• news

”عاشقانِ رسول اور بندگانِ خُدا؟“

آج 12 ربیع الاوّل ہے۔ عِید میلادالنبیؐ ماہ ربیع اُلاوّل کے آغاز سے ہی مساجد ٗ پرنٹ اور الیکٹرانک مِیڈیا پر عُلمائے کرام اپنے اپنے انداز میں سِیرت النبیؐ بیان کر رہے ہیں اور دوسرے بندگانِ خُدا اور عاشقانِ رسُولؐ بھی ؎

’’بعد از خُدا بزرگ توئیؐ قِصّہ مُختصر‘‘
رسالت مآب ٗ امام اُلانبیائؐ اور رَحْمَۃُ لِلعَالَمِینؐ کی خدمت میں عقِیدت کے پھُول نچھاور کر رہے ہیں۔ عاشقِ رسولؐ علّامہ محمد اقبال نے ابھی مُسلمانانِ ہِند کے لئے الگ وطن کا تصوّر پیش نہیں کِیا کہ 1905ء سے 1908ء کے درمیان ’’حضورِ رسالت مآبؐ میں‘‘ کے عنوان سے اپنی نظم میں کہا تھا ؎
’’حضُورؐ! دہر میں آسُودگی نہیں مِلتی
تلاش جِس کی ہے وہ زندگی نہیں مِلتی
ہزاروں لالہ و گُل ہیں ریاضِ ہستی میں
وفا کی جِس میں ہو بُو وہ کلی نہیں مِلتی‘‘
وفاقی وزیرِ خزانہ جناب اسحاق ڈار کے ’’اقبالی بیان کے مطابق‘‘ علّامہ اقبال کے پاکستان میں آج غُربت کی لکِیر سے نیچے زندگی بسر کرنے والے لوگوں کی تعداد 60 فیصد ہے۔ اُن میں سے ہر ایک کے ’’ریاضِ ہستی‘‘ میں ہزاروں لالہ و گُل تو کیا؟ بُو (خُوشبُو) سے معمُور کلی بھی نہیں؟ تو انہیںآسودگی کیسے مِلے گی؟ اور وہ زندگی کیسے نصیب ہوگی جِس کی تلاش میں وہ گزشتہ 67 سال سے سرگرداں ہیں؟ علاّمہ اقبال اگر آج زِندہ ہوتے تو کیا کرتے؟ اور کیا کہتے؟ انہوں نے تو پاکستان کے ہر حُکمران/ سیاستدان/ مذہبی رہنما کو ’’عاشقِ رسُولؐ ‘‘ فرض کر کے یہ پیغام بھی دِیا تھا کہ ؎
’’قوّتِ عشق سے ہر پست کو بالا کر دے!
دہر میں عشقِ محمدؐ سے اُجالا کر دے!‘‘
اللہ تعالیٰ کے فرِشتے آسمانوں سے اَرضِ پاکستان کی طرف دیکھ کر کیا سوچتے ہوں گے؟ کہ ’’ایسے عاشقانِ رسولؐ کہاں چھُپے بیٹھے ہیں؟‘‘ میدان میں کیوں نہیں اُترتے؟ رسالت مآبؐ سے شادی سے قبل اُمّ المومنین حضرت خدیجۃ الکُبریٰ کی کئی مُلکوں سے تجارت تھی۔ انہیں اُن کے مال و دولت کی وجہ سے ’’ملائکۃُ العرب‘‘ کہا جاتا تھا۔ مُؤرّخِین بیان کرتے ہیں کہ ’’ملائکۃُ العرب کے پاس بہت زیادہ سونا تھا جو آپؓ نے سارے کا سارا ’’پیغمبرِ اِنقلابؐ‘‘ کی خِدمت میں پیش کر دِیا تھا۔ حضورِ پُرنُورؐ نے وہ سونا غلاموں اور کنِیزوں کو آزاد کرانے اور اُن کی شادیوں پر خرچ کر دِیا تھا۔ عُلماء حضرات اور قیامِ پاکستان کی مخالفت کرنے والے عُلماء جنہوں نے علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے تھے (نئی نسل کی معلومات میں اضافہ کرنے کے لئے) سِیرۃ النبیؐ بیان کرتے وقت حُکمرانوں کو کیوں نہیں یاد دلاتے کہ ’’غزوۂ خندق کے موقع پر بھُوک کو ٹالنے کے لئے ہر صحابی نے اپنے اپنے پیٹ پر ایک ایک پتّھر باندھ رکھا تھا لیکن اللہ تعالیٰ کے محبوُبؐ نے اپنے پیٹ پر دو پتّھر باندھ رکھے تھے؟‘‘ شاید اِس لئے کہ ٗ نوابوں اور جاگیر داروں کی سی زندگی بسر کر نے والے اِن عُلماء کے اپنے پیٹوں پر پتّھر باندھنے کی جگہ ہی نہیں ہے۔
