مدارس، مساجد کی طرف بری نیت سے بڑھنے والے ہاتھوں کو روکیں گے: سراج الحق
لاہور (خصوصی نامہ نگار + نوائے وقت رپورٹ) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے کہا ہے کہ قومی وحدت کے بغیر ایٹم بم بھی ملک کو محفوظ نہیں بنا سکتا۔آئین کے مطابق پاکستان اسلامی ملک ہے لیکن اس کے حکمرانوں نے نظریہ پاکستان سے بے وفائی کی۔ قتال فی سبیل اللہ کا اختیار صرف ریاست کو ہے۔21 ویں ترمیم میں مذہب کو استعمال نہ کیا جائے۔ پاکستان میں مسلح جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے۔ہم دہشتگردی کی پرزور مذمت کرتے ہیں تاہم اسے مذہب سے جوڑنا درست نہیں۔ میںوفاق سے کہتا ہوں جو اتفاق رائے پیدا ہوا ہے اسے نقصان نہ پہنچائے۔ پاکستان کی حفاظت کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز ایوان اقبال میں جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد کی یاد میں منعقدہ قومی سیمینار سے خطاب کے دوران انہوں نے کہاکہ مساجد اور مدارس کی طرف بری نیت سے بڑھنے والے ہاتھوں کو روکیں گے۔ مساجد کو گرانے اور جلانے کی باتیں کرنے والے بھی ابرہہ کے انجام کو یاد رکھیں۔ انہوں نے کہا کہ مدارس کے تیس لاکھ طلبہ اور ان کے خاندانوں کو ہراساں کرنے کی بجائے حکومت قومی یکجہتی کو قائم رکھے اور تین اے پی سیز میں ہونے والے فیصلوں کے مطابق ملک میں قیام امن کے لئے کوشش کرے۔ انہوں نے کہاکہ حکمران مذہب کے خلاف اعلان جنگ کر کے اور اسلام پسندوں کو پھانسیوں کے پھندے پر چڑھا کر مغرب کو تو خوش کر سکتے ہیں مگر اللہ اور اس کے رسول ؐ راضی نہیں ہوں گے۔ سراج الحق نے کہاکہ دہشتگردی کی ذمہ داری مذہب پر نہیں ڈالنی چاہئے، ہم نے 21ویں ترمیم میں مذہب اور فرقوں کے الفاظ بھی حذف کرنے کا مطالبہ کیا تھا لیکن آج جو بھی اٹھتا ہے ، وہ مذہب پر ہتھوڑے اور کلہاڑے سے حملہ کردیتا ہے۔ انہوں نے کہاکہ قاضی حسین احمد نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے فروغ کے لیے بے مثال جدوجہد کی۔ ہم بھی ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے جمہوری قدروں کے فروغ کے لیے کوشاں ہیں۔ دریں اثناء سراج الحق نے پیپلز پارٹی کے رہنما سینیٹر رضا ربانی کو فون کرکے فوجی عدالتوں کے قیام کے حوالے سے تبادلہ خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ملک میں جمہوریت ضرور آئے گی۔ رضاربانی کے پارلیمنٹ میں بہے آنسو رائیگاں نہیں جائینگے۔ اس موقع پر رضا ربانی نے کہا کہ انہوں نے فوجی عدالتوں کی کڑوی گولی بڑی مشکل سے نگلی ہے۔ علاوہ ازیں سراج الحق کی زیر صدارت جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کا اجلاس آج منصورہ میں ہوگا جس میں 21ویں ترمیم کی منظوری کے بعد پیدا شدہ صورتحال پر لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