بھارتی جارحیت کو بے نقاب کرنے کیساتھ اس کا مؤثر توڑ بھی کیا جائے
ہماری کوششوں کا بھارت کیجانب سے مثبت جواب نہیں ملا‘ نوازشریف‘ بھارت کا ’’چور نالے چتر‘‘ کا رویہ برقرار
بحرین میں پاکستانی کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم نواز شریف نے کہا ہے کہ کنٹرول لائن پر بھارتی فائرنگ تعلقات کو خراب کرنے کی کوشش ہے۔بھارت نے کشمیری رہنمائوں سے ملاقات کا بہانہ بناکر سیکرٹری خارجہ سطح کے مذاکرات معطل کئے یہ بات سمجھ سے بالاتر ہے حالانکہ کشمیری رہنمائوں سے ملاقاتیں اس سے قبل بھی ہوتی رہی ہیں۔ دونوں ممالک اس سے قبل تین جنگیں لڑ چکے ہیں۔ جنگوں کا کوئی فائدہ نہیں۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں بلکہ یہ بگاڑ پیدا کرتی ہیں۔ سابق بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کی قدر میرے دل میں ہے جب وہ پاکستان آئے تو ایک اچھا ماحول قائم کیا گیا تھا تمام امور مل بیٹھ کر حل کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ اتنا کچھ بگڑنے کے باوجود بھی ہم اپنی اصلاح نہ کریں تو یہ افسوسناک ہے۔ ہماری حکومت نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کیلئے پرخلوص کوششیں کیں تاہم بھارت کی طرف سے اس کوشش کا مثبت جواب نہیں دیا گیا۔
لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر جھڑپیں‘ گولہ باری اور فائرنگ کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے‘ اسے انہونی قرار نہیں دیا جا سکتا تاہم ہر واقعہ کا کوئی نہ کوئی پس منظر ضرور ہوتا ہے۔ کبھی دوسری طرف معمولی سی نقل و حرکت پر غلط فہمی کے باعث فریقین میں فائرنگ شروع ہو جاتی ہے‘ کبھی بھارت باقاعدہ منصوبہ بندی سے اشتعال انگیز کارروائیاں کرتا ہے۔ اسکے قومی انتخابات کے موقع پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری عموماً ہاٹ رہتی ہے۔ اس کا مقصد بھارتی عوام کی پاکستان سے نفرت کو کیش کرانا ہوتا ہے جس کیلئے حکومت اور اپوزیشن ایک دوسرے سے بڑھ کر پاکستان کیخلاف زہر اگل کر اپنے ووٹروں پر خود کو پاکستان کا بڑا دشمن ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔ بھارت میں موجود ہر قابل ذکر سیاسی پارٹی اکھنڈ بھارت کے ایجنڈے کی بات کرتی ہے۔ پاکستان کا وجود اس ایجنڈے کی تکمیل کی نفی ہے۔ گزشتہ سال کے وسط تک بھارت کی طرف سے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر شرانگیزی سے بھارتی لیڈرشپ انتخابات میں سیاسی فائدہ اٹھانا چاہتی تھی‘ نریندر مودی اور انکے حواری پاکستان کیخلاف جس طرح زہر اگلتے رہے‘ اس کا شدت پسندوں نے اثر لیا اور مودی کو ایک سرٹیفائیڈ قاتل ہونے کے باوجود ایوان اقتدار میں پہنچادیا۔
اب لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری ایک بار پھر گرم ہے‘ بھارت کی طرف سے فائرنگ اور گولہ باری کی جاتی ہے‘ ان میں رینجرز کے جوانوں کے ساتھ ساتھ خواتین اور بچے بھی شہید ہو چکے ہیں۔ بربریت کی مثال اس وقت دیکھنے میں آئی جب بی ایس ایف نے فلیگ میٹنگ کے بہانے بلا کر پاکستانی رینجرز اہلکاروں پر فائر کھول دیا جس سے دو اہلکار شہید ہو گئے۔ اسی دوران بھارت نے ایک کشتی کی کہانی گھڑ کر پاکستان پر الزام دھر دیا کہ یہ کشتی بھارت کیخلاف کسی کارروائی میں استعمال ہونا تھی۔ بھارت کی بروقت کارروائی سے اس پر سوار چار افراد نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا۔ پاکستان نے تحقیق کی مگر یہ بھارت کا بے بنیاد الزام ثابت ہوا جس کا مقصد پاکستان کو عالمی سطح پر بدنام کرنا تھا۔ لائن آف کنٹرول پر بھارت کی اشتعال انگیز کارروائیوں بشمول دو رینجرز اہلکاروں کو فلیگ میٹنگ کیلئے بلا کر شہید کرنا اور کشتی کے غیرحقیقی وقوعے کا بھی ایک مقصد ہے۔
آج پاکستان تاریخ کے نازک ترین موڑ پر ہے‘ فوج دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے یکسوئی سے اپریشن ضرب عضب میں مصروف ہے‘ یہ وہی دہشت گرد ہیں جن کی کارروائیوں سے کوئی پاکستانی محفوظ نہیں۔ یہ سفاک لوگ ملک کے دفاع کو کمزور کرنے کو اپنا مشن سمجھتے ہیں۔ جی ایچ کیو سے لیکر پشاور کامرہ ایئربیس سرگودھا‘ مہران ایئربیس اور نیول ڈاکیارڈ پر حملے‘ انمول جہازوں اور ایکوئپمنٹ کی تباہی‘ انکی پاکستان دشمنی اور پاکستان کے دفاع کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بھارت کیلئے پاکستان کا وجود ناقابل برداشت ہے‘ وہ ہمیشہ اسکے دفاع پر قدغن لگانے کے درپے رہا ہے۔ یہی کام پاکستان میں دہشت گرد کررہے تھے جن کا پاک فوج نے عرصہ حیات تنگ کردیا ہے ان کو پاکستان میں چھپنے کی جگہ نہیں مل رہی۔ مزیدبراں پاکستان میں حکومت‘ فوج اور قوم دہشت گردوں کے خاتمے کیلئے متحد ہو چکی ہے۔ بھارت کا اپنے مفادات کیلئے کام کرنے والوں کا تحفظ کرنا ایک فطری امر ہے‘ اس لئے وہ پاک فوج کی ضرب عضب سے توجہ ہٹانے کیلئے لائن آف کنٹرول اور ورکنگ بائونڈری پر شرانگیزی کے ساتھ ساتھ کشتی اڑانے جیسے لغو الزام بھی عائد کر رہا ہے۔
وزیراعظم نوازشریف ایک تو کاروباری ذہنیت کے مالک ہیں‘ دوسرے خوش فہمی کا شکار بھی ہیں‘ تیسرے شاید ہندو بنیئے کی فطرت کو بھی اچھی طرح نہیں سمجھتے۔ بھارت کے ساتھ کاروبار میں ہرج نہیں‘ اگر یہ برابری کی بنیاد اور مسئلہ کشمیر کے حل کے بعد ہو۔ واجپائی کے پاکستان کے دورے کا میاں نوازشریف عموماً ذکر کرتے ہیں‘ اس دورے سے وہ پاکستان بھارت تعلقات کی معراج کی امید لگائے بیٹھے تھے۔ واجپائی ان بھارتی لوگوں میں شامل ہیں جو کشمیر کو اٹوٹ انگ کہتے ہیں۔ آج بھی ان کا یہی مؤقف ہے۔ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر پاکستان بھارت تعلقات معمول پر نہیں آسکتے اور بھارتیوں کی طرف سے اٹوٹ انگ کی رٹ لگائے رکھنے سے مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو سکتا۔
میاں نوازشریف کہتے ہیں کہ ’’دونوں ممالک تین جنگیں لڑ چکے ہیں‘ جنگوں کا کوئی فائدہ نہیں‘ اتنا کچھ بگڑنے کے باوجود ہم اپنی اصلاح نہ کریں تو افسوسناک ہے۔‘‘ میاں نوازشریف اس طرح کا دفاعی رویہ نہ اپنائیں‘ پاکستان بھارت کشیدگی کی وجہ بھارت کی جانب سے یکطرفہ ہٹ دھرمی ہے۔ جنگیں اس کے رویے کے پاکستان کو برداشت نہ کرنے کے باعث ہوئیں۔ مسئلہ کشمیر اسکی ضد کی وجہ سے لٹکا ہوا ہے‘ افسوس بھات کے رویے پر ہونا چاہیے۔
ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے پریس بریفنگ کے دوران بجاکہا کہ ہم بھارت کے ساتھ کشیدگی نہیں چاہتے۔ بھارت فوری طور پر جنگ بندی کی خلاف ورزی اور بلا اشتعال فائرنگ کا سلسلہ بند کرے۔ رینجرز کے دو جوانوں کو شہید کرنے کے واقعہ کی تحقیقات کرا کے ذمہ داروں کو سخت سزائیں دی جائیں۔ فائرنگ کے واقعات پر ہم نے بھارت سے سخت احتجاج کیا ۔ مبینہ دہشت گرد کشتی کے بارے میں بھارت کی طرف سے سرکاری طور پر نہیں بتایا گیا ہمارے حکام نے اپنے طور پر میڈیا رپورٹس کو سامنے رکھتے ہوئے انکوائری کی کہ آیا ہماری کوئی ماہی گیر کشتی تو لاپتہ نہیں۔ بھارتی کشتی ڈرامے کا تو خود بھارت کے اندر پول کھول دیا گیا …بھارت کا رویہ ہمیشہ سے چور نالے چتر کا رہا ہے۔ جس کا عکس بھارتی وزیر خارجہ سشماسوراج کے بیان میں بھی پایا جاتا ہے۔ انہوں نے کہا ہے کہ پاکستان کی جارحیت سے بھارت خوفزدہ نہیں ہوگا ، ہمسایہ ملک دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔پاکستان کو دہشت گردی کا ڈھانچہ ختم کرنا ہوگا۔
پاکستان کی طرف سے رینجرز اہلکاروں کی شہادت پر یہ معاملہ عالمی سطح پر بڑے مناسب طریقے سے اٹھایا گیا تھا۔ پاکستان میں موجود اہم ممالک کے سفیروں کو اس پر بریفنگ دی گئی۔ دیگر واقعات کے حوالے سے بھی یہی طریقہ کار اختیار کیا جانا چاہیے۔ دہشت گرد کشتی کا معاملہ بھی عالمی برادری کے سامنے رکھا جائے۔ ضروری ہے کہ بھارتی جارحیت کو ہر مناسب عالمی فورم پر اٹھانے کے ساتھ ساتھ اس کا مؤثر توڑ بھی کیا جائے۔