ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
میں جنرل عبدالقادر بلوچ کے لئے نرم گوشہ رکھتا ہوں۔ نرم گوشہ تو بہت سوں کے لئے رکھتا ہوں مگر گوشہ عافیت نہیں ملتا۔ ہمارے ملک میں عافیت کہیں گم ہو گئی ہے۔ ہم ڈاکٹر عافیہ کے لئے بھی کچھ نہ کر سکے۔ نئے سال کے لئے مبارکباد کے بہت پیغام آئے۔ ایک میسج ڈاکٹر فوزیہ کا بھی تھا۔ یہ سال اس ثابت قدم نظریاتی اور پاکستانی عورت کی دہائی کا سال ہو۔ ہم خود 67 برسوں سے رہا نہیں ہو سکے۔ ہماری آزادی ایک وکھری ٹائپ کی غلامی کا آغاز بن گئی۔ ہمارے حکام صرف غلام ہیں۔ غلام ابن غلام۔ نہ ہماری خارجہ پالیسی نہ داخلہ نہ دفاعی پالیسی ہمارے سیاستدان اپنی فوج سے ڈرتے ہیں۔ فوج تو دشمنوں کو ڈرانے کے لئے ہوتی ہے۔ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ ہمارا دشمن کون ہے۔ یہ تو طے ہے کہ ہم خود اپنے دشمن ہیں۔ بھارت سمجھتا ہے اور کہتا بھی ہے کہ پاکستان بھارت کا دشمن ہے مگر پاکستانی حکمران سمجھتے نہیں اور کہتے بھی نہیں کہ بھارت ہمارا دشمن ہے؟
جو کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے ہم خود کر رہے ہیں مگر ہم سے کروایا جا رہا ہے تو کون کروا رہا ہے۔ کس ملک کا فائدہ ہمارے نقصان میں ہے۔ وہ صرف بھارت ہے۔ سب دنیا کہتی ہے کہ آرمی پبلک سکول پشاور میں ظالمانہ دہشت گردی بھارت نے کروائی ہے۔ وزیراعظم بھارت مودی صاحب پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے دوست ہیں؟
آرمی پبلک سکول پشاور میں دہشت گردی کے بعد صرف ’’رہنمائوں‘‘ کی میٹنگز ہو رہی ہیں۔ کوئی عملی کارروائی اب تک نہیں ہوئی۔ صرف آپریشن ضرب عضب میں تیزی آئی ہے۔ آپریشن ضرب عضب کا دائرہ ملک کے اندر بڑھانے کا مطالبہ روز بروز بڑھتا جا رہا ہے۔ صرف بیانات اور بحث مباحثہ اتفاق اور اختلافات… دہشت گردی پر کم اور فوجی عدالتوں پر زیادہ بات ہو رہی ہے۔ وزیراعظم ہائوس میٹنگ ہائوس بن چکا ہے۔ کوئی پوچھے عمران خان سے کہ تم نے دھرنے اور جلسے ختم کئے تھے کہ نواز شریف کی صدارت میں بے عملی کی وارداتوں میں شریک ہوں۔ اب بھی جوڈیشل کمیشن عمران کے لئے زیادہ اہم ہے۔ اور دوسری شادی؟ میں اس کے لئے الگ کالم لکھنا چاہتا ہوں۔
’’صدر‘‘ زرداری بھی چکلالہ ائر پورٹ سے پہنچ گئے ہیں۔ کیا وہ نواز شریف کے ساتھ بھی اس طرح بیٹھیں گے جیسے ’’نااہل‘‘ وزیراعظم گیلانی اور ’’رینٹل‘‘ وزیراعظم راجہ صاحب کے ساتھ بیٹھا کرتے تھے۔ تو پھر جنرل راحیل شریف کہاں بیٹھیں گے انہیں آج کل سیاستدانوں کے ساتھ بٹھایا جاتا ہے جیسے وہ بھی نواز شریف کی کابینہ کے ممبر ہوں۔ کراچی کوئٹہ پشاور سے لوگ آتے ہیں اور سوائے اخراجات کے کچھ بھی نہیں ہوتا۔ ’’صدر‘‘ زرداری تو سپیشل طیارے سے آئے ہیں۔ شاید یہ طیارہ انہیں ملک ریاض نے دیا ہو۔ جیسے عمران خان جہانگیر ترین کے طیارے میں آتے ہیں۔ ’’صدر‘‘ زرداری پیپلز پارٹی میں منظور وٹو کی طرح ملک ریاض کو کوئی عہدہ کب دیتے ہیں۔
