے دوران ہی انہوں نے پاکستان کے ساتھ دشمنی پر مبنی اپنے ایجنڈے کو انتہاء تک پہنچا دیا ہے۔ اسی ایجنڈے کی بنیاد پر انہوں نے گزشتہ سال ستمبر میں یو این جنرل اسمبلی کے سالانہ اجلاس کے موقع پر وزیراعظم پاکستان سے نہ صرف ملاقات سے گریز کیا بلکہ انہیں سخت پیغامات بھی دیتے رہے۔ اسی طرح دو ماہ قبل کی سارک سربراہ کانفرنس کے موقع پر بھی انہوں نے وزیراعظم پاکستان کے ساتھ دانستہ طور پر سرد مہری کا رویہ اپنائے رکھا اور کانفرنس کے آخری روز اختتامی سیشن کے بعد میاں نوازشریف سے مصافحہ کرتے ہوئے بھی اپنی باڈی لینگویج کے ذریعے یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انہیں کسی بھی فورم پر اپنے پڑوسی پاکستان کی کوئی پرواہ نہیں ہے۔ جہاں تک پاکستان اور بھارت کے مابین دیرینہ تنازعہ کشمیر کا معاملہ ہے تو اس پر کسی قسم کی بات کے دروازے مودی حکومت نے اقتدار میں آتے ہی بند کر دیئے اور اسکے برعکس مقبوضہ کشمیر کو اپنی ہٹ دھرمی کے مطابق اپنا اٹوٹ انگ بنانے کے آئینی اقدامات بھی اٹھالئے جس کے تحت بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے مقبوضہ وادی کے مسلم اکثریتی علاقوں میں ہندوئوں کو غلبہ دلانے کی سازش کی جس پر عملدرآمد کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ ان بھارتی سازشوں کیخلاف کشمیری عوام اور حریت قائدین بھی اتنی ہی شدت سے عالمی فورموں پر آواز اٹھا رہے ہیں اور کٹھ پتلی اسمبلی کے حالیہ انتخابات میں بھی انہوں نے عمر عبداللہ کا تختہ الٹ کر واضح پیغام دیا ہے کہ انکے استصواب کے حق کو جبراً دبائے نہیں رکھا جا سکتا۔
بھارت کی جانب سے سرحدی کشیدگی تو کانگرس کے دور میں بھی بڑھائی جاتی رہی ہے مگر مودی حکومت نے تو اس معاملہ میں بھی انتہاء کر دی ہے اور علاقائی و عالمی امن کے داعی ممالک اور عالمی تنظیموں بشمول اقوام متحدہ کیلئے یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ بھارت نے گزشتہ تین برسوں میں پاکستان کے اندر 95 بار بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کی ہے جس کے نتیجہ میں رینجرز کے تین اہلکار اور 12 شہری شہید ہوئے ہیں جبکہ مودی حکومت کے دور میں تو کسی طے شدہ ایجنڈے کے تحت بھارتی سکیورٹی فورسز پاکستان کے اندر تواتر کے ساتھ جارحیت کا ارتکاب کر رہی ہیں اور شہری آبادیوں پر فائرنگ اور گولہ باری سے بھی باز نہیں آرہیں چنانچہ سرحدی آبادیوں کے ہزاروں مکین اب تک نقل مکانی کر چکے ہیں۔ گزشتہ روز کا بھارتی بارڈر فورس کی فائرنگ کا واقعہ تو اسکی کھلم کھلا جارحیت کی انتہاء ہے جس کیلئے بھارتی فورسز نے پاکستان بھارت سیزفائر کے معاہدوں کے علاوہ بین الاقوامی اصولوں اور قواعد و ضوابط کی بھی دھجیاں بکھیر دی ہیں اور دھوکہ دہی سے فلیگ میٹنگ کیلئے پاکستان رینجرز کے افسران کو بلوا کر ان پر یکطرفہ بلااشتعال اور بے دریغ فائر کھولے ہیں۔ ننگی جارحیت کا یہ واقعہ بھارت کی جنونی قیادت کی جانب سے پاکستان کو ایک طرح سے نئے سال کا پیغام ہے کہ وہ اب اپنی سلامتی کی فکر کرے۔ بھارت کی سفاکی اور جنونیت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو سکتا ہے کہ پاکستان رینجرز کے اہلکاروں کو یکطرفہ فائرنگ سے زخمی کرکے ان تک فوری طبی امداد بھی نہ پہنچنے دی گئی اور انہیں جائے وقوعہ پر ہی تڑپ تڑپ کر مرنے دیا گیا۔ یہ بھارتی سفاکی تو اسے منہ توڑ جواب کی متقاضی ہے۔ اگرچہ بھارتی فائرنگ کے بعد پاکستان رینجرز نے جوابی کارروائی کی ہے مگر ایسی بھارتی جنونیت پر تو اسے موقع پر ہی سبق سکھایا جانا چاہیے۔ بھارت تو یقیناً دہشت گردی کے پیدا کردہ ہمارے اندرونی حالات اور اپریشن میں افواج پاکستان کی مصروفیت سے فائدہ اٹھا کر ہماری سالمیت پر شب خون مارنے کی منصوبہ بندی کئے بیٹھا ہوگا اس لئے کسی بھی حالت میں ہمارے حکمرانوں اور عسکری قیادتوں کو ملکی دفاع و سلامتی کے تقاضے نبھانا ہونگے اور دشمن کیلئے اپنی کسی کمزوری کا تاثر پیدا نہیں ہونے دینا ہوگا۔ مکار دشمن کی ہر چال اور ہر سازش سے ہوشیار رہنا اور اس کا بروقت اور مؤثر توڑ کرنا ہمارے لئے ازحد ضروری ہے جس میں کسی قسم کی کمزوری ہماری سالمیت کیلئے انتہائی خطرناک ہو سکتی ہے۔ اسی تناظر میں تمام قومی سیاسی قائدین نے حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ اس بھارتی جارحیت پر ہرگز خاموش نہ رہے اور مکار دشمن کو بھرپور جواب دیا جائے۔
اگرچہ اس بھارتی یکطرفہ جارحیت کے بعد دفتر خارجہ پاکستان نے بھارتی ڈپٹی ہائی کمشنر کو طلب کرکے سخت احتجاج کیا ہے مگر اب صورتحال محض رسمی احتجاج پر اکتفا کرنیوالی نہیں‘ حکومت کو نہ صرف عالمی برادری‘ اقوام متحدہ اور ہر دوسرے عالمی فورم پر اس بھارتی جارحیت کیخلاف سخت احتجاج کرنا اور اسکے جارحانہ عزائم سے آگاہ کرنا چاہیے بلکہ ملک کے دفاع کو مزید مضبوط بنانے کے تمام ممکنہ عملی اقدامات بھی اٹھانے چاہئیں۔ ملک کی سالمیت سے بڑھ کر تو ہمیں کوئی چیز عزیز نہیں ہو سکتی اس لئے آج بھارت کو ایسا سخت پیغام دیا جائے کہ آئندہ اسے کنٹرول لائن پر پاکستان کیخلاف ایسی ننگی جارحیت کی جرأت نہ ہو۔ قوم کو بہرصورت ملک کی سالمیت کے تحفظ کے حوالے سے سخت تشویش ہے۔

ای پیپر-دی نیشن