بھارتی ڈرامہ بے نقاب‘ تباہ ہونے والی کشتی شراب اور ڈیزل کے سمگلروں کی تھی: انڈین ایکسپریس
نئی دہلی (آئی این پی+ نوائے وقت رپورٹ) بھارت کی جانب سے گجرات کے قریب مبینہ پاکستانی کشتی کی تباہی کا ڈرامہ بے نقاب ہو گیا ہے، جس کشتی کو تباہ کیا گیا وہ شراب اور ڈیزل کے سمگلروں کی نکلی ، بھارت کا پاکستان کے خلاف زہریلا پراپیگنڈا ایک مرتبہ پھر بے نقاب ہو گیا، کشتی کا ملبہ اکٹھا کیا جاتا تو فورنزک معائنے سے دھماکا خیز مواد کی نوعیت کا پتہ چل سکتا تھا، مچھلیاں پکڑنے والے تمام بھارتی ماہی گیروں نے بھی کہہ دیا ہے کہ انہوں نے اس رات کوئی کشتی جلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ بھارتی وزارت دفاع اور کوسٹ گارڈز نے سمند ر میں آتشزدگی کا نشانہ بننے والی کشتی کی تباہی کو پاکستان سے منسوب کرکے زہریلا پراپیگنڈا کیا کہ یہ ممبئی طرز کے حملوں کی ایک اور کوشش تھی۔ بھارت نے واویلا کرتے ہوئے امریکی صدر بارک اوباما کے دورۂ بھارت کے موقع پر بڑے دہشتگرد حملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی پاکستان پر دھر دیا تاہم پہلے کی طرح بھارت کا یہ پراپیگنڈا بھی ناکامی سے دوچار ہو گیا۔ جس طرح بھارتی حکومت پاکستان کو بدنام کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتی اسی طرح پاکستان سے متعلق رائی کو پہاڑ بناکر پیش کرنا متعصب بھارتی میڈیا کی پرانی عادت ہے، بھارتی حکومت اور میڈیا نے اسی روایت کو دہرایا مگر اس واقعے کو صرف 48 گھنٹے بعد ہی انڈین ایکسپریس نے اپنی وزارت دفاع کے دعووں کا پوسٹ مارٹم کرکے رکھ دیا۔ انڈین ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق جو شواہد سامنے آئے اْن سے پتہ چلتا ہے کہ ماہی گیروں کی کشتی میں شراب اور ڈیزل کے سمگلر تھے۔ اخبار کی رپورٹ میں کہا گیا کہ ماہی گیروں کی کشتی کا انجن اتنا طاقت ور نہیں ہوتا کہ کوسٹ گارڈ کی تیز رفتار کشتیوں کو شکست دے سکے۔ رپورٹ کے مطابق اعلیٰ حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی وزارت دفاع کو ملنے والی خفیہ اطلاع کا کوئی تعلق دہشت گردی سے نہیں تھا نہ اس سے بھارت کو کوئی خطرہ تھا۔ خود بھارتی نیشنل ٹیکنیکل ریسرچ آرگنائزیشن نے کیٹی بندر سے چھوٹے سے سمگلروں کی موبائل فون پر ہونے والی گفتگو پکڑی تھی۔ اخبار کے مطابق کشتی کی جو تصویریں جاری کی گئیں انہیں دیکھ کر پتہ چلتا ہے کہ اس میں ’’پلاسٹک ایکسپلوسو‘‘ نہیں بلکہ دستی بم جیسا عام دھماکہ خیز مواد ہو سکتا تھا۔ اخبار کے مطابق 31 دسمبر کی شب مچھلیاں پکڑنے گئے تمام ماہی گیروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی کشتی جلتی ہوئی نہیں دیکھی۔ اس سے نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ یہ واقعہ شاید بھارتی سمندری حدود کے بجائے بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے۔ رپورٹ کے جائزے سے کچھ سوالات پیدا ہوتے ہیں۔ اگر واقعہ بین الاقوامی پانیوں میں ہوا ہے تو بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی، اس کا حساب کون دے گا۔ کہیں بھارتی کوسٹ گارڈ کے ہاتھ بیگناہوں کے خون سے تو نہیں رنگے گئے؟ کہیں بھارتی وزارت دفاع تحقیقات کرنے اور ذمہ داروں کو سزا دینے کی بجائے انہیں تحفظ فراہم کرکے خود بھی شریک ملزم تو نہیں بن رہی۔ دوسری جانب بھارتی کوسٹ گارڈ حکام اپنی ہٹ دھرمی پر اٹکے ہوئے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ 31دسمبر کی شب کشتی میں دھماکہ ہوا اور اس کشتی کے عملے نے انڈین کوسٹ گارڈ کے گرم تعاقب کے باعث کشتی کو خود آگ لگائی اور وہ دھماکے سے پھٹ گئی۔ صحافیوں سے گفتگو میں انڈین کوسٹ گارڈ کے کمانڈر برائے شمال مغربی ریجن کلدیپ سنگھ شیوران نے کہاکہ نعشوں کی تلاش جاری ہے، تحقیقاتی ادارے اس واقعے کی تحقیقات کر رہے ہیں، اصل حقائق تحقیقاتی رپورٹ کے بعد سامنے آئیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ کشتی پر سوار افراد ماہی گیر نہیں لگتے تھے۔ انہوں نے ٹی شرٹس اور شارٹس پہنے ہوئے تھے انہوں نے کہاکہ ہماری سمندری حدود میں کوئی اور مشتبہ کشتیاں نہیں۔ گجرات کے ساحل پر نگرانی بڑھا کر ہائی الرٹ کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارتی دعویٰ مسترد کرتے ہوئے اسے بے بنیاد قرار دیا ہے ۔ دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم نے کہا کہ پاکستان سے کوئی کشتی بھارت کی سمندری حدود میں نہیں گئی۔