• news

2014ء اعلیٰ عدلیہ نے کئی اہم فیصلے منطقی انجام تک پہنچائے

عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد عوام الناس نے اس ادارے سے بہت امیدیں وابستہ کر لیں۔جس کی وجہ سے سائلین کی تعداد میں خاصا اضافہ ہوا۔وکلاء اور قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ عدالتی نظام میں بنیادی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ سستے اور فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جا سکے۔اگر رواں سال میں اعلی عدالتوں میں زیر سماعت مقدمات پر نظر ڈالی جائے تو2014 اعلی عدلیہ کے حوالے سے اہم فیصلوں کا سال رہا۔لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے وزیر اعظم میاں نواز شریف اور وزیر اعلی پنجاب کے خلاف سانحہ ماڈل ٹائون کا مقدمہ درج کرنے کا حکم اہم ترین فیصلہ رہا۔سپریم کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں حکومتی احکامات اورتقرریوں کے خلاف کیسز میںوزرائ،بیوروکریٹس،خفیہ ایجنسیوں کے سر براہوں اور سیاسی شخصیات کو نوٹسز کا سلسلہ جاری رہا جبکہ مہنگائی،پٹرولیم مصنوعات میں اضافے اور لوڈ شیڈنگ سمیت بنیادی حقوق کے حوالے سے دائر رٹ درخواستوں کی سماعت بھی ہوتی رہی۔سپریم کورٹ کی طرف سے دی گئی مہلت پر چیف الیکشن کمشنر کے طور پر فیڈرل شریعے کورٹ کے چیف جسٹس سردار رضا خان کی تقرری کی گئی۔ججز کی تقرریوں کے مروجہ طریقہ کار پر بار ایسوسی ایشنز نے اعلی عدلیہ سے اس سال بھی اختلاف رائے رکھا۔سپریم کورٹ میں زیر التواء مقدمات کی تعداد18ہزار جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں60ہزار سے زائد ہے۔لاہور ہائی کورٹ میں شہریوں کی طرف سے سب سے زیادہ رٹ درخواستیں محکمہ پولیس کے خلاف دائر ہوئیں جبکہ ایل ڈی اے دوسرے نمبر پر رہا۔پرویز مشرف کے خلاف آرٹیکل6کے تحت مقدمے میں خصوصی عدالت کی طرف سے سابق وزیر اعظم شوکت عزیز،سابق چیف جسٹس عبد الحمید ڈوگر اور مشرف دور کے وزیر قانون زاہد حامد کو شریک ملزم کے طور پر شامل کرنے کا حکم بھی اہم ترین فیصلہ رہا۔گزشتہ سال کی طرح سپریم کورٹ میں عوامی مفاد کی ہزاروں درخواستیں بھجوائی گئیں تاہم سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی طرح از خود نوٹس لینے کی بجائے زیادہ تر درخواستیں مختلف محکموں کو بھجوائی گئیں۔اس سال عوامی درخواستوں کی تعداد10ہزار سے زائد رہی۔ سپریم کو رٹ نے وزیر اعظم کی نا اہلی اور 2013کے عام انتخابات کو کالعدم قرار دینے کیلئے دائر رٹ درخواستیں خارج کر دیں۔جسٹس تصدق حسین ھیلانی کی ریٹائرمنٹ کے بعد جسٹس ناصر الملک نے بطور چیف جسٹس آف پاکستان حلف اٹھایا۔ جبکہ لاہور ہائی کورٹ میں مسٹر جسٹس خواجہ امتیاز احمد بطور چیف جسٹس تعینات ہوئے۔ رواں ال لاہور ہائی کورٹ میں16نئے ججز کی تقرریاں کی گئیں۔جس سے لاہور ہائی کورٹ میں پہلی بار فاضل ججز کی تعداد57ہو گئی جبکہ منظور شدہ آسامیوں کی مجموعی تعداد60ہے۔رواں سال لاہور ہائی کورٹ کی طرف سے بیرون ملک غیر قانونی اثاثہ جات کیس میں وزیر اعظم اور وزیر اعلی سمیت66سیاستدانوں،بیوروکریٹس اور دیگر اہم شخصیات کو نوٹس جاری کئے گئے۔لاہور ہائی کورٹ میں مریم نواز کی کی بطور چئیرپرسن یوتھ لون پروگرام تقرری کو چیلنج کیا گیا۔فاضل عدالت کی طرف سے وفاقی حکومت کو نوٹس جاری کئے جانے پر مریم نواز نے عہدے سے استعفی دے دیا۔ لاہور ہائی کورٹ میں پاکستان تحریک انصاف کے آزادی مارچ اور عوامی تحریک کے انقلاب مارچ کے خلاف متعدد درخواستیں دائر کی گئیں۔فاضل عدالت نے پرامن احتجاج کو ہر شہری کا بنیادی حق قرار دیتے ہوئے کسی بھی طرح کے غیرقانونی دھرنے سے روک دیا۔