آج میں نواز شریف کی کابینہ کے ایک ریٹائرڈ جنرل عبدالقادر بلوچ اور سرتاج عزیز کا ذکر بڑے دکھ سے کرنے والا ہوں۔ اکثر ریٹائرڈ جرنیلوں اور جرنیلوں کے بیٹوں کو وزیر شذیر جمہوری دور حکومت میں بنایا جاتا ہے۔ نواز شریف نے یہ خاص مہربانی زیادہ کی ہوئی ہے۔ سنا ہے کہ جنرل راحیل شریف کے لئے آرمی چیف کے طور پر تعیناتی میں جنرل عبدالقادر بلوچ کا بڑا ہاتھ ہے مگر جنرل بلوچ نے شاید نواز شریف کو نہیں بتایا تھا کہ میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر جنرل مشرف کے بہت قریبی دوست تھے۔ اب بھی کوئی رستہ نکالنے کے لئے بلوچ صاحب پر انحصار کیا جا رہا ہے۔ معاملہ تقریباً طے ہو گیا ہے؟ دونوں شریفوں (سیاسی اور فوجی) میں پے در پے ملاقاتوں کا سلسلہ بھی جنرل بلوچ کا اہتمام ہو گا مگر یہ مناسب نہیں ہے۔ سیاسی حوالے سے بھی اور عسکری حوالے سے بھی؟ دو الگ الگ مصرعے مجھے یاد آ رہے ہیں اسے آپ چاہیں بھی تو ایک شعر نہیں بنا سکتے۔ مسلم لیگ ن والے آج کل شعر کو شیر پڑھتے ہیں۔ ایک محفل میں شاعر سے کہا گیا کہ یہ کیا سنا رہے ہو۔ کوئی ببر شعر سنائو۔
ایک مصرعہ ہے:
قدر کھو دیتا ہے ہر روز کا آنا جانا
دوسرا مصرعہ ہے:
ملاقاتیں مسلسل ہوں تو دلچسپی نہیں رہتی
یہ بات میں نے نواز شریف اور راحیل شریف دونوں کے فائدے میں کی ہے جبکہ مجھے زندگی بھر فائدے نقصان کا کبھی پتہ نہیں چلا۔ فائدے بھی مجھے ہوئے ہوں گے مگر میں نے نقصان بہت اٹھائے ہیں۔ ویسے مزا نقصان اٹھانے میں ہے۔
میں کالم میں بات بھارت کے ساتھ تعلقات تجارت اور دوستی کے حوالے سے کرنا چاہتا تھا۔ اور بہت دکھی تھا۔ یہ ناممکن ہے اور ممکن بھی ہے۔ ممکن ہماری حکومتوں کی طرف سے اور ناممکن بھارتی حکمرانوں کی طرف سے؟
شکر گڑھ سیالکوٹ کی سرحد پر بھارتی فوجیوں نے ہمارے رینجرز کو فلیگ میٹنگ کے لئے بلا کے فائرنگ کر کے زخمی کیا اور گولیوں کی بوچھاڑ میں زخمی سپاہیوں کو اٹھانے نہ دیا اور وہ شہید ہو گئے۔ اس پر برادرم حامد میر کے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے ہمارے ایک وزیر جنرل عبدالقادر بلوچ نے جو انداز اختیار کیا وہ نہ سیاسی تھا ور نہ فوجی تھا۔ کوشش ان کی تھی کے جیسے وہ وزیر نہ ہوں، سفیر ہوں اور وہ بھی بھارت میں پاکستانی سفیر ہوں۔ مگر پاکستانی سفیر کا بھی یہ طریقہ نہیں ہوتا جو جنرل بلوچ نے اپنایا۔
