پشاور: شوہر نے کال کی، پُرسکون رہو بیٹے کی نعش لے کر آ رہا ہوں: آمش کی والدہ
پشاور (نیٹ نیوز+ بی بی سی) والدہ جس نے آرمی پبلک سکول حملے میں ایک بیٹا کھویا اور ایک والدہ جس کا بیٹا اس روز سکول نہیں گیا دونوں نے اپنے اپنے جذبات بیان کئے ہے۔ سمیعہ سلمان کا 14 سالہ بیٹا آمش پشاور میں 16 دسمبر کو آرمی پبلک سکول کے حملے میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ ان کا کہنا تھا کہ مجھے کوئی اندازہ نہیں تھا میری کزن نے مجھے پریشانی میں فون کر کے پوچھا کہ آمش کہاں ہے کیا وہ سکول گیا ہے؟ انہوں نے مجھے ٹی وی آن کرنے کے لئے کہا جہاں میں نے دیکھا کہ آمش کے سکول پر حملہ جاری تھا۔ میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں نے کیا سوچا میرا خیال تھا کہ وہ بچوں کو یرغمال بنا لیں گے۔ ہم اُسے سارا دن ڈھونڈتے رہے، ہسپتالوں میں، سکول کے پیچھے پارک میں، سکول کے قریب گھروں میں ہر جگہ مگر ہم اُسے نہیں ڈھونڈ سکے۔ شام ساڑھے چار بجے کے قریب میرے شوہر نے مجھے کال کی اور کہا کہ اپنے آپ کو پُرسکون کرو میں ا±س کی نعش گھر لے کر آ رہا ہوں۔ ہمیں ا±س کی انگلی پر لگی چوٹ کی وجہ سے شناخت کرنے میں مدد ملی۔ ا±س کی ہتھیلی پر گولی لگنے سے ایک بڑا گھاو¿ تھا۔ اس کا چہرہ کافی حد تک ٹھیک تھا ایک گولی اس کے جبڑے پر لگی اور گردن سے نکل گئی۔ میں چاہتی تھی کہ آمش سکول سے چھٹی کرے تاکہ وہ میرے ساتھ بہن کی شادی کی شاپنگ میں مدد دے سکے مگر میرے شوہر نے کہا بچے کا سکول سے زیادہ دن غائب رہنا ٹھیک نہیں انہوں نے آمش کو سکول کے لئے ا±س کے بال آہستہ آہستہ سہلاتے ہوئے اٹھایا جب تک کہ وہ اُٹھ نہیں گیا۔ میں نے آمش سے پوچھا کہ ناشتہ کر لو مگر اس نے کہا کہ ’آپ کیسے مجھے ناشتے کے لئے کہہ سکتی ہیں جب مجھے پہلے ہی سکول کے لئے دیر ہو چکی ہے۔‘ مگر اس نے ناشتہ کیا اور جلدی میں دروازے سے باہر چلا گیا۔ مجھے کیسے پتہ چلتا کہ میں اسے اب دوبارہ کبھی زندہ نہیں دیکھ پاو¿ں گی۔ آمش کو کھیل اور حساب بہت پسند تھے اور خاندان والے اسے پسند کرتے تھے اور اپنے ہمسایوں کے بچوں کے ساتھ پھرا کرتا تھا۔ اُسے گاڑیاں پسند تھیں اپنے چچاو¿ں کے ساتھ وہ آتا جاتا تھا۔ وہ شکار میں بھی دلچسپی لیتا تھا اور اُسے کاریں بہت پسند تھیں۔ وہ بہت خوش زندگی گزار چکا تھا میں سمجھتی ہوں کہ ا±س نے گذشتہ چند سال میں اپنی زندگی بھرپور انداز میں جی تھی۔ اسے موسیقی پسند تھی۔ وہ میرے کمرے میں آتا تھا اپنے کانوں میں ہیڈ فون لگائے، اس گانے کو سنا کرتا ’جسٹ ڈونٹ کرائی‘ مجھے اس گانے سے نفرت تھی۔ اب میں اس گانے کو سنتی ہوں اور محسوس کر سکتی ہوں کہ وہ شاید مجھے کچھ بتانے کی کوشش کر رہا تھا۔ آمش کی ایک استاد نے بتایا کہ جب وہ واپس آیا تو حملہ آوروں نے اسے گولی ماری۔ انہوں نے اسے بائیں جانب سے نو بار گولیاں ماریں سر سے پاو¿ں تک اور شاید اسے ایک منٹ سانس لینے کا موقع یا یہ سمجھنے کا موقع بھی نہیں ملا ہو گا کہ کیا ہو رہا تھا۔میرے پاس اس کے جوتے ہیں جن میں ا±س کا خون جما ہوا ہے مگر میں ا±س کا خون رائیگاں جاتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتی میں ملک میں تبدیلی چاہتی ہوں۔ میرا 10 سال کا بچہ ہے جو کسی اور سکول میں جاتا ہے۔ اب میں کبھی بھی یہ نہیں سوچ سکتی کہ اسے اس سکول میں داخل کرواو¿ں۔ میں اب بھی آمش کو دوڑتے بھاگتے دیکھتی ہوں جب میں اکیلی ہوتی ہوں مگر میں سوچ نہیں سکتی کیونکہ میں پاگل ہو جاو¿ں گی پھر میں اللہ کے بارے میں سوچتی ہوں اور اسی سے ہمت مانگتی ہوں۔ ہم ساری ماو¿ں کو بڑی سی ہمت چاہئے۔ امید ہے حکومت کو اندازہ ہوا ہو گا کہ کیا ہوا ہے۔ میں امید کرتی ہوں کہ وہ کچھ کریں گے۔ آج کے پاکستان میں ہر ایک اپنے بارے میں سوچتا ہے۔ اگر ہم اس کا حل نہیں نکالیں گے اور ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھیں گے تو ہمارے دشمن ہمیشہ ہمیں آسان ہدف سمجھ کر نشانہ بناتے رہیں گے۔ حکام نے پرنسپل کو سکول کو محفوظ بنانے اور بچوں کی حفاظت کے لئے کہا ہے۔ وہ کیا کر سکتے ہیں؟ کیا وہ بچوں کو سکول میں اپنے آپ کا دفاع بندوقوں سے کرنے کی تربیت دینا شروع کر دیں؟ کیا وہ انھیں الفاظ کے بجائے ٹریگر دبانے کے بارے میں پڑھانا شروع کر دیں؟ میں اپنے بچپن کو یاد کرتی ہوں جب ایسے حالات نہیں تھے۔ میں نے کبھی بم دھماکے نہیں سنے تھے مجھے یاد ہے کہ جب میں تیسری جماعت میں تھی تو ایک دھماکہ ہوا تھا۔ اب تو یہ عام سی بات ہے موت کا تذکرہ بھی معمول کا تذکرہ لگتا ہے۔ ہمارے بچے موت کا تذکرہ ہر وقت کرتے ہیں اور ہمارے پاس ان کو دینے کے لئے کوئی جواب نہیں ہے۔ پشاور کے طالب علم محمد رضوان خان کی والدہ سعیدہ خان کے بطور ایک ماں تاثرات۔ میں اپنے سکول کی پرنسپل کے ساتھ تھی کہ صبح ساڑھے دس بجے کے لگ بھگ انھیں فون پر حملے کے بارے میں کسی نے اطلاع دی تو ان کی گفتگو سن کر میرا دل کانپ کر رہ گیا ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے ہمارے کان صرف سن رہے ہیں اور اس کے جواب میں کچھ بھی کرنے کی سکت جسم میں نہیں رہی۔ لیکن دل کا ایک کونہ پرسکون تھا کہ وہاں زیر تعلیم میرا بیٹا آج گھر پر ہے۔
ماں/ تاثرات