فضل الرحمن کے تحفظات‘ بھٹو کی سالگرہ‘ قومی اسمبلی میں فوجی عدالتوں کے بل پر ووٹنگ آج تک موخر‘ وزیراعظم نے تمام ارکان کو ناشتے پر بلا لیا
اسلام آباد (نوائے وقت رپورٹ + ایجنسیاں) سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ اور جے یو آئی (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کی ناراضی کے باعث قومی اسمبلی میں 21ویں آئینی ترمیم کا بل آج منظور کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پی پی پی نے حکومت سے مطالبہ کیا تھا کہ بھٹو کی سالگرہ کے باعث یہ بل پیر کو منظور نہ کیا جائے۔یہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی پارلیمانی کمیٹی کے اجلاس میں ہوا جس کی صدارت قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ اور سینٹ میں قائد حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن نے کی۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے فوجی عدالتوں کے قیام پر بریفنگ دی۔ سینیٹر رضا ربانی، تاج حیدر، نفیسہ شاہ نے فوجی عدالتوں کےخلاف دلائل دیئے ۔اعتزاز احسن نے کہا کہ سب کچھ جانتے ہوئے بھی فوجی عدالتوں کے قیام کا مشکل فیصلہ کیا۔ پیپلزپارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ پیپلزپارٹی اس بل کو بھاری دل کےساتھ قبول کر رہی ہے، کسی بھی جمہوری کارکن کیلئے فوجی عدالتوں کا قیام تکلیف دہ مرحلہ ہے۔ دریں اثناءحکومت نے جے یو آئی ف کے رہنما مولانا فضل الرحمن کو منانے کی کوششیں شروع کردی ہیں۔ وزیراعظم نواز شریف کی ہدایت پر اسحاق ڈار اور وزیر اطلاعات پرویز رشید، مولانا فضل الرحمن کے چیمبر میں گئے۔ انہوں نے فضل الرحمن سے درخواست کی کہ وہ بل کی حمایت کریں۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ جب تک ہماری تجاویز کی حمایت نہیں کی جائے گی، بل کی حمایت نہیں کرسکتے۔ حکومت نے جے یو آئی سے مشاورت تک نہیںکی۔ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ مذہبی اور فرقہ وارانہ دہشت گردی کا لفظ نہیں ہونا چاہئے، صرف دہشت گرد لکھا جائے۔ حکومت نے یقین دلایا کہ ابھی ترمیم منظور نہیں ہورہی۔ پیپلز پارٹی نے ذوالفقار علی بھٹو کی سالگرہ کی وجہ سے ترمیم مو¿خر کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ ترمیم آج منظور ہوگی۔ جے یو آئی ف کے رہنما اکرم خان درانی نے کہا ہے کہ حکومت نے بل کی منظوری مو¿خر کرنے پر آمادگی ظاہر کردی ہے۔ جے یو آئی ف کے تحفظات پر حکومت سے آج بھی بات چیت جاری رہے گی۔ دریں اثناءسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے کہا ہے کہ ترمیمی بل کی منظوری کیلئے آج ووٹنگ کرائی جائے گی۔ حکومت کی کوشش ہے کہ تمام جماعتوں کے تحفظات دور کئے جائیں۔ حکومت ترمیمی بل متفقہ طور پر منظور کرانا چاہتی ہے۔ ذرائع کے مطابق ایوان میں آج پرائیویٹ ممبرز ڈے ہے۔ ووٹنگ کے لئے معمول کی کارروائی معطل کرنے کی تحریک پیش کی گئی تھی۔ نجی ٹی وی کے مطابق مولانا فضل الرحمن کے تحفظات پرحکومت اور جے یو آئی ف کی مشترکہ لیگل ٹیم تشکیل دیدی گئی ہے۔ حکومتی لیگل ٹیم کی سربراہی بیرسٹر ظفر اللہ اور جے یو آئی ف کی لیگل ٹیم کی سربراہی ایڈووکیٹ کامران مرتضیٰ کریں گے۔ اپنی پارٹی کے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے 21ویں آئینی ترمیم پر تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت منظوری میں جلدبازی نہ کرے۔ قومی اسمبلی اور سینٹ میں فوجی عدالتوں کے قیام کے لئے ترمیم کی حمایت میں ووٹ نہیں دیں گے۔ امن کے قیام اور دہشت گردی کے خاتمے کے لئے مذہبی طبقہ ان کی صف میں کھڑے ہونے کو تیار ہے مگریہ تصادم کی راہ اختیار کرکے اسے مدمقابل لانا چاہتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے آئین میں ترمیم کا مسودہ ہم سے خفیہ رکھا گیا تھا۔ بلز پر ہمارے تحفظات ہیں، اس میں مذہب کا لفظ کیوں شامل کیا گیا۔ کسی صورت بھی ایسی آئینی ترمیم کو ووٹ نہیں دے سکتے۔ مسودے کے بارے میں بے خبر رکھا گیا نہ ہی ترمیم کے بارے میں الفاظ کے بارے میں مشاورت کی گئی نہ الفاظ کو شامل کیا گیا۔ صاف ظاہر ہے یہ دہشت گردی ختم نہیں کرنا چاہتے بلکہ قانون کسی کے خلاف استعمال کرنا چاہتے ہیں۔ جب ہم سے رابطہ کیا جائے گا ہم تجاویز سے آگاہ کردیں گے۔ کوئی مدرسہ رجسٹرڈ نہیں تو اسے قانون کے تحت رجسٹرڈ کرنے سے کس نے روکا ہے تمام مدارس کو نشانہ کیوں بنایا جارہا ہے۔ یہ تمام مدارس کے خلاف ایف آئی آر درج کرنے مترادف ہے۔ تمام مذہبی طبقے پاک فوج کی پشت پر ہیں۔ مذہبی طبقہ کوکیوں نشانہ بنانا چاہتے ہیں؟ مدارس ہر سال اپنے حسابات پیش کرتے ہیں۔ آئین سے منافی سرگرمیوں میں ملوث این جی اوز سے حساب کتاب کیوں نہیں لیا جاتا؟ قوم کو بتایا جائے کہ جی ایچ کیو، کامرہ ایئربیس، مہران ایئر بیس، کرایچ ایئر پورٹ و دیگر تنصیبات کو کس نے نشانہ بنایا، ان کا تعلق تو مدارس سے نہیں تھا۔ پھانسی چڑھنے والوں کا تعلق کیا مدارس سے تھا؟ کیا پشاور کے واقعہ میںکوئی مدرسہ ملوث تھا؟ قومی مفاد کو سامنے رکھتے ہوئے فوجی عدالتوں کا قیام قبول کیا۔ دریں اثناءایم کیو ایم کے ارکان قومی اسمبلی اور سینیٹروں کا ہنگامی اجلاس ہوا جس میں ارکان نے کہا کہ قوم کے ساتھ ہمیں بھی مایوسی ہوئی ہے۔ فیصلہ کیا ہے کہ بل کمزور کیا گیا تو اپنی حمایت پر نظرثانی کریں گے۔ ارکان نے رائے دی کہ بل کی منظوری میں تاخیر پر قوم کے ساتھ ہمیں بھی مایوسی ہوئی ۔ عوامی امنگوں کے خلاف بل میں کسی تبدیلی کی حمایت نہیں کریں گے۔ اے پی سی میں جو بل منظور کیا گیا ہے اسی کی حمایت کریں گے۔ دریں اثناءوزیراعظم نواز شریف نے تمام ارکان قومی اسمبلی کو آج ناشتے پر مدعو کرلیا ہے۔ نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم 21ویں آئینی ترمیم پر ارکان قومی اسمبلی کو اعتماد میں لیں گے۔ وزیراعظم نے تمام ارکان قومی اسمبلی کو حاضری یقینی بنانے کی ہدایت کی ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے تمام ارکان کو ناشتے کی باضابطہ دعوت دیدی گئی ہے، جہاں پرسری پائے سمیت دیگر انواع و اقسام کے کھانوں سے خاطر تواضع کی جائے گی۔ ناشتہ سے فارغ ہونے کے بعد ارکان پارلیمنٹ میں پہنچیں گے جہاں پر وہ ووٹنگ میں حصہ بھی لیں گے۔ اہم حکومتی ذرائع کے مطابق وزیراعظم نوا زشریف نے جمعیت علمائے اسلام اور جماعت اسلامی کے آئینی بل پر تحفظات کے حوالے سے بریفنگ پر آئینی و قانونی ماہرین سے مشاورت بھی کرلی ہے۔ دونوں بڑی جماعتوں کے تحفظات کو دورکردیا جائیگا، تاہم حکومت کیلئے ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ اگر جے یو آئی اور جماعت اسلامی کے تحفظات کو دورکیا جاتا ہے تو ایم کیو ایم کا حکومت کے ساتھ چلنا مشکل ہوجائیگا۔ ایم کیو ایم کی جانب سے حکومت کو واضح پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ وہ مسودہ جو آل پارٹیزکانفرنس میں پیش کیا گیا اسی کو پارلیمنٹ سے منظورکرایا جائے اگر اس میں مزید ترمیم کی گئی تو ایم کیو ایم احتجاجاً الیکشن میں اپناردعمل ظاہرکریگی۔
اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نوائے وقت رپورٹ+ ایجنسیاں) ملک میں دہشت گردی کے خاتمہ کیلئے فوجی عدالتوں کے قیام سے متعلق بل پر قومی اسمبلی میں بحث شروع ہوگئی ہے۔ جمعیت علمائے اسلام (ف)،جماعت اسلامی ، مسلم لیگ (ض) اور فنکشنل مسلم لیگ کے ارکان قومی اسمبلی نے دہشت گردی کے خلاف بل سے مذہب اور مسلک کے الفاظ نکالنے کا مطالبہ کر دیا ہے اور مولانا فضل الرحمان نے کہا ہے کہ حکومتی اتحادی ہونے کے ناطے دوستی کا ثبوت دیا مگر ہمیں بل پر اعتماد میں نہیں لیا گیا، شاید حکومت ہمیں اَن پڑھ اور جاہل سمجھ رہی ہے، مشرف بھی 98 فیصد مدارس کو دہشت گردی کے پاک قرار دیتے تھے، انکے دور میں رجسٹریشن بھی ہوئی،جتنے حملے آج تک دہشت گردوں نے کئے ان مےں بتاےا جائے کونسے مدارس کے طلباءشامل تھے، صرف مدارس کو ٹارگٹ نہ کےا جائے، تمام تعلےمی اداروں اور ےونےورسٹی کے ہاسٹل کو بھی پھر اس مےں شامل کےا جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ آج ہم اپنی طاقت کسی دوسرے کے حوالے کررہے ہیں اور شادیانے بجا رہے ہےں، پارلیمنٹ کی بالادستی کو تمام اداروں کو تسلیم کرنا چاہئے، تمام پارٹےوں کو اےک وعدہ کرنا ہوگا کہ ہم مجبوری کے تحت اس غلط اقدام پر دستخط کرتے ہےں، جو پٹھان ہے اور مدرسے کا طالب ہے اسے دہشت گرد قرار دےنے سے ملک نہےں چل سکے گا،ہمےں دہشت گرد کی پہچان کرنی چاہئے۔ جماعت اسلامی کے طارق اللہ نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے حوالے سے جلدبازی نہ کی جائے،مدارس دہشتگردی مےں ملوث نہےں ،مذہب کا نام اس سے نکالا جائے ہم اس کی حماےت کرےں گے۔فنکشنل مسلم لیگ کے غوث بخش مہر نے کہا کہ کچھ گروپ اپنے مفاد کے نام پر مذہب کو استعمال کر رہے ہےں۔ مذہب کا نام بل سے نکالا جائے،اسکی جگہ دہشت گردی کا نام ہی رکھا جائے۔ مسلم لیگ ض کے سربراہ محمد اعجاز الحق نے کہا کہ مےں مدارس کو قرےب سے سمجھتا ہوں ےہاں دہشت گردی کے حوالے سے غلط افواہےں پھےلائی جارہی ہےں،بل مےں مذہب کے نام کو دہشت گردی سے منسوب کئے جانا قابل افسوس ہے۔ بحث کا آغاز کرتے ہوئے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان نے کہا کہ پاک فوج جنیوا کنونشن اور بنیادی انسانی حقوق پر یقین رکھتی ہے۔ فوج ہمارے عقائد کے مطابق جنگ لڑ رہی ہے۔ پاکستان میں فساد برپا کرنے والوں سے لڑ رہے ہیں۔ ان فسادیوں کو منطقی انجام تک پہنچانے کا راستہ اختیار کیا ہے۔ پاکستان میں سیاسی جماعتیں پاک فوج پارلیمنٹ سب اکٹھے ہیں۔ دنیا کی کوئی طاقت ان کو شکست نہیں دے سکتی۔ اعتماد کریں فوج ذمہ دار ہے کہ اسلامی فوج ہے ڈرا¶نا نظام نہیں لا رہے، آئین و قانون کی حدودو قیود واضح ہیں۔ فوجی عدالتوں میں صرف دہشت گردوں کے خلاف مقدمات بھیجے جائیں گے اور اس سے پہلے حکومت انکی مکمل چھان بین کرے گی۔ فوجی عدالتیں ہمیشہ جنگ کے دوران بنائی جاتی ہیں ہمیں بھی اس وقت جنگ کی صورتحال درپیش ہے جس کے باعث تمام سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیاہے۔ ان عدالتوں میں کسی عام آدمی کاکوئی کیس نہیں چلے گا،فوجی جج بھی اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔دہشت گرد جب بھی مقدمہ چلتا پولیس افسروں اور ججوں کو دھمکیاں دینا شروع کر دیتے ہیں۔ ہر شخص خواہ وہ دہشت گرد کیوں نہ ہو ان کو صفائی کا موقع دیاجائے گا۔ پاک فوج پر اعتماد رکھیں یہ جنگ ہم جیتیں گے اور دہشت گردی کا خاتمہ کرکے دم لینگے۔ چودھری نثار علی خاں نے کہا کہ ایوان میں اب 21ویں آئینی ترمیم پر بحث ہوگی۔ یہ ایسی آئینی ترمیم ہے جو بظاہر جمہوریت اور پارلیمانی نظام سے متضاد ہے۔ چند سال قبل یہ وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ فوجی عدالتوں کیلئے قانون سازی ہو گی۔ پاکستان کا بچہ بچہ جنگ کی صورتحال سے دوچار ہے۔ پاکستان میں غیرمعمولی صورتحال ہے اس لئے یہاں تک پہنچنے ہیں۔ 9ستمبر 2011ءکے حملوں کے بعد امریکہ نے بھی فوجی عدالتیں بنائیں۔ ہماری درسگاہیں اور عبادت گاہیں بھی محفوظ نہیں رہیں۔ دہشت گردی کا نشانہ بننے والوں کے جنازوں پر حملے ہوئے ہیں، پاکستان کو غیرمعمولی صورتحال کا سامنا ہے۔ جمہوری نظام حکومت میں فوجی عدالتوں پر اتفاق رائے انہونی بات ہے۔ ہماری اسلامی فوج حدود میں رہ کر کارروائی کر رہی ہے جبکہ دوسری طرف کوئی حد نہیںہے۔ 2009ءمیں مینا بازار پر حملہ کیا گیا۔ کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر مسلسل حملے ہوئے جن میں ڈیڑھ سو سے زائد شہادتیں ہوئیں۔ گذشتہ چند سال میں 40 ہزار سے زائد بے گناہ شہریوں کا خون ہوا، بد سے بدتر انسان بھی درسگاہوں اور عبادت گاہوں کو نشانہ نہیں بناتا۔ دہشت گرد پاکستان میں افراتفری اور اغوا برائے تاوان کا بازار گرم کرنا چاہتے ہیں۔ اسلام میں کہاں اربوں روپے کے تاوان کیلئے اغوا کرنا لکھا ہے۔ فوجی عدالتیں حالت جنگ میں بنتی ہیں اور ہم حالت جنگ میں ہیں۔ جب دو قوتیں عسکری طور پر ٹکراتی ہیں تو بے گناہ شہری بھی نشانہ بنتے ہیں۔ فوجی عدالتوں کا یہ مطلب نہیں کہ ہم ہر ایک کو لٹکانا چاہتے ہیں۔ دنیا میں کہیں خواتین اور بچوں کو اعلانیہ نشانہ نہیں بنایا گیا۔ ہمارے حریف نے ہر حد پار کر لی ہے، غیرمعمولی حالات میں فوجی عدالتیں ناگزیر ہیں۔ اگر کسی کو مارنا ہی مقصد ہوتا تو فوج پہلے ہی ان کا کام تمام کر چکی ہوتی۔ ہماری فوج آئینی اور قانونی حدود کی پابند ہے۔ پشاور میں 143 شہادتوں کا غم ابھی تک تازہ ہے۔ میرانشاہ سے اتنا بارود پکڑا گیا کہ 15 سال تک ہر روز ایک دھماکہ ہو سکتا ہے۔ کسی سیاستدان، تاجر، صحافی یا عام افراد کا ٹرائل فوجی عدالت میں نہیں ہو گا۔ فوجی عدالتیں محدود وقت کیلئے ہونگی۔ وقت کا تعین بھی قانون میں کیا جائے گا۔ ہم نے اصولوں پر چلنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ عدالتیں اپنا کام کرتی رہیں گی صرف دہشت گردوں کے مقدمات فوجی عدالتوں میں چلیں گے۔ کئی مثالیں ہیں ججوں اور پولیس اہلکاروں کو دہشت گردوں کی دھمکی آمیز فون کال آئیں۔ فوجی عدالتیں کینگروز کورٹس نہیں ہونگی کہ جو گیا اسے لٹکا دیا گیا۔ فوجی عدالتوں میں تیز تر عدالتی کارروائی ہو گی۔ ان عدالتوں میں مقدمات بھیجنے سے پہلے حکومت چھان بین کرے گی۔ قومی اتفاق ہے کہ ملک کو دہشت گردی سے بچانا ہے۔ یقین دلاتا ہوں کہ مقدمات کڑی چھان بین سے گزر کر چلیں گے۔ فوجی عدالتوں کے جج بھی پاکستانی ہیں وہ اللہ کا خوف رکھتے ہیں۔ دہشت گردی کیخلاف جنگ شروع ہوئی تو اس وقت کے صدر کی حکمت عملی بہت متنازعہ تھی۔ دہشت گرد فساد بپا کر رہے ہیں، ہم پاکستان کو بچانے کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ ہر شہری کی خواہش ہے کہ ملک میں امن ہو، جان و مال کا تحفظ ہو، قومی ایکشن پلان کے تین عنصر وفاق، صوبے اور پاک فوج ہیں۔ پوری قوم اور سیاسی جماعتیں پاک فوج کے شانہ بشانہ کھڑی ہیں۔ فوجی عدالتیں ان کیلئے ہونگی جو ملک میں آگ اور خون کی ہولی کھیلنا چاہتے ہیں۔ دہشت گردی کے معاملے پر پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہئے۔ اے پی سی میں ایک بڑی پارٹی کے لیڈر نے کہا تھا کہ میں الیکشن جیتوں یا ہاروں ملک سے یہ مرض ختم کرنا ہو گا۔ ایک پارٹی گذشتہ چار ماہ سے ایوان میں نہیں آئی مگر اس معاملے پر وہ بھی ساتھ تھی۔ دہشت گردی سے خوفزدہ اور تقسیم بھی نہیں ہونا چاہئے۔ فوجی عدالتیں اور لوگوں کے خلاف ہیں جنہیں بچوں اور خواتین کا بھی کوئی لحاظ نہیں۔ مدارس کو بطور مدارس ٹارگٹ نہیں کریں گے۔ دہشت گردوں کو کیفرکردار تک پہنچائیں گے۔ میں نے صرف 10 فیصد مدارس سے متعلق بات کی تھی اور کہا تھا کہ 90 فیصد ٹھیک ہیں۔ دہشت گرد بندوق کے زور پر ایجنڈا نافذ کرنا چاہتے ہیں۔ قوم کا مستقبل محفوظ بنانا چاہتے ہیں۔ 12 سال سے یہ جنگ جاری ہے۔ ہمارا راستہ امن کا راستہ ہے۔ جے یو آئی ف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ 21 ویں آئینی ترمیم کے مسودے پر ہمیں اعتماد میں نہیں لیا گیا قانون کو امتیازی طور پر استعمال نہ کیا جائے مدارس حکومت کے ساتھ تمام معاملات طے کر چکے ہیں پھر بھی ان پر شک کیا جا رہا ہے وزیر داخلہ کے شکرگزار ہیں کہ انہوں نے 90 فیصد مدارس کو درست قرار دیا ہے۔ قانون کسی خاص طبقے کے خلاف استعمال نہ کیا جائے۔ فوجی عدالتوں کی حمایت کیلئے مشکل حالات میں فیصلہ کیا جو بھی قانون بنایا جائے بلاامتیاز استعمال ہونا چاہئے میری ذمہ داری بنتی ہے کہ غلط قانون نہ بننے دوں۔ کیا جنرل مشرف اور جی ایچ کیو پر حملے میں ملوث افراد کا تعلق کسی مدرسے ہے؟ ترمیم کے ذریعے دینی مدارس کو نشانہ بنایا جا رہا ہے بطور اتحادی آئینی ترمیمی بل پر ہمیں اعتماد میں لیا جاتا اتحادی ہونے کے ناطے ہم نے تجاویز پیش کی ہیں ہمیں شاید ناسمجھ سمجھا جا رہا ہے کیا یہ ضروری نہیں تھا کہ مسودہ پیش کرنے سے قبل ہمیں اعتماد میں لیا جاتا۔ بتایا جائے کہ کون سے مدارس‘ سکول اور کالجز سے لوگ پکڑے گئے؟ جو ردعمل میرے پاس آ رہا ہے وہ شاید وزارت داخلہ کے پاس نہیں۔ فضل الرحمن نے کہا کہ متنازعہ قانون سازی کی گئی تو لوگ باہر نکل آئیں گے۔ ہم کل بھی امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے اور آج بھی لڑ رہے ہیں۔ الطاف حسین 30 سال سے کیا دہشت گردی کے خطرے سے لندن بیٹھے ہیں۔ حکومت یکجہتی کا مظاہرہ کرے۔ دینی مدارس اور جماعتیں سب ساتھ ہیں۔ ایسی غلطی نہ کریں جو آپ کے اور ہمارے لئے درد سر بن جائے۔ آئین کے مطابق قانون سازی نہ ہوئی تو خانہ جنگی ہو گی۔ کسی ایک نہیں تمام فرقوں کی نمائندگی کر رہا ہوں۔ متحدہ کے رہنما فاروق ستار نے کہا کہ پہلے قومی ایکشن پلان بنتا تو سانحہ پشاور روکا جا سکتا تھا۔ الطاف حسین نے دہشت گردی کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی تھی۔ یہ عوام کی جنگ ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ ہماری اور پورے پاکستان کی جنگ ہے۔ اگر پہلے سنجیدگی دکھائی ہوتی تو سانحہ پشاور جیسے واقعات کو روکا جا سکتا تھا۔ کھلے عام دہشت گردوں کو لگام دینے کا وقت آ گیا ہے۔ الطاف حسین نے کراچی میں طالبنائزیشن کی بات کی تو ان کا مذاق اڑایا گیا۔ پہلا قدم اٹھا کر ہم سانحہ پشاور کے شہدا کے سامنے سرخرو ہو کر جا سکتے ہیں۔ آج قوم دہشت گردی کے خلاف متحد ہے۔ پشاور کے بچوں کی شہادت کا ہمیں احساس ہونا چاہئے۔ مٹھی بھر دہشت گرد اپنے نظریات قوم پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔ غیر معمولی حالات پہلے سے ہی تھے ہمیں احساس دیر سے ہوا۔ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا‘ بازاروں‘ درسگاہوں مساجد پر حملے ہوئے۔ ہم نے ان لوگوں سے مذاکرات کئے جو آئین نہیں مانتے۔ بچوں کے والدین کو بھی پیغام دے رہے ہیں کہ سیاسی و فوجی قیادت متحد ہے۔ ہم جنگ لڑ رہے ہیں جنگی جرائم کے مقدمات خصوصی عدالتوں میں چلنے چاہئیں۔ مختلف مذاہب کے لوگوں پر حملہ ہوا‘ ہم نے اسے سنجیدگی سے نہیں لیا۔ ہم نے اتفاق رائے کیا ہے اللہ اس پر قائم رہنے کی استقامت دے۔جماعت اسلامی نے بھی ترمیمی بل پر تحفظات کا اظہار کر دیا ہے۔ قومی اسمبلی میں جماعت اسلامی کے پارلیمانی رہنما صاحبزادہ طارق اللہ نے کہا کہ بل کے مسودے میں مذہب کو ٹارگٹ کیا گیا ہے قانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے ایسی قانون سازی نہ کی جائے جو متنازعہ ہو۔ دہشت گردی چاہے کسی شکل میں ہو کارروائی کی جائے۔ ترمیمی بل سے مذہب اور فرقہ کے الفاظ نکالے جائیں فرقہ اور مذہب کے الفاظ نکال دیں تو بل کی حمایت کریں گے بل میں دو ترامیم پیش کرا دی گئیں۔ قانون سازی میں جلد بازی نہ کی جائے۔ محمود خان اچکزئی نے کہا کہ پارلیمنٹ اور آئین کی بالادستی کو تسلیم کرنا ہو گا۔ فیصلہ کر لیا ہے تو دہشت گردی تین ماہ میں ختم ہو سکتی ہے خطے کے 4 ممالک چین، ایران، افغانستان اور پاکستان دہشت گردی کا شکار ہیں پارلیمنٹ مجبوری کی حالت میں اپنے کچھ اختیارات دے رہی ہے دھرنے کا تماشا اس لئے تھا کہ پارلیمنٹ کو کمزور کیا جائے جب پارلیمنٹ اختیارات کسی اور کو دینے کیلئے تیار ہوئی تو دھرنے ختم ہو گئے۔ کیا یہ دھرنے کسی مقصد کے حصول کیلئے تھے؟ مجبوری میں فوجی عدالتوں کی حمایت کر رہے ہیں ملک میں ہر ادارے کو ماننا ہو گا کہ پارلیمنٹ سپریم ہے مجبوری میں فوجی عدالتوں کو برداشت کیا جا سکتا ہے۔
قومی اسمبلی بحث