انہوں نے کہا کہ کچھ دنوں میں صدر اوباما بھارت آ رہے ہیں اور بھارت یہ تاثر ان کے دل میں ڈالنا چاہتا ہے کہ سب اشتعال انگیزی اور شرپسندی پاکستان کر رہا ہے اور صدر اوباما مان جائیں گے تو ہمیں احتیاط کرنا چاہئے۔ میرے خیال میں یہ سرحدی خلاف ورزی نہیں ہے۔ یہ دہشت گردی ہے اور دہشت گردی برسوں سے بھارت پاکستان میں کروا رہا ہے۔ مصلحت اور سیاست کے پردے میں بزدلی کا مظاہرہ ایک جرنیل کی طرف سے اچھا نہیں ہے۔ جرنیل خواہ ریٹائر ہو وہ اتنا ’’محتاط‘‘ نہیں ہو سکتا۔ اس پر برادرم احمد اویس ایڈووکیٹ نے ایک شعر حامد میر کو سنایا تو انہوں نے کہا کہ آپ نے دریا کو کوزے میں بند کر دیا ہے۔ آج کل کوزے نہیں ہوتے۔ لوٹے بہت ہیں اور سیاست میں تو بہت زیادہ ہیں۔ اب پانی کا نالہ لوٹے میں بند کرنے کا محاورہ عام ہونا چاہئے۔ سیاستدانوں کے لئے تو یہ بھی ٹھیک ہے کہ وہ گندا نالہ لوٹے میں بند کرتے ہیں۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
کمزوری، بزدلی، مصلحت اندیشی اور سیاست بازی کا انجام موت ہے۔ اور ہمیں نہ مرنے دیا جاتا ہے اور نہ جینے دیا جاتا ہے۔ یہ کام بھی پاک فوج کے حوالے کر دیا جائے تو بھارت کو سبق سکھا دیا جائے گا۔ مجیب الرحمن شامی نے بھی کہا کہ ہم مقابلہ کریں گے اور پھر بھارت کو کوئی پناہ نہ ملے گی۔ دہشت گردی کا معاملہ بھی پاک فوج کے سپرد ہو تو فوری طور پر نتائج سامنے آئیں گے۔ ورنہ صرف میٹنگز کرنے سے کچھ نہیں ہو گا۔
مجھے یاد ہے کہ مرشد و محبوب مجاہد صحافت ڈاکٹر مجید نظامی کی یاد میں بہادر جنرل عبدالقیوم نے ایک سیمینار کرایا۔ وہاں بھی پاک فوج کے کردار کے حوالے بات ہوئی۔ نظامی صاحب نے ہمیشہ جابر سلطانوں کے سامنے کلمۂ حق بلند کیا۔ سلطانوں میں فوجی حکمرانوں سے بڑے جابر سلطان سیاسی تھے۔ وہاں بھی جنرل عبدالقادر نے خواہ مخواہ لوگوں کو ناراض کیا کہ وہ پاک فوج کے خلاف بات کر رہے ہیں۔ دانشور اور کالم نگار جنرل قیوم نے وضاحت کی کہ مجید نظامی پاک فوج کو پسند کرتے تھے اور اسے سرحدوں کا پاسبان سمجھتے تھے۔ لوگوں نے جنرل قیوم کی بہت جچی تلی جامع اور مربوط گفتگو کو پسند کیا۔ جنرل صاحب نے بہت برمحل اور خوبصورت شعر بھی سنائے۔ اس کے بعد بھی جنرل عبدالقادر اپنی ضد پہ اڑے رہے۔ ان سے تقریب کے بعد بھی سرسری گفتگو ہوئی مگر مجھے ان کا اظہار خیال پسند نہ آیا۔ وہ ایک جرنیل کے طور پر اپنے معاملات کو سلجھانے کے اسلوب کو سیاست میں ضائع نہ کریں۔ جنرل قیوم نے اس اسلوب کو محبوب بنا دیا ہے۔ ابھی سرتاج عزیز کی بات باقی ہے جنہیں رینجرز کی شہادت کے لئے نواز شریف نے پاکستان کا نمائندہ بنایا ہے۔ انہوں نے پہلے آرمی پبلک سکول پشاور کے لئے بغیر کسی تحقیق کے کہا ہے کہ اس دہشت گردی میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’’را‘‘ بالکل بے قصور ہے۔ سرتاج عزیز بچوں کی شہادت کو کیا اہمیت دیں گے۔ نواز شریف نے کچھ سوچ کر ہی سرتاج عزیز کے ذمے یہ کام لگایا ہے۔