• news

افغانستان: داعش کی بھرتی کا انکشاف ، سابق طالبان کمانڈر ملا رئوف نے اطاعت کر لی، لڑائی میں20 ہلاک

کابل (بی بی سی) داعش کی طرف سے افغانستان میں نئے جنگوؤں کو بھرتی کرنے کی ٹھوس شہادتیں پہلی مرتبہ سامنے آئی ہیں۔ہلمند صوبے کے سابق طالبان کمانڈر ملا عبدالرؤف نے داعش کی اطاعت کا اعلان کیا ہے۔سنگین ڈسٹرکٹ کے ایک بزرگ سیدالدین سنگینوال نے بی بی سی کو بتایا کہ نئے گروہ نے طالبان کے سابق جھنڈے اتار کر داعش کے کالے جھنڈے لہرائے ہیں اور اس کے بعد طالبان سے لڑائی بھی کی ہے۔انہوں نے کہا کہ دونوں فریقوں کے 20 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔علاقے میں افغان فوج کے یونٹ کے نائب کمانڈر جنرل محمود نے بھی اس بات کی تصدیق کی ہے کہ کچھ دن پہلے کوئی نیا گروہ تشکیل دئیے جانے کی بھی اطلاع ہے۔انہوں نے کہا کہ وہ داعش کے مقصد کے لئے حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نئی تحریک کے رہنما ایک سابق سینئر طالبان کمانڈر ہیں جن کو امریکی فوجیوں نے 2001ء میں پکڑ کر گوانتاناموبے بھیج دیا تھا جہاں انہوں نے 6سال گزارے۔اطلاعات کے مطابق ان کا طالبان تحریک کے رہنما ملا عمر سے جھگڑا ہو گیا ہے۔رؤف نمروز صوبے کے گورنر امیر محمد کے دور کے رشتہ دار ہیں۔کمانڈرز کہتے ہیں کہ اگر داعش افغانستان میں قدم جما لیتی ہے تو جنگ کی نوعیت بدل جائے گی۔علاقے کے معتبرین نے جو کہ فوج کی طاقت دیکھنے کیمپ میں آئے تھے کہا کہ انہوں نے روسیوں کو آتے اور جاتے دیکھا ہے، اور اب برطانوی اور امریکی فوجیوں کو بھی، لیکن ان کی خواہش ہے کہ داعش یہاں نہ آئے۔اطلاعات ہیں کہ خراسان نامی گروہ وردک صوبے میں جنگجوؤں کو بھرتی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔خراسان افغانستان کا پرانا نام ہے اور کئی مسلمانوں کے لئے اس کی اس لئے بھی افسانوی حیثیت ہے کیونکہ ایک پرانی پیشن گوئی کے مطابق دنیا کے خاتمے سے پہلے خراسان میں ایک مرتبہ پھر کالے جھنڈے لہرائیں گے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ شام کے شہر حلب میں گزشتہ سال ستمبر میں بھی خراسان نامی گروہ کے ٹھکانوں پر فضائی حملے کئے گئے تھے۔اس گروہ کا داعش کے ساتھ اتحاد ہے لیکن یہ واضح نہیں کہ اس کا کوئی تعلق افغانستان کے خراسان سے بھی ہے یا وہ اس کی حمایت حاصل کرنا چاہتا ہے۔لیکن اس سے یہ بات ضرور ظاہر ہوتی ہے کہ افغان جنگ ایک نئے اور متزلزل دور میں قدم رکھ رہی ہے۔اگر ملا عمر کی طاقت کمزور ہو رہی ہے اور داعش ملک میں زور پکڑ رہی ہے تو یہ افغان صدر اشرف غنی کی نئی حکومت کے لئے بھی سب سے بڑا چیلنج ہے جنہوں نے تین ماہ سے زیادہ عہدہ صدارت پر رہنے کے بعد اس ہفتے کابینہ کا اعلان کیا ہے۔

ای پیپر-دی نیشن