وزیر داخلہ دہشت گردی میں ملوث 10 فیصد مدارس کے نام بتائیں : سراج الحق
لاہور (سپیشل رپورٹر+ نوائے وقت نیوز +این این آئی) جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق نے اکیسویں آئینی ترمیم پر نظرثانی کا مطالبہ کیا ہے اور کہا ہے کہ ترمیم پاس ہونے سے قومی اتفاق رائے میں تقسیم پیدا ہو گئی ہے۔ حکومت نے جوڈیشل کمشن بنانے میں تاخیر کی تو اسکا نقصان حکومت اور جمہوریت کو ہو گا۔ منصورہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے انہوں نے کہا بھارتی وزیراعظم مودی کی مقبوضہ کشمیر میں پہلی ترجیح گورنر راج کا نفاذ تھا۔ بلوچستان کے حالات کی خرابی میں بھارت کا ہاتھ ہے۔ وزیراعظم کو دہشت گردی پر قانون سازی بہت سوچ سمجھ کر کرنی چاہئے تھی۔ وزیر داخلہ کا فرض ہے کہ قوم کو ان 10فیصد مدارس کے بارے میں بتائیں جو دہشت گردی میں ملوث ہیں۔ حکومت عوام کے اندر احساس تحفظ پیدا کرنے میں ناکام رہی ہے، لوگوں کے چہروں پر مایوسی اور ناامیدی ہے، پشاور سانحہ کے بعد حکومت کو چاہئے تھا وہ قوم کو ایک عزم اور حوصلے کے ساتھ دہشت گردی کے خلاف کھڑا کرتی مگر تین اے پی سیز کے بعد حکومت کا سارا عزم عمل میں ڈھلنے کی بجائے قانون سازی تک محدود ہوکررہ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ شوریٰ نے طے کیا ہے کہ 2015ءکو امن کے سال کے طور پر منایا جائے گا۔ انہوں نے کہا حکومت کو بھی پہلے دن ہی 2015ءکو امن کا سال قرار دے دینا چاہئے تھا تاکہ قوم کے اندر ایک حوصلہ پیدا ہوتا لیکن حکمرانوں کے اندر کوئی جوش جذبہ دکھائی نہیں دیا جس کی وجہ سے قومی اتفاق رائے کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ انہوں نے کہا ہم نے طے کیا ہے ملک کو اسلامی و خوشحال بنانے کیلئے قومی سطح پر تحریک چلائی جائے، ہم 68سال سے جاری استحصالی نظام کے خاتمہ کیلئے ملک بھر کے غریبوں کو اکٹھا کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی ایک یوتھ پالیسی دے رہی ہے تاکہ نوجوانوں کو ایک پلیٹ فارم پر متحدکرکے یوتھ کے مسائل کے حل کیلئے مربوط اور منظم نظام بنایا جاسکے۔ انہوں نے کہا ہم نے طے کیا ہے کہ فروری میں قومی قائدین کے ایک وفد کو ساتھ لیکر پہاڑوں اور غاروں میں بیٹھے اپنے ناراض بھائیوں کو منانے کیلئے جائیںگے۔
سراج الحق