فاضل عدالت نے دونوں جماعتوں کی درخواستوں پر نظر بند کارکنوں کی رہائی کے احکامات دیئے۔ہائی کورٹ میں عمران خان اور ڈاکٹر طاہر القادری کے خلاف غداری کے مقدمے کیلئے رٹ درخواستیں دائر کیں جس میں عدالت نے حکومت سے جواب طلب کر رکھا ہے۔ ہائی کورٹ نے بزرگ پنشنرز کو پنشن اور عدالتی اہلکاروں کو جوڈیشل الائونس کی مد میں ادائیگیوں کا حکم دیا۔رواں سال لاہور ہائی کورٹ کے مسٹر جسٹس علی باقر نجفی پر مشتمل جوڈیشل کمیشن نے سانحہ ماڈل ٹائون میں پنجاب حکومت کو ذمہ دار قرار دیا مگر پنجاب حکومت کے اعلی عہدیداروں نے رپورٹ کو نامکمل قرار دیا۔ہائی کورٹ میں رواں سال الیکشن ٹریبونل کے عبوری فیصلوں کے خلاف دائر تمام درخواستیں خارج کر دی گئیں۔سپریم کورٹ لاہور رجسٹری میں پی آئی سی از خود نوٹس کیس اور مغلپورہ کی5سالہ بچی سے زیادتی پر لئے گئے از خود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔پولیس رواں سال بھی زیادتی کے ملزموں کو گرفتار نہیں کر سکی۔ہائی کورٹ نے حبس بے جا کی درخواستوں میں سینکڑوں بھٹہ مزدوروں کی رہائی کے احکامات جاری کئے۔عدالتی احکامات کے باوجود ہزاروں شہریوں سے مبینہ فراڈ کرنے والے فیوچر کنسرن کمپنی کے مالک عاصم ملک کو پولیس اور ایف آئی اے اس سال بھی گرفتار نہیں کر سکی۔متعدد رٹ درخواستوں میں ہائی کورٹ نے بالغ اور عاقل لڑکیوں کی طرف سے کی جانے والی پسند کی شادیوں کو قانونی قرار دے کر انہیں اپنے خاوندوں کے ساتھ جانے کی اجازت دی۔پسند کی شادی کرنے والی جڑانوالہ کی رہائشی خاتون فرزانہ بی بی کو لاہور ہائی کورٹ کے گیٹ پر اینٹیں مار مار کر قتل کر دیا گیا۔ ہائی کورٹ میں رٹ درخواستوں کو کمپیوٹرائزڈ کرنے،ہیلپ لائن کے اجراء اور عدالتی اہلکاروں کیلئے تربیتی پروگراموں کا بھی انعقاد کیا گیا۔پنجاب بار کونسل نے متعدد وکلاء کے خلاف مس کنڈکٹ کی شکایات پر ان کے لائسنس معطل کر کے نوٹس جاری کئے۔جبکہ دو افراد کے خلاف بطور وکیل جعلی لائسنس رکھنے پر اندراج مقدمہ کی درخواستیں دی گئیں۔سپریم کورٹ بار میں عاصمہ جہانگیر گروپ اورلاہور ہائی کورٹ بار کے انتخابات میںپروفیشنل گروپ کے امیدواروں نے کامیابی حاصل کی۔پنجاب جوڈیشل اکیڈمی میں رواں سال بھی ضلعی عدلیہ کے ججز کی استعداد کار بڑھانے کیلئے تربیتی پروگراموں کا سلسلہ جاری رہا۔لاہور ہائی کورٹ میں مصطفی رمدے کی بطور قائم مقام ایڈووکیٹ جنرل تعیناتی کو چیلنج کیا گیا تو انہوں نے اپنے عہدے سے استعفی دے دیا جس کے بعد سیئنر لاء آفیسر حنیف کھٹانہ کو ایڈووکیٹ جنرل پنجاب مقرر کیا گیا۔رواں سال پنجاب بار کونسل کے انتخابات بھی ہوئے جس میں صوبے کے تمام اضلاع سے75ارکان کا انتخاب کیا گیا۔اس کے علاوہ سیکورٹی کے حوالے سے بھی خصوصی اقدامات کئے گئے۔خصوصاً سانحہ پشاور کے بعدسکیورٹی خدشات کے پیش نظر لاہور ہائیکورٹ اور ماتحت عدالتوں میں سکیورٹی سخت کر دی گئی۔ہائیکورٹ کے علاوہ لاہور کی سیشن عدالتوں اور دیگر ضلعی عدالتوں کی چھتوں پر ماہر نشانہ باز تعینات کر دئیے گئے ہیں۔عدالتوں میں غیر متعلقہ افراد کے داخلے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے اور عدالتوں میں پیش ہونے والے سائلین کو جامع تلاشی کے بعد عدالتوں میں جانے کی اجازت دی۔عدالتوں کے مرکزی دروازوں کے باہر بھی ریت کی دیواریں بنا کر پولیس اہلکاروں کو سکیورٹی کے لئے کھڑا کر دیا گیا ہے۔آئینی ماہرین اور وکلاء کا کہنا ہے کہ سال2014میں میں جو عدالتی نظام کی بہتری کیلئے کام مکمل نہیں ہو سکا اسے آئندہ سال کیا جانا چاہئیے۔

ای پیپر-دی نیشن