سینٹ میں شرمندگی اور زندگی
سینٹ میں رضا ربانی رو دیے۔ وہ دھاڑیں مار مار کے روتے تو لوگ زیادہ خوش ہوتے جبکہ آج کل خوش ہونے کا موقع نہیں ہے۔ رضا صاحب نے پارٹی فیصلے کے مطابق ووٹ دیا جب دے دیا تو اس پر شرمندگی اور گریہ و زاری بے جا اور بے جواز ہے۔ اس طرح کے ووٹ رضا ربانی نے کئی بار دیے ہوں گے۔ وہ یاد کریں ورنہ ہم انہیں یاد دلا کے رلائیں گے۔ تب ان کے آنسو خشک ہو گئے تھے یا روٹھ گئے تھے جب یہیں سینٹ میں فاروق ایچ نائیک کو ”صدر“ زرداری چیئرمین سینٹ بنا رہے تھے تو رضا ربانی نے احتجاج کیا تھا کہ میں زیادہ مستحق ہوں۔ یہ بالکل بجا تھا۔ وہ واقعی نائیک صاحب سے زیادہ مستحق تھے۔ انہوں نے وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ اب وہ کس عہدے سے استعفیٰ دیں گے۔ ”صدر زرداری“ کے خیال میں استحقاق کا معیار کچھ ”اور“ ہے۔ ”صدر“ زرداری نے اٹھارویں ترمیم کے مطابق ”پارٹی وڈیرے“ کا کردار ادا کیا جو ”سندھی وڈیرے“ سے زیادہ جابرانہ اور ظالمانہ ہوتا ہے۔ اٹھارویں ترمیم ان سیاستدانوں کے لئے تھی جو ”پارٹی وڈیرے“ تھے۔ پھر رضا ربانی ”ٹائیں ٹائیں فش“ ہو گئے۔ میں نے تب لکھا تھا وہ پہلے بھی راضی رضا ربانی تھے اور اب بھی راضی برضا ربانی ہیں۔ اس کے بعد نیر بخاری سینٹ کے چیئرمین بن گئے۔ اس دفعہ رضا ربانی پہلے ہی راضی رضا ربانی بن گئے کیونکہ وہ دل سے سمجھتے ہیں کہ نیر بخاری زیادہ مستحق ہیں۔ انہوں نے سینٹ کو بہت اچھی طرح چلا کے دکھا دیا ہے۔ ”صدر“ زرداری نے رضا ربانی کو سینٹ میں پارلیمانی لیڈر بنا دیا مگر اپوزیشن لیڈر اعتزاز احسن کو ہی بنایا۔ اعتزاز نے اب ”صدر“ زرداری کے لئے ”ہتھ ہولا رکھا“ ہوا ہے۔ اعتزاز نے فوجی عدالتوں کے لئے پہلے سے ہی حمایت کر رکھی ہے۔ وہ تو اس کے لئے آئینی ترمیم کے تکلف کے بھی قائل نہ تھے۔ البتہ کچھ سیاستدانوں کو اس تکلف کے لئے بھی تکلیف ہے۔ مولانا فضل الرحمن کے پیٹ میں بہت درد ہے جبکہ APC میں جرنیلوں کے سامنے وہ فوجی عدالتوں کے پوری طرح حق میں تھے؟ اس پر الگ سے کالم لکھنے کا خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ شکر ہے کہ ہم گناہ میں شامل نہیں ہیں۔ کیا یہ گناہ APC میں گناہ صغیرہ تھا اور اب گناہ کبیرہ ہے؟ اکثر سیاستدان ایسے ہیں کہ گناہ صغیرہ کرتے ہی نہیں ہیں۔
آج کل اپنے سکول کے ساتھیوں کو بچانے کے لئے جان قربان کرنے والے اعتزاز حسن کا چرچا ہو رہا ہے۔ اس کی پہلی برسی ہے۔ ایک منچلا دوست کہنے لگا کہ اعتزاز حسن اعتزاز احسن سے بڑا اور سچا انسان تھا؟ اعتزاز حسن کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے سیاستدانوں کو بے نقاب کرنا زیادہ بڑا خراج عقیدت یہی ہے۔ فوجی عدالتوں کے لئے آئینی ترمیم کے حق میں ”صدر“ زرداری نے ویٹو کیا اور اعتزاز احسن، رضا ربانی اور فاروق ایچ نائیک نے ووٹ دیا۔ ویٹو اور ووٹ میں کیا فرق رہا؟ اعتزاز اور نائیک نے آئینی ترمیم کے خلاف وکالت اور سیاست میں فرق مٹا دیا تو جینوئن دانشور سیاستدان مشاہد حسین نے کہا کہ ہم APC کی بجائے عدالتی کٹہرے میں بیٹھے ہیں۔
رضا ربانی نے کہاکہ ضمیر کے خلاف ووٹ دیا۔ یہ واردات کئی بار ہوئی ہے۔ اب تو ضمیر اس ملک میں ڈھیٹ ہو گیا ہے۔ رضا ربانی کہتے ہیں کہ کبھی اتنا شرمندہ نہیں ہوا جتنا آج ہوا ہوں۔ یعنی شرمندہ تو وہ ہوتے رہے ہیں۔ ”اتنے“ شرمندہ نہیں ہوئے۔ جب زرداری کے وزیر اور خود رضا ربانی صدر جنرل مشرف سے حلف لے رہے تھے تو وہ اتنے شرمندہ نہیں ہوئے تھے جب زرداری صاحب کے حکم پر جنرل مشرف کو گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ رضا ربانی نے اتنا کہا کہ یہ منظر دیکھا نہیں ہو گا۔ یعنی اتنے شرمندہ نہیں ہوئے تھے۔
جب جنرل مشرف نے این او آر کے ذریعے زرداری صاحب اور دوسرے کرپٹ ساتھیوں کو اقتدار کے قابل بنایا تو رضا ربانی کا ردعمل کیا تھا؟ وہ اتنے شرمندہ نہیں ہوئے تھے؟ رضا ربانی پرانے پارلیمنٹرین ہیں۔ اتنی جلدی یعنی ایک دن میں دونوں ایوانوں سے بل پاس ہو گیا۔ اس پر انہیں کتنی شرمندگی ہوئی ہے؟ اتنی شرمندگی نہیں ہوئی ہو گی۔ ”صدر“ زرداری نے گڑھی خدا بخش میں کہا تھا یہ بل کیا ہے؟ اس قانون کے ذریعے مجھے اور نواز شریف کو جیل ہی نہ جانا پڑے جبکہ وہ کبھی فوجی حکم پر جیل نہیں گئے۔ ہمیشہ کرپشن کے مقدموں میں جیل گئے ہیں۔ ایک بار جیل بھجوانے والے صدر اسحاق نے جیل سے نکال کر وزیر بنا دیا اور دوسری دفعہ سول عدالتوں کے ذریعے ضمانت پر اور بغیر ضمانت کے ایوان صدر میں پہنچ گئے۔ اس میں سیاستدانوں کی سب مہربانیاں تھیں۔ مگر APC میں ”صدر“ زرداری نے یو ٹرن لے کے پارٹی لوگوں کے خلاف آئینی ترمیم کے حق میں رائے دی تو یہ کیا مجبوری تھی؟ بہرحال اس کی بھی ہمیں خوشی ہے۔
خدا کی قسم بڑے درد کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ اگر ہمارے سیاستدانوں نے اپنے ضمیر کے مطابق ووٹ کا استعمال کیا ہوتا تو آج پاکستان کی یہ حالت نہ ہوتی۔ رضا ربانی نے صرف فوجی عدالتوں کی آئینی ترمیم کے لئے اپنے ضمیر کے خلاف ووٹ نہیں دیا جبکہ میرے خیال میں یہ ووٹ ضمیر کے عین مطابق ہے۔ اس کے علاوہ سیاستدانوں کے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ پچھلے کئی برسوں سے اس معاملے میں سیاستدان ناکام ہو چکے ہیں۔ آپریشن ضرب عضب کے لئے پوری قوم نے جنرل عاصم باجوہ کی اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ یہ قومی آپریشن ہے۔ اب دہشت گردی کے ختم ہونے کا وقت آ گیا ہے۔ سیاستدانوں نے اس کا خیرمقدم کیا ہے۔ الطاف حسین کی آواز سب سے بلند ہے۔ قوم ضرور سربلند ہو گی۔
آخر میں صرف یہ نعرہ رضا ربانی کی خدمت میں عرض کروں گا جو خود انہوں نے اپنے کانوں سے سنا ہو گا۔ ایک بار پھر سن لیں۔
بی بی ہم شرمندہ ہیں، تیرے قاتل زندہ ہیں
رضا ربانی بھی پانچ سال حکومتی پارٹی میں تھے۔ شہید بے نظیر بھٹو کے قاتل دندناتے پھرتے ہیں۔ ہمارے عدالتی نظام پولیس اور سیاست نے ہمیں اپنے سامنے شرمندہ کر دیا ہے۔ کیا وہ رضا ربانی کی لیڈر نہیں تھی؟ اکثر لوگ سمجھتے ہیں کہ یہ دہشت گردی تھی۔ کچھ لوگ اسے سیاسی اور پارٹی دہشت گردی کہتے ہیں۔ اس دہشت گردی کا ہم نے کیا کر لیا ہے؟ اب کچھ طے تو ہوا ہے۔ سیاستدانوں نے یکجہتی اور یکسوئی کا ثبوت دیا تو ہم ایک اچھے مستقبل کا استقبال کرنے والے ہیں۔