ایک ماہ میں مین ٹرانسمیشن لائن ٹرپ ہونے کا دوسرا بڑا واقعہ
شدید دُھند، سسٹم اوور لوڈ ہونے اور فرنس آئل کی فراہمی میں کمی کے باعث بجلی فراہم کرنیوالی مین ٹرانسمیشن لائین دوبارہ ٹرپ کرنے سے گذشتہ روز ملک بھر میں بجلی کا بڑا بریک ڈائون، بیشتر علاقوں کو بجلی کی فراہمی متاثر ہوئی اور زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔
ایک مہینے کے دوران مین ٹرانسمیشن لائین کے ٹرپ ہونے کا یہ دوسرا بڑا واقعہ ہے جس نے نہ صرف شہریوں کو بجلی کی طویل ترین لوڈشیڈنگ کی اذیت میں مبتلا کیا بلکہ اس سے کاروبارِ حیات بھی ٹھپ ہو کر رہ گیا حتیٰ کہ علامہ اقبال انٹرنیشنل ائر پورٹ پر بھی تمام لائٹیں بند ہو گئیں۔ ٹرانسمیشن لائین ٹرپ ہونے سے آئیسکو کے کئی گرڈ سٹیشن بھی بند ہو گئے جبکہ ملک بھر میں بجلی کی فراہمی کئی گھنٹے تک معطل رہی۔ گذشتہ ماہ میں ٹرانسمیشن لائین ٹرپ ہونے سے بھی لوگوں کو ایسے ہی مسائل کا سامنا کرنا پڑا تھا جبکہ اب پھر مین ٹرانسمیشن لائین کے ٹرپ ہونے سے بادی النظر میں یہی نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ ہمارے قومی اداروں نے اصلاح احوال کیلئے ابھی تک کوئی کروٹ نہیں لی اور وہ بدستور اپنی بے ڈھنگی چال پر ہی کاربند ہیں، بے شک عوام اذیت اٹھاتے، مسائل کا شکار ہوتے رہیں انہیں روزمرہ کے معاملات میں بھی ریلیف دینے کی سوچ اقتدار کے ایوانوں اور ان سے وابستہ اداروں میں ابھی تک پیدا نہیں ہوئی۔ اس وقت تو موسم سرما کے باعث لوگ بجلی کی لوڈشیڈنگ برداشت کر لیتے ہیں مگر گذشتہ آٹھ سال سے وہ تسلسل کے ساتھ لوڈشیڈنگ کی اذیت اٹھا رہے ہیں تو انہیں موسم سرما کے دوران بھی لوڈشیڈنگ پر کوفت ہوتی ہے اور اس سے یہ تاثر بھی مستحکم ہوتا ہے کہ حکومت قوم کو توانائی کے بحران سے مستقل نجات دلانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس وقت ٹرانسمیشن لائینوں کی جو صورتحال ہے وہ بجلی کا زیادہ لوڈ برداشت ہی نہیں کر سکتیں چنانچہ جب لوڈشیڈنگ کے خاتمہ کی صورت میں تسلسل کے ساتھ بجلی فراہم ہونا شروع ہو گی تو ٹرانسمیشن لائین یہ بوجھ برداشت نہ کرتے ہوئے بار بار ٹرپ ہو گی جس سے عوام لوڈشیڈنگ جیسے عذاب سے ہی دوچار رہیں گے۔ اس صورتحال میں عوام اپنے منتخب حکمرانوں سے یہ پوچھنے میں حق بجانب ہیں کہ وہ کان لپیٹ کر کب تک حکمرانی کے مزے لوٹتے رہیں گے۔ حکمرانوں کی ایسی پالیسیاں ہی تو ان کے خلاف عوامی اضطراب کا باعث بنتی ہیں۔