قُرآنِ پاک کے آغاز میں ہی واضح کر دِیا گیا ہے کہ ’’یہ کتاب (قُرآنِ مجید) اِس میں کوئی شک نہیں اللہ تعالیٰ کا کلام ہے اور یہ اللہ تعالیٰ سے ڈرنے والوں کی رہنما ہے جو غیب پر ایمان لاتے اور ( آداب کے ساتھ) نماز پڑھتے اور جو کچھ ہم نے اُن کو عطا فرمایا اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘ سُورۂ بقرہ کی اِس تیسری آیت میں اللہ تعالیٰ کی راہ یا ضرورت مندوں پر خرچ کرنے کا حُکم اللہ تعالیٰ کی طرف سے متموّل مسلمانوں کو دِیا گیا ہے اُن میں سے جو لوگ اللہ تعالیٰ کا یہ حُکم نہیں مانتے اُن کے بارے میں ’’مُفتِیانِ عُظّام‘‘ کوئی فتویٰ کیوں نہیں دیتے۔ ’’جہاد اور قِتال کا کلچر ‘‘ تو اِس طرح کے لوگوں کے خلاف عام کرنا چاہیے! اور اُن لوگوں کے خلاف بھی جو اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے والے دہشت گردوں اور اپنی مرضی کی شرعیت نافذ کرنے کے لئے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کے گلے کاٹنے والوں اور اُن کے سروں سے فُٹ بال کھیلنے والوں کو ’’شہید‘‘ اور ’’سیّد الشہداء ‘‘ کے خطابات سے نوازتے ہیں۔
قائدِاعظم اور اُن کے ساتھیوں نے اسلامی تعلیمات کے تحت ’’جمہوری نظام‘‘ رائج کرنے کے لئے پاکستان بنایا تھا۔ اپنی ’’خلافت‘‘ قائم کرنے کے لئے نہیں۔ وگرنہ قائدِاعظم کے ساتھی انہیں ’’امیرالمومنین‘‘ کیوں نہ تسلیم کر لیتے؟ قائدِاعظم نے بھی قیامِ پاکستان سے پہلے ہی اعلان کردِیا تھا کہ ’’پاکستان میں ’’Theocracy ‘‘ (مولوِیوں کی حکومت) نہیں ہوگی۔‘‘ کانگریسی عُلماء (جمعیت عُلمائے ہِند کے اکابرین ) نے اکھنڈ بھارت کے حامی شری موہن داس کرم چند گاندھیؔ کا ساتھ دینے سے پہلے یہ کیوں نہیں سوچا کہ ’’تحریکِ خلافت‘‘ کی حمایت کرنے والے گاندھی جی ٗ مُتّحدہ ہندوستان میں مولانا ابُوالکلام آزاد ؔکی ’’خلافت‘‘ ہرگز قائم نہیں ہونے دیں گے؟‘‘قائداعظم نے اِسی لئے شاید مولانا آزاد ؔ کو ’’کانگریس کا شو بوائے‘‘ کا خطاب عطا فرمایا تھا۔
مُلّا عمر، ابُوبکر بغدادی اور پاکستان میں مولوی عبدالعزیز سمیت اپنی خلافت قائم کرنے والے دہشت گرد اور اُن کے سہولت کار ’’پیغمبرِ اِنقلابؐ‘‘ کے نائبین خُلفائے راشدہؓ کے پیروں کی خاک کے برابر بھی نہیں ہیں۔ یورپی ممالک میں خلیفۂ راشد دوم حضرت عمر بن الخطابؓ کا ’’نظامِ عدل و اقتصادِیات‘‘ نافذ ہے۔ اِن مُلکوں میں دس دس پندرہ پندرہ سال تک اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ نہیں ہونے دِیا جاتا۔ مَیں نے ایک نامی گرامی پِیر صاحب کی توجہ اِس طرف دِلائی تو انہوں نے جوابی سوال داغ دِیا۔ بولے! ’’اثرچوہان صاحب! یورپی ممالک میں جو بدمعاشیاں ہوتی ہیں آپ نے اُن پر توجہ نہیں دی؟‘‘۔
پاکستان میں فیڈرل شریعت کورٹ ہے اور اسلامی نظریاتی کونسل بھی لیکن (فی اِلحال) اِن دونوں ’’شرعی‘‘ اداروں نے ریاست کے باغیوں (دہشت گردوں اور اُن کے سہولت کاروں) کے خلاف کو ئی ’’فتویٰ‘‘ نہیں دِیا اور نہ ہی اُن کے خلاف آپریشن ’’ضربِ اُلعضب‘‘ کرنے کا ریاستِ پاکستان کا تسلیم کِیا ہے۔ بہر حال عوام کے ووٹوں سے منتخب ہونے والی پارلیمانی پارٹیوں نے ’’چونکہ چنانچہ اور اگرچہ ٗ مگرچہ کے بعد ‘‘ آپریشن دہشت گردوں اور اُن کے ’’سہولت کاروں‘‘ کے خلاف مقدمات کی سماعت کے لئے فوجی عدالتوں کے قیام کا اعلان کر دِیا ہے۔ عام لوگ جو بم پرُوف گھروں میں رہنے اور بُلٹ پرُوف گاڑیوں میں گھُومنے پھرنے کی استطاعت نہیں رکھتے ٗ اُن کی جانوں اور عِزّت و آبرو کی حفاظت کے لئے یہ فیصلہ بے حد ضروری تھا۔ قومی دولت لُوٹ کر بیرونی مُلکوں میں جمع کرانے والے سیاستدان پریشان ہیں اور مولوی عبدالعزیز سمیت اپنی اپنی ڈیڑھ ڈیڑھ اِینٹ کے مسجد کے خطیب صاحبان بھی جو پاکستان کو ’’عالمی خلافت کا مرکز‘‘ بنانے کا خواب دیکھتے ہیں اور اُس کی تعبیر بھی خُود بیان کرتے ہیں۔ در اصل انہیں خوف ہے کہ ’’کہیں جنرل راحیل شریف ٗ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ’’اَتاتُرک‘‘ غازی مصطفیٰ کمال پاشا کا کردار نہ ادا کرنا شروع کر دیں۔‘‘
ہجرتِ مدینہ کے بعد نبی کریمؐ نے مدینہ مُنوّرہ میں ’’مِیثاقِ مدینہ‘‘ سے پہلے انصارِ مدینہ اور مہاجرینِ مکّہ میں ’’مواخاۃ‘‘ (بھائی چارہ) قائم کردِیا تھا جِس کے تحت انصارِ مدینہ نے اپنی خُوشی سے ہر مسلمان مہاجرِ مکّہ کو اپنی آدھی دولت کا مالک بنا دِیا تھا۔ متموّل لوگوں اور خاص طور پر قیامِ پاکستان کے بعد کسی نہ کسی شکل میں اقتدار میں رہنے والے(سیاستدان او عُلمائ) اگر واقعی عاشقانِ رسولؐ کی فہرست میں اپنے نام لکھوانا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی آدھی دولت ’’بندگانِ خُدا‘‘ (مفلُوک الحال لوگوں) میں بانٹ دینا ہو گی۔ شاید اُن کے لئے یہ آخری موقع ہے۔ عاشقِ رسُولؐ علّامہ اقبال نے یہ بھی تو کہا تھا کہ ؎
’’مَیں اُس کا بندہ بنوں گا جِس کو
خُدا کے بندوں سے پیار ہوگا‘‘

ای پیپر-دی نیشن