2014ء: زرعی شعبے میں ترقی، خوراک کی خودکفالت کا خواب پورا نہ ہو سکا
لاہور (ندیم بسرا) حکومت کی طرف سے زراعت کے شعبے پر ٹیکس ختم نہ کرنے کے باعث 2014ءمیں کسانوں کی مشکلات کم نہ ہو سکیں۔ کاشتکار زرعی مداخل پر جی ایس ٹی سمیت دیگر ٹیکسز کے خلاف سراپا احتجاج رہے۔ کسان گندم، گنے، چاول اور کپاس کی سپورٹ پرائس نہ ملنے پر پورا سال حکومتی پالیسیوں کو کوستے رہے۔ بتایا گیا ہے کہ ملک میں زراعت کی طرف توجہ نہ دینے سے زرعی شعبے میں ترقی اور خوراک کی خودکفالت کا خواب 2014ءمیں بھی پورا نہ ہوا۔ کپاس کی قیمت 32سو روپے فی من مقرر کی گئی جبکہ کسانوں سے 24سو روپے سے 26سو روپے فی من کپاس خریدی جاتی رہی، باسمتی چاول کی قیمت 18سو روپے فی من مقرر ہوئی۔ کسانوں سے چاول 12سو روپے فی من تک خریدا گیا۔ گنے کے حکومتی نرخ پنجاب حکومت نے 192روپے فی من مقرر کئے بعدازاں اس کو 180روپے کر دیا گیا مگر کسانوں سے 150روپے سے 160روپے تک گنا خریدا جاتا رہا۔ کسانوں نے شدید احتجاج کیا کہ حکومت نے پاکستانی کاشتکاروں کا مفاد نہیں دیکھا بلکہ بھارتی کسانوں کی فصلوں کو پاکستانی منڈیوں میں بڑے پیمانے پر متعارف کروایا گیا۔ کپاس کی فصل پر کسانوں کو 43ارب روپے، باسمتی چاول پر 25ارب روپے، گنے کے کم نرخ دینے پر 25ارب روپے کا نقصان ہوا۔ بھارتی کسانوں کی پاکستان کی منڈیوں میں مکمل رسائی ہونے پر ٹنل فارمنگ کو بھی نقصان ہوا۔ کسان رہنما پروفیسر فخر امام نے بتایا کہ پاکستان کو پانی کی دستیابی بھی کم رہی، ملک کی زرعی درآمدات بڑھ رہی ہیں اگر صورت حال یہی رہی تو زرعی درآمدات کا بل 5سو ارب روپے سے بڑھ کر 8سو ارب روپے تک پہنچ جائے گا۔ کسان ماہر ڈاکٹر عامر سلمان نے بتایا کہ اگر تمام اضلاع کے ڈی سی اوز لینڈ ریکارڈ کاشتکاروں کا مکمل کرے اور سبسڈی دی جائے تو زراعت کے شعبے میں ترقی آ سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ زرعی شعبے پر جی ایس ٹی مکمل ختم ہونا چاہئے۔ محکمہ زراعت پنجاب کے ترجمان نے بتایا کہ گندم کی فصل 19اعشاریہ 5ملنی ٹن رہی، کاٹن بیلز9اعشاریہ 90ملین رہی، چاول 3اعشاریہ 5ملنی ٹن رہی۔ گنے کی فصل 39اعشاریہ 7ملنی ٹن رہی، مکئی کی فصل 3اعشاریہ 63ملین رہی۔
زراعت/ ٹیکس