پشاور : آرمی پبلک سکول میں ملا جلا ماحول‘ کئی بچے زخمی حالت میں تھے‘ مردہ قرار دیا جانیوالا احمد نواز توجہ کا مرکز رہا
پشاور (بےورورپورٹ) آرمی پبلک سکول کھلنے کے پہلے دن کئی بچے زخمی حالت میں سکول آئے تھے یہاں غم اور خوشی کا ملاجلا ماحول تھا، سب کی توجہ کا مرکز 15سالہ احمد نواز رہا جو اس حملہ میں اپنے چھوٹے بھائی حارث نوازکی شہادت کے غم اور اپنے گہرے زخموں کے باجود بہت حوصلے سے دوسرے بچوں کو دلاسہ دیتے رہے اس کے باپ کے ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا اور وہ زاروقطار رونے لگا۔ پشاور کی کاروباری و سیاسی شخصیت محمد نواز خان کے دو بیٹے آرمی پبلک سکول اینڈ کالج میں زیر تعلیم تھے جن میں بڑا احمد نواز خان دسویں جماعت جبکہ چھوٹا حارث نواز آٹھویں جماعت کا طالب علم ہے حملہ کے وقت سکول کے آڈیٹوریم ہال میں موجود احمد نواز کو بازوں میں گولی لگنے سے بازوں کی ہڈی چکنا چور ہوگئی تھی، حملہ آور اسے مردہ سمجھ کر چھوڑ گئے وہ تقریباً دو گھنٹے تک وہاں رہا اس نے حملہ آوروں کی کارروائی، اساتذہ اور طلباءکی شہادت کے اندوہناک مناظرکا مشاہدہ کیا بلکہ سکول کے مختلف حصوں کو آگ لگانے کو بھی اپنی آنکھوں سے دیکھا اس کا چھوٹا بھائی حارث نواز سر میں گولی لگنے سے شہید ہوا احمد نواز لیڈی ریڈنگ ہسپتال میں زیر علاج ہے تاہم سکول کھلنے کی خبر سننے پر اپنی شدید زخمی حالت کے باجود اس نے سکول آنے کی ضد کی تھی۔ احمد نواز خان نے کہا کہ وہ اپنے سکول کو دیکھنے اور ساتھیوں سے ملنے یہاں آئے ہیں وہی شدید تکلیف میں ہے لیکن اس کے باوجود یہاں آکر حملہ کرنے والے دہشت گردوں کو یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ نہ تو وہ خوفزدہ ہے اور نہ ہی انہیں خوفزدہ کیا جاسکتا ہے۔بہادر استانی عندلیب آفتاب نے پہلے روز ڈیوٹی پر آتے ہوئے کہا کہ وہ صرف سکول کی ٹیچر ہی نہیں بلکہ ایک شہید کی ماں بھی ہیں اور سکول کا ہر بچہ ان کا بچہ ہے۔ ان کا صاحبزادہ حذیفہ سکول میں دسویں جماعت کا طالب علم تھا اور وہ حملہ کے وقت آڈیٹوریم میں موجود تھا عندلیب آفتاب نے کہا کہ وہ گھر میں بیٹھ کر اپنے بچے کا سوگ منانے کی بجائے سکول آئی ہیں۔ شہید ہونے والی آرمی پبلک سکول اینڈ کالج کی ٹیچر سیدہ فرحت بی بی کے شوہر عابد علی شاہ نے کہا ہے کہ وہ اپنے بیٹوں کو اسی سکول میں پڑھا کر ان کی ماں کے ارمانوں کو پورا کرینگے۔ مجھے اب پتہ چلا ہے کہ بچوں کی دیکھ بھال میں ماں کو کتنے پاپڑ بیلنا پڑتے ہیں۔ فرحت بی بی کے شوہر عابد علی شاہ نے بتایا کہ ان کی اہلیہ سیدہ فرحت بی بی 16دسمبر کو سکول میں اپنے فرض کی راہ میں شہید ہوئی۔ پہلے روز یک ایسی غمزدہ ماں بھی سکول پہنچی جنہیں کئی سال تک روزانہ اپنے بچے کو سکول چھوڑنے کی عادت پڑچکی تھی ورسک روڈ کی رہائشی صدف سردار نے نوائے وقت کو بتایا کہ ان کا 13 سالہ بیٹا باسط علی آرمی پبلک سکول میں نویں جماعت کا طالب علم تھا جو حملہ کے وقت آڈیٹوریم ہال میں موجود تھا، وہاں ہونے والے حملہ میں شہید ہوا انہوں نے زار و قطار روتے ہوئے کہا کہ انہیں اچھی طرح پتہ تھا کہ ان کا بیٹا سکول میں موجود نہیں لیکن وہ سالہا سال عادت کے ہاتھوں مجبور ہو کر یہاں آئی کہ وہ روزانہ اپنے بیٹے کو چھوڑنے آتی تھی صدف سردار نے کہا کہ یہاں اپنے بیٹے کا سکول، ان کا کلاس روم اور کلاس فیلو ز دکو دیکھنے آئی ہےں،یہاں ہرے کوٹ اور گرے ٹراﺅزر میں ملبوس سکول کے ہر بچے میں انہیں اپنے بیٹے کی شکل نظر آئی اور وہ اپنے آنسوﺅں پر قابو نہ رکھ سکی انہوں نے کہ ان کی صرف یہی خواہش ہے کہ معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید کرنے والوں کو سزا ملے۔ میڈیا کی توجہ جن دو طالب علموں پر تھی ان کی والدہ سید فرحت بی بی طالبان کے حملے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ فرحت کے بیٹے سید باقر نے بتایا کہ آج کے دن وہ بہت نروس ہے کیونکہ جہاں وہ جارہے ہیں وہاں ان کے کئی دوستوں کی یادیں بھی ہیں جن کوبھلانا مشکل ہے۔
احمد نواز