آسٹریلوی اخبار نے بھی گستاخانہ خاکہ شائع کر دیا : میگزین پر حملہ ہم نے کیا مزید کرینگے : القاعدہ
پیرس+ سڈنی (نوائے وقت رپورٹ+ اے ایف پی+ ایجنسیاں) آسٹریلوی ہفت روزہ اخبار نے بھی ”آﺅ دعا کرو“ کے نام سے گستاخانہ خاکہ شائع کیا ہے۔ اس نے پیرس کے میگزین پر حملے کے حوالے سے لکھا ہے کہ کمزوری نہیں دکھانی چاہئے۔ دریں اثناءفرانسیسی وزیراعظم نے پیرس حملے میں انٹیلی جنس کی ناکامی کا اعتراف کر لیا۔ دوسری جانب القاعدہ نے حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے مزید حملوں کی دھمکی دے دی ہے۔ فرانسیسی وزیراعظم مینوئل ولاس نے اعتراف کیا ہے کہ میگزین دفتر پر حملے کے بارے میں انٹیلی جنس بری طرح ناکام رہی، کسی انٹیلی جنس ایجنسی سے حکومت کو حملے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں جو اس بات کا ثبوت ہے کہ فرانسیسی انٹیلی جنس دہشت گردی کے بارے میں معلومات کے حصول میں واضح طور پر ناکام ہو چکی ہے۔ دوسری جانب یمن میں سرگرم القاعدہ کا کہنا ہے کہ پیرس میں حملہ ان کے گروپ میں شامل افراد نے کیا۔ القاعدہ کا کہنا ہے کہ فرانس سمیت یورپ میں مزید حملے کئے جائیں گے۔ فرانسیسی صدر نے حملوں کے خلاف آج پیرس میں بڑی ریلی نکالنے کا اعلان کیا ہے جس میں یورپی رہنما بھی شرکت کریں گے۔ برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون، جرمن چانسلر انجیلا مرکل اور یورپی یونین کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے ریلی میں شرکت کی دعوت قبول کر لی ہے۔ پیرس میں حملے میں ملوث نوجوان کی اہلیہ حیات بومدین کی تلاش کے لئے فرانس بھر میں بڑے پیمانے پر سرچ آپریشن شروع کر دیا ہے، فرانسیسی عوام کو ٹی وی چینلز کے ذریعے با خبر کیا جا رہا ہے کہ یہ خاتون ایک عسکریت پسند ہے کسی کو بھی وہ نظر آئے پولیس کو اطلاع کی جائے۔ پولیس کے مطابق یہ اس وقت خطر ناک عورت ہے جو شہریوں کو نقصان پہنچا سکتی ہے۔ حیات کا شوہر احمد کولی بالے یہودی سٹور حملے کے بعد پولیس مقابلے میں مارا گیا تھا۔ فرانسیسی حکام نے اس لڑکی کی یہ تصویر بھی جاری کی ہے جس میں اس نے بکینی پہنی ہوئی ہے، فرانسیسی حکام کے مطابق حیات اس سے پہلے کافی آزاد خیال تھی تا ہم کولی بالے سے ملاقات کے بعد وہ پردہ نشین ہو گئی تھی اور اس نے بکینی سے برقع پہننا شروع کر دیا تھا۔ فرانسیسی حکام کے مطابق حیات کولی بالی سے ملاقات کے بعد اسلامی کتابوں کا مطالعہ کرتی دیکھی گئی، وہ اکثر لوگوں کے ساتھ بحث کرتی تھی کہ فلسطین، عراق چیچنیا اور افغانستان میں امریکہ اور دوسرے قابض ممالک جو کر رہے ہیں کیا وہ اصل دہشت گردی نہیں۔ یورپ کے 28 ملکوں کے بلاک یورپی یونین کا اگلا سربراہی اجلاس 12 فروری کو ہو گا۔ ذرائع ابلاغ کے مطابق یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے اِس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ وہ اگلے سربراہ اجلاس کے سیشن میں فرانس میں رونما ہونے والی دہشت گردی گفتگو کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ یونین ایسے چیلنجز کا کس طرح مثبت انداز میں مقابلہ کر سکتی ہے۔ ٹسک کے مطابق اجلاس میں دہشت گردی کے موضوع پر گفتگو کا فیصلہ فرانسیسی صدر فرانسوا اولانڈ کے ساتھ ہونے والی ملاقات میں کیا گیا تھا۔ مشرقی پیرس میں سپر سٹور پر قبضے کے بعد سکیورٹی فورسز کی کارروائی میں 5 افراد مارے گئے تھے جس کے بعد حکام نے متعدد مغویوں کو بچا لیا۔ کوشر مارکیٹ سے 15 یرغمالی رہا کرائے گئے ہیں۔ فرانسیسی صدر نے کہا ہے کہ فرانس پر شدت پسندی کا مظاہرہ ابھی ختم نہیں ہوا۔ فرانسیسی پولیس مشتبہ حملہ آوروں کے ساتھیوں کو تلاش کر رہی ہے۔ امریکی محکمہ خارجہ نے کہا ہے کہ ان حملوں کے بعد عالمی سطح پر دہشت گردی کا خدشہ ہے۔ دو لاکھ افراد نے احتجاجی ریلی نکالی ہے۔ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حملہ آوروں کے بعض ساتھی ترکی میں موجود ہو سکتے ہیں۔ بھارتی مسلمانوں کی وفاقی تنظیم آل انڈیا مسلم مجلس مشاورت نے پیرس میں 12 افراد کی ہلاکت کی مذمت کی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ اسلام اور مسلم کسی بھی قومیت اور مذہب سے تعلق رکھنے والے معصوم انسانوں کے قتل کو مسترد کرتے ہیں۔ صرف باضابطہ عدالتیں کسی کو سزا دینے کی مجاز ہیں اور صرف باضابطہ مسلم ریاست ہی جہاد کا اعلان کر سکتی ہے۔ بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تمام مہذب معاشروں میں اظہار کی آزادی کا احترام کیا جانا چاہئے لیکن یہ آزادی تعمیری تنقید تک محدود ہونی چاہئے، اسے مختلف مذاہب کی کتابوں اور پیغمبروں کی اہانت کیلئے استعمال نہیں کی جانی چاہئے۔ احمد نامی پولیس اہلکار کے مسلمان ہونے کی خبر نے مغربی ذرائع ابلاغ میں نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ فرانسیسی پولیس کے ترجمان نے ’نیو یارک ٹائمز‘ کو بتایا کہ احمد کے والدین شمالی افریقہ سے ہجرت کرکے فرانس آئے تھے لیکن وہ یہ نہیں جانتے کہ آیا احمد اب بھی اسلام کا پیروکار تھا، اے بی سی نیوز کے مطابق فرانسیسی اخبارات کی اس خبر نے سوشل میڈیا پر خاصی توجہ حاصل کر لی ہے۔ سوشل میڈیا پر کئی لوگوں کا کہنا ہے کہ احمد نے جریدے کی حفاظت کرتے ہوئے جان کا نذرانہ پیش کیا، جس نے اس کے مذہب کی توہین کی۔ افغانستان میں سینکڑوں افراد نے ریلی نکالی اور حملہ آوروں کو اپنا ہیرو قرار دیا ہے۔ شمالی شہر مونٹ ہیلٹر میں مسلح افراد نے ایک جیولری شاپ پر دو خواتین کو یرغمال بنا لیا۔ وزارت داخلہ کے مطابق پیرس میں 500 اضافی فوجی تعینات کئے گئے ہیں۔
پیرس/ آسٹریلوی اخبار