فضل الرحمن کے سراج الحق، ساجد نقوی، ابوالخیر زبیر سے رابطے، مجلس عمل کی بحالی پر اتفاق
لاڑکانہ+ اسلام آباد+ لاہور (بیورو رپورٹ+ خصوصی نامہ نگار+ ایجنسیاں) جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے موجودہ صورتحال پر غور اور مشترکہ حکمت عملی کے لئے دینی جماعتوں کے قائدین کا اہم اجلاس آج 8جنوری کو 11 بجے دن اسلام آباد میں بلا لیا یہ باتیں جے یو آئی کے مر کزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل مولانا محمد امجد خان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتائیں۔ انہوں نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے امیر جماعت اسلامی سراج الحق، مرکزی اہلحدیث کے پروفیسر ساجد میر، جے یو پی کے ڈاکٹر ابوالخیر زبیر اور علامہ ساجد نقوی سمیت دیگر جماعتوں کے سربراہان سے رابطے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جے یو آئی ملک سے دہشت گر دی کے خاتمے کی حامی ہے، سانحہ پشاور کے بعد پوری قوم ایک پلیٹ فارم پر نظر آرہی تھی لیکن حکومتی اقدام سے قوم میں تقسیم ہوجائے گی۔ انہوں کہا کہ دینی مدراس کے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت بیرونی ایجنڈے کی تکمیل کی جا رہی ہے لیکن جے یو آئی ایسی کسی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ انہوں نے کہاکہ دہشت گردی کے خلاف تمام مذہبی جماعتیں حکومت کے ساتھ ہیں۔ صباح نیوز کے مطابق مولانا فضل الرحمن کی اقامت گاہ پر اجلاس آج ہوگا۔ خیال رہے کہ ملٹری کورٹس میں سماعت کے لئے دہشت گردی کے مقدمات کو مذہبی اور فرقہ سے منسلک کرنے کے خلاف دینی جماعتوں اور مدارس نے احتجاج کیا اور ترمیم پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔ ذرائع کے مطابق تمام قائدین متفقہ لائحہ عمل پر متفق ہو گئے ہیں۔ سربراہی مشاورتی اجلاس میں اس کا اعلان کر دیا جائے گا۔ ذرائع کے مطابق مولانا فضل الرحمن اور سراج الحق اور دیگر قائدین کے رابطے ہیں۔ متحدہ مجلس عمل کی بحالی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ دریں اثناء وفاق المدارس کی مجلس عاملہ، قومی قائدین اور مقتدر علماء کرام کا ہنگامی اجلاس بھی آج اسلام آباد میں طلب کر لیا گیا۔ اجلاس میں موجودہ ملکی صورتحال پر غور و خوض اور آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ قومی ایکشن پلان میں دینی مدارس کے تذکرے، ملک بھر کے مدارس پر چھاپے اور حکومت کے ساتھ مذاکرات بارے حکمت عملی وضع کی جائے گی۔ دریں اثناء بٹ خیلہ سے نامہ نگار کے مطابق مولانا فضل الرحمن نے کہا ہے کہ عالمی ایجنڈے کے تحت وفاقی حکومت نے 21ویں ترمیم منظور کرا دی ہے، حکومت نے نہ صرف خود کو بڑی مشکل میں ڈالا بلکہ مدارس اور علماء کے خلاف ایک طرح کی جنگ شروع کر دی ہے، کوئی کچھ بھی کہے ہم مدرسہ اور مسجد کے تحفظ کو اپنا سیاسی اور مذہبی فریضہ مانتے ہیں، ضمیر مطمئن ہے کہ 21ویں ترمیم کا حصہ نہیں بنے۔