مولانا فضل الرحمن کی ’’گدڑ سنگھی‘‘
مُتحدّہ مجلسِ عمل میں شامل سبھی مذہبی جماعتوں کے اکابرین کے ایک دوسرے کے خلاف کُفر کے فتوے تھے لیکن سوائے مولانا شاہ احمد نورانی (مرحوم) تمام قائدین ایک دوسرے کی اقتداء میں نماز پڑھ لِیا کرتے تھے۔ مولانا فضل اُلرحمن نے جناب عمران خان کو ’’یہودیوں کا ایجنٹ‘‘ کہا تو خان صاحب نے کہا کہ’’مولانا فضل اُلرحمن کے ہوتے ہُوئے یہودیوں کو کسی اور ایجنٹ کی کیا ضرورت ہے؟‘‘ 2 جنوری کو وزیرِ اعظم نواز شریف کی سربراہی میں نمازِ مغرب کا وقفہ کِیا گیا تو ٗکانفرنس میں موجود قائدین ٗ اعلیٰ عسکری قیادت اور عمران خان نے بھی مولانا فضل اُلرحمن کی امامت میں نماز پڑھی۔
عمران خان کا ’’نیا انگلستان؟‘‘۔
یہ مولانا صاحب کے پیچھے نماز پڑھنے کا اثر ہُوا یا پہلے سے پروگرام تھا؟ کہ جناب عمران خان نے دھرنے ختم کر کے صِرف احتجاج کرنے کا اعلان کِیا ہے۔ پتہ چلاکہ ’’لندن میں خان صاحب کی دوسری شادی طے ہو گئی ہے اور انہوں نے اِس بارے میں اپنے بیٹوں قاسم اور سلیمان خان اور اُن کی والدہ (اپنی مطلّقہ بیوی) جمائما کو بھی آگاہ کر دِیا ہے‘‘۔ جمائما خان صاحب سے طلاق لینے کے بعد بھی ’’جمائما خان‘‘ کہلاتی ہیں۔ عمران خان کی ہونے والی بیگم (ریحام خان) پہلے سے خان ہیں۔ خیال تو یہ تھا کہ ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے بعد خان صاحب اپنے حلیفِ اوّل اور ’’جتی ستی‘‘ شیخ رشید احمد کو بھی پہلی شادی پر راضی کر لیں گے‘‘۔ لیکن خان صاحب نے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کے بجائے ’’نیا انگلستان‘‘ بنا نے کا اعلان کر دِیا۔ شیخ صاحب کی عمران خان سے بھی دوستی ’’چھولیاں دا وڈّھ‘‘ ثابت ہُوئی۔ دوسری بار خان صاحب کے ہاتھ پیِلے ہونے جا رہے ہیں اب ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا سارا بوجھ شیخ رشید احمد کے نازک کندھوں پر آ پڑا ہے لیکن ’’ایہہ کلّے بندے دا کمّ نئیں!‘‘
’’مشاہد اللہ خان مشاہدۂ دِل؟‘‘
سینیٹر مشاہد اللہ خان کو وفاقی وزیر بنا کر جنابِ وزیر ِاعظم نے صدرِ مملکت کو مزید ’’ممنُون‘‘ کردِیا ہے۔ اِس لئے کہ جناب مشاہد اُللہ خان موقع و مناسبت سے اپنی گفتگو ٗ تقریر ٗ پریس کانفرنس اور ٹی وی ٹاک میں ’’اساتذہ کے شعروں کا تڑکا‘‘ (بِھگار) لگانے میں ماہر ہیں۔ ممکن ہے کہ مشاہد صاحب خُود بھی شاعر ہوں۔ ایسی صُورت میں صدر ’’سُخن ور‘‘ جناب ممنُون حسین جب چاہیں طلب کر کے اُن سے ’’غزلو غزلی‘‘ ہو سکتے ہیں۔ اُستاد رِندؔ نے کہا تھا۔
’’عیاں ہو ٗ صورت ِشاہد ٗ جو چشمِ حقّ بِیں سے
کرے بغور تو غافل ٗ مقابلہ دِل کا‘‘
کیا ہی اچھا ہو کہ صدر ِ محترم جب بھی اپنی ’’جنم بُھومی‘‘ آگرہ میں تاج محل دیکھنے تشریف لے جائیں تو جناب مشاہد خان کو بھی اپنے ساتھ لے جائیں؟
’’پیپلز پارٹی میں قدآور شخصیات نہیں!‘‘
سابق وزیرِاعظم یوسف رضا گیلانی کہتے ہیں کہ ’’پیپلز پارٹی میں جناب ذوالفقار علی بھٹو اور محترمہ بے نظیر بھٹو جیسی قد آور شخصیات نہیں ہیں اور نہ ہی اُن کا نعم اُلبدل‘‘ ’’قدآور‘‘ لمبے قد اور اچھے تن اور توش کی شخصیت کو کہا جاتا ہے۔ یُوں تو جناب آصف زرداری اور جناب گیلانی خُود بھی جسمانی طور پر ’’قدآور‘‘ ہیں لیکن اُن کے بقول پیپلز پارٹی میں ’’قدآور شخصیات‘‘ نہیں ہیں۔ ’’پہلوانِ سُخن‘‘ حضرت ناسخ سیفیؔ نے کہا تھا۔
’’خُوب موزوں ٗ ہم سے وصفِ قدِ بالا ہو گیا‘‘
افسوس کہ پیپلز پارٹی میں بہت سے ’’پہلوانِ سیاست ‘‘ تو ہیں لیکن کوئی بھی ’’پہلوانِ سُخن‘‘ نہیں ہے کہ جنابِ آصف زرداری اور چیئرمین بلاول بھٹو زرداری میں سے کسی ایک کے ’’وصف ِ قد بالا‘‘ کو موزوں کر سکتا۔
’’عبداُلعزیزی مدرسوں کی بلّے بلّے!‘‘
شاعر نے کہا تھا…؎
’’بے سبب مجھ سے ٗ رُوٹھنے والے
کوئی صُورت ٗ تُجھے منانے کی؟‘‘
اُس کے بعد پتہ نہیں چل سکا کہ ٗ شاعر بے سبب رُوٹھنے والے اپنے محبوب کو منانے میں کامیاب ہُوا یا نہیں؟ لیکن مولانا فضل اُلرحمن کے پاس نہ جانے کون سی ’’گدڑ سِنگھی‘‘ ہے کہ موصُوف جب بھی ’’بے سبب یا باسبب‘‘ رُوٹھتے ہیں تو ہر حکمران انہیں منا لیتا ہے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان نے جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب سے پہلے ہی مولانا صاحب کے والدِ مرحوم مُفتی محمود کو ’’رُوٹھنے سے پہلے‘‘ ہی منا لِیا تھا۔ مُفتی صاحب کے مدرسے کے مسائل حل کر کے اُن کا قیمتی ووٹ حاصل کر لِیا تھا۔ مُفتی صاحب نے ’’ببانگِ دُہل‘‘ اعلان کِیا تھا کہ ’’خُدا کا شُکر ہے کہ ہم پاکستان بنانے کے گُناہ میں شامل نہیں تھے‘‘۔ اِس کے باوجود مُفتی صاحب نے’’گُناہ‘‘ کے نتیجے میں وجود میں آنے والے پاکستان میں بھرپور سیاست کی اور وزیرِ اعلیٰ سرحد بھی رہے اور پاکستان بنانے کے ’’گُناہ‘‘ میں شریک نہ ہونے والے خان عبداُلغفار خان کی طرح افغانستان کے شہر جلال آباد میں دفن نہیں ہُوئے۔
مولانا فضل اُلرحمن بھی اپنے والدِ محترم کی طرح ’’عورت کی سربراہی‘‘ کے خلاف تھے ہیں۔ موصوف نے ’’شریعت کے نفاذ‘‘ کے لئے "Give And Take" کے اصول کے تحت محترمہ بے نظیر بھٹو سے بھرپور تعاون کِیا اور صدر جنرل پرویز مشرف ٗ صدر آصف زرداری اور وزیرِاعظم نواز شریف سے تعاون کی بڑی وجہ ’’شریعت کا نفاذ‘‘ تھا/ہے۔ مولانا سمیع اُلحق اور جماعت ِاسلامی کے تمام اُمراء بھی اپنے اپنے دَور میں شریعت کے نفاذ میں حکمرانوں سے تعاون کرتے رہے۔ مولانا مودُودی کی امارت میں جماعت اِسلامی نے تو صدر جنرل یحییٰ خان سے بھی کہہ دِیا تھا کہ ’’صدرِ محترم! آپ خُود پاکستان میں شریعت کا نفاذ کر دیں‘‘۔
دہشت گرد طالبان مدرسوں کی پیداوار ہیں۔ مولانا سمیع اُلحق ’’طالبان کا باپ‘‘ مولانا فضل اُلرحمن ’’برادرِ بزرگ‘‘ کہلاتے ہیں اور مولوی عبداُلعزیز ’’بزرگ 2 نمبر‘‘ اور ان کے ہمنوا دوسرے ’’بزرگانِ دِین‘‘ بھی دہشت گردوں کے خلاف جنگ کرتے ہُوئے جاںبحق ہونے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ’’شہید‘‘ نہیں سمجھتے اور صِرف دہشت گردوں کو ہی ’’شہید‘‘ قرار دیتے ہیں۔ دہشت گرد طالبان کو ’’محب ِ وطن طالبان‘‘ قرار دینے والے وزیرداخلہ چودھری نثار نے 90 فی صد سے زیادہ مدرسوں کو’’دہشت گردی سے پاک‘‘ قرار دے کرمولانا فضل اُلرحمن ٗ مولانا سمیع اُلحق ٗ جناب سراج اُلحق ٗ مولوی عبداُلعزیز اور اِس قبیل کے دوسرے مذہبی لیڈروں کو بہت ’’ہلاشیری‘‘ دے دی ہے ۔ وفاقی وزیر کے برابر مراعات کے ساتھ مولانا فضل اُلرحمن چیئر مین کشمیر کمیٹی ہیں اور جے یو آئی کے جناب اکرم دُرّانی اورمولانا عبداُلغفور حیدری وفاقی وزراء سب سے بڑی بدقِسمتی یہ ہے کہ قائدِاعظم کے پاکستان میں چیئرمین اسلامی نظریاتی کونسل کی حیثیت سے مولانا محمد خان شیرانی ’’مُفتی اعظم‘‘ مولانا فضل اُلرحمن اور اُن کے ہم مسلک مذہبی لیڈروں کی شریعت کی انتہا کہاں تک ہے ؟ بار بار اور’’با سبب رُوٹھنے والے‘‘ مولانا فضل اُلرحمن اور دہشت گرد طالبان کے دوسرے سرپرستوں اور’’ سہولت کاروں‘‘ کو منانے کے لئے کب تک اُن کا ’’مِنّت ترلا‘‘ کِیا جائے گا؟ سیاسی اور عسکری قیادت کو بہت جلد فیصلہ کرنا ہوگا۔ قومی اسمبلی میں مولانا فضل اُلرحمن کی تقریر سے تو ’’عبداُلعزیزی مدرسوں‘‘ کی بلّے بلّے ہو گئی ہے!۔