تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں میڈیا انتہا پسندی، دہشت گردی کے خاتمے میں کردار ادا کرے:صدر
اسلام آباد (اے پی پی)صدر مملکت ممنون حسین نے تعلیمات نبویؐ کی روشنی میں ذرائع ابلاغ کے ذمہ دارانہ، بامقصد اور موثر کردار کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے انتہا پسندی و دہشت گردی کی لعنت کے خاتمے اور برداشت، رواداری اور بھائی چارہ کی اعلیٰ انسانی اقدار کے فروغ میں ذرائع ابلاغ کا کلیدی کردار ہے، اس مقصد کے لئے ہمارا دین اور حضور اکرمؐ کی سنت مکمل رہنمائی فراہم کرتے ہیں، ہمارے ذرائع ابلاغ بھی ملک و قوم کی بہتری اور سربلندی کے لئے یہی کردار ادا کریں۔ صدر نے یہ بات قومی سیرت کانفرنس کے افتتاحی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہی جس میں وفاقی وزیر مذہبی امور و بین المذاہب ہم آہنگی سردار یوسف، وزیر مملکت پیر امین الحسنات شاہ، وفاقی و صوبائی وزرائ، ارکان پارلیمان‘ علماکرام اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ صدر مملکت نے کہا کہ یہ خطہ اور خاص طور پر پاکستان گزشتہ ایک دہائی سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ صدر ممنون نے سانحۂ پشاورکے تمام شہدا کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے لواحقین کو یقین دلایا کہ وہ دکھ کی اس گھڑی میں خود کو تنہا نہ سمجھیں، ان کا دکھ پوری قوم کا دکھ ہے اور قوم ان کے شانہ بشانہ ہے۔ صدر نے کہا کہ قرآن و سنت کی روشنی میں ہم ذرائع ابلاغ کی ذمہ داریوں کا تعین بھی کر سکتے ہیں اور اس کے کردار کا جائزہ بھی لے سکتے ہیں اور ذرائع ابلاغ کے ایک متوازن اور ذمہ دارانہ کردار کے ذریعے معاشرے کو ہیجانی کیفیت سے بچا سکتے ہیں۔ ہمارے ذرائع ابلاغ نے قومی مفادات اور قومی سلامتی کے حوالے سے تاریخی خدمات سرانجام دی ہیں لیکن اس معاملے میں حدود سے تجاوز کرنے کی مثالیں بھی موجود ہیں۔ صدر ممنون نے کہا کہ بعض اوقات آزادیٔ اظہارپر قدغن کااعتراض سامنے آتا ہے لیکن میں پورے اعتماد کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اس معاملے کا تعلق آزادیٔ اظہار سے نہیں بلکہ ذمہ دارانہ استعمال سے ہے، یہی وجہ ہے کہ قومی مفادات اور نظریاتی معاملات میں معاصر دنیا کے نظریات بھی قرآن و سنت سے ہم آہنگ نظر آتے ہیں۔صدر مملکت نے کہا انسانی خصوصاً اسلامی معاشرہ ایک خاندان کی طرح ہوتا ہے جس کے افراد ایک دوسرے سے تعاون، برداشت، تحمل اور بھائی چارے کی بنیاد پر منسلک ہوتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلامی معاشرے کو ایک ایسی عمارت سے تشبیہہ دی ہے جس کا ہر حصہ باقی اجزا کو سہارا دیتا ہے۔ صدر نے کہا سادگی اسلامی معاشرے ہی کی نہیں بلکہ ہر معقول معاشرے کی ضرورت ہے۔ اسراف سے صرف تکبر اور سرکشی ہی پیدا نہیں ہوتی بلکہ اس سے معاشرے میں طبقاتی منافرت بھی پیدا ہو جاتی ہے جو معاشرتی زندگی کے لئے زہر قاتل کی حیثیت رکھتی ہے۔ صدر نے امید ظاہر کی اس بابرکت محفل کے ذریعے تبادلۂ خیال اور بات چیت کے ذریعے اپنی کمزوریوں اور کوتاہیوں کی نشاندہی کرکے ان پر قابو پانے میں کامیاب ہوسکیںگے۔ صدر نے کانفرنس میں انعام حاصل کرنے والے تمام خوش نصیبوں کو مبارک باد بھی پیش کی۔ اس موقع پر مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے علماء کرام نے اپنے اپنے خطاب میں سیرت نبوی کے مختلف پہلووُں پر جامع انداز میں روشنی ڈالی۔ وفاقی وزیر مذہبی امور سردار محمد یوسف نے خطاب کرتے کہا ہے نبیؐ کی تعلیمات کی روشنی میں اسلام کی حقیقی تعلیمات کے احیاء کی ضرورت ہے، میڈیا کو دیانت داری سے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہئے۔ انہوں نے عید میلاد النبیؐ پر تمام مسلمانوں کو مبارکباد دیتے کہا اسلام ہمیں رسول اللہ ؐ کے اسوہ کی روشنی میں اپنے روز وشب مرتب کرنے کا درس دیتا ہے۔ نبیؐ کے لائے ہوئے دین اور نظام کا مقصد پوری انسانیت کی فلاح اور ترقی تھا۔ انہوں نے کہا فرقہ وارانہ، علاقائیت اور انتہاپسندانہ سوچ نے اسلام کو نقصان پہنچایا، اغیار کی بھی یہی کوشش ہے کہ وہ مسلمانوں میں انتشار پھیلائے، موجودہ حکومت مسائل کا حل مذاکرات سے نکالنے پر کاربند ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ دن دور نہیں کہ جب انتہاپسندانہ سوچ ختم کرکے دم لیں گے۔ صدر مملکت ممنون حسین نے سیرت رسول ؐ پر لکھی جانے والی بہترین کتابوں کے مصنفین کو ایوارڈ دیئے۔ پاک چائنہ فرینڈ شپ سینٹر میں منعقدہ سیرت کانفرنس کے موقع پر انہوں نے شرکاء میں ایوارڈ اور نقد انعامات تقسیم کئے۔ انعام حاصل کرنے والوں میں سیرت رسول ؐ پر بہترین کتاب لکھنے پر پہلا انعام ڈاکٹر نثار احمد، دوسرا انعام ڈاکٹر رفیق، تیسرا انعام ڈاکٹر عزیز الرحمان سیفی نے حاصل کیا۔ بچوں کیلئے سیرت کی بہترین کتب کی کیٹیگری میں پہلا انعام مولانا ارسلان بن اختر، دوسرا انعام عائشہ کرن عبدالحفیظ اور تیسرا فہیم عالم نے حاصل کیا۔ پروفیسر ڈاکٹر فرحت عظیم کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔ نعتیہ کتب پر شرف الدین شامی کو پہلا ، ریاض حسین چودھری کو دوسرا اور علی رضا کا تیسرا انعام دیا گیا۔ علاقائی زبانوں میں پشتو کتاب پر ہدایت اللہ کو حوصلہ افزائی کا انعام دیا گیا۔ سرائیکی زبان میں لکھی جانے والی کتاب پر خاور نقوی کو پہلا انعام دیا گیا۔ خواتین کے مقابلے میں ڈاکٹر حافظہ شاہدہ پروین نے پہلا، پروفیسر سعیدہ مسعودہ فہیم شاہ نے دوسرا اور ڈاکٹر طلعت صدیقی نے تیسرا انعام حاصل کیا۔ اس کے علاوہ پروفیسر ڈاکٹر صلاح الدین ثانی، قاری حامد محمود قادری اور محمد حسن رضوی کو بھی انعامات دیئے گئے۔