”سِیرة النبی کی روشنی اور دو قومی نظریہ؟“
شاعر نے کہا تھا
مرنے جِینے کی ہے جگہ اچھّی
ڈیرے ڈالیں گے کُوئے جاناں میں
مجاہدِ تحریکِ پاکستان محترم مجید نظامی کے بسائے ہُوئے ”ڈیرے“ (ایوان کارکنانِ تحریک پاکستان لاہور) میں مجلسیں سجانے والے جناب مجید نظامی کے دوست (تحریکِ پاکستان کے کارکنان) سابق صدرِ پاکستان جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ ¾ ڈاکٹر کرنل (ر) جمشید احمد خان ترین ¾ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد اور میاں فاروق الطاف اور مرحوم کے مُریدِ خاص سیّد شاہد رشید اور اُن کے ساتھی مُبارک باد کے مُستحق ہیں۔ جنابِ مجید نظامی جب تک حیات رہے سِیرة اُلنبی کانفرنسوں میں خاص دِلچسپی لیتے رہے۔ 13 جنوری کو ایوانِ کارکنانِ تحریکِ پاکستان لاہور میں چیئرمین ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ کی حیثیت سے جنابِ مجید نظامی کے جانشین جسٹس (ر) محمد رفیق تارڑ ¾ پروفیسر ڈاکٹر رفیق احمد ¾ پِیر محمد کبِیر علی گیلانی مجدّدی ¾ میاں فاروق الطاف ¾ پِیر اعجاز احمد ہاشمی ¾ ڈاکٹر طاہر رضا بخاری ¾ علّامہ راغب حسین نعیمی ¾ مولانا عبدالخبیر آزاد ¾ علّامہ نصیر احمد قادری اور سیکرٹری ”نظریہ¿ پاکستان ٹرسٹ“ سیّد شاہد رشید نے ”سِیرة النبی کی روشنی میں قومی یکجہتی کی ضرورت“ کے موضُوع پر اپنی اپنی تقاریر میں سِیرة النبی کی روشنی میں ”عاشقِ رسُول“ جناب مجید نظامی کو بھی یاد کِیا۔ مجھے تقریب میں خاص طور پر مدعُو کئے گئے ¾ جنابِ مجید نظامی کے عقیدت مند اور برطانیہ میں ”نظریہ¿ پاکستان فورم“ کے صدر ¾ گلاسگو کے ”بابائے امن“ ملک غلام ربّانی مجھے بتا رہے تھے کہ کانفرنس کے ”مقر ّرین نے جب بھی جناب مجید نظامی کی یادوں کے چراغ جلائے تو بہت سے حاضرین آب دِیدہ ہو جاتے“ مَیں نے انہیں استاد شرف کا شعر یہ سُنایا کہ
تمہاری بزم کے پروانوں کو جو پائے چراغ
جلو میں ساتھ رہے روشنی دِکھائے چراغ
تو ”بابائے امن“ بھی آب دِیدہ ہو گئے۔ مَیں نے ”نوائے وقت“ میں شائع ہونے والی کانفرنس کی رپورٹ پڑھی تو مجھے کانفرنس کے صدر جناب رفیق تارڑ کی تقریر میں بھی روشنی کی بہت سی جھلکیاں دکھائی دیں۔ جناب ِتارڑ نے کہا کہ ”نبی کریم کی دُنیا میں تشریف آوری استحصال طبقات کے لئے پیغامِ اجل ثابت ہُوا۔ آپ نے اپنی تعلیمات ¾ اخلاق اور کردار سے ایک ایسا اِنقلاب برپا فرما دِیا کہ عرب معاشرے کی کایا پَلٹ گئی۔“ جناب ِتارڑ کے علاوہ بے شمار مسلمان نبی کریم کو ”پیغمبرِ اِنقلاب“ کہتے ہیں۔ ترانہ¿ پاکستان کے خالق جناب حفیظ جالندھری (مرحوم) نے ”پیغمبرِ انقلاب“ کی شان بیان کرتے ہُوئے کہا تھا
”سلام اُس پر کہ جِس کے گھر میں
چاندی تھی نہ سونا تھا
سلام اُس پر کہ
ٹُوٹا بوریا جِس کا بچھونا تھا“
”پیغمبرِ اِنقلاب“ کی اہلیہ¿ محترمہ اُمّ المومنین حضرت خدیجة الکُبریٰ کے پاس اُحد پہاڑ کے برابر سونا تھا اور اُس سے زیادہ چاندی ¾ جِسے آپ ؓ نے اپنے شوہرِ نامدار کی خدمت میں پیش کر دِیا تھا اورحضور پُرنور نے اُس سونے اور چاندی کے بدلے لاتعداد غلاموں اور کنِیزوں کو آزاد کرایا اُن کی شادِیاں کرائیں۔ پھر نبی کریم کے گھر میں سونا اور چاندی کا کیا کام تھا اور اپنے گھر میں ”ٹُوٹا بوریا“ کا رواج بھی خود ”پیغمبرِ اِنقلاب“ کا اپنا انتخاب تھا۔ عرب معاشرے میں سب سے بڑا استحصال تو ”غلامی کی لعنت“ ہی تھی ¾ جِس کے بُت کو ”پیغمبرِ اِنقلاب“ نے اپنی ٹھوکروں سے پاش پاش کر دِیا۔ خانہ¿ کعبہ میں ایستادہ بُتوں کو پاش پاش کرنے کا وقت تو بعد میں آیا تھا۔ صِرف اکیلے جناب حفیظ جالندھری ہی نہیں دُنیا بھر کے کروڑ ہا مسلمان ”سونا اور چاندی کو اپنے گھر میں نہ رکھنے والے“ اور ”ٹُوٹے بوریے“ پر سونے والے رحمتہ للعالمِین پر سلام اور درُود بھیجتے ہیں۔
خلیفہ¿ رسول اوّل حضرت ابوبکر صدیقؓ مدینہ کے عام مزدُور کی آمدن کے برابر تنخواہ لیتے تھے اور آپؓ نے وصِیّت کر دی تھی کہ ”مَیں نے خلیفہ کی حیثیت سے بیت المال سے جو 6 ہزار درہم بطور تنخواہ وصول کئے تھے وہ میری جائیداد فروخت کر کے بیت المال میں جمع کرا دیئے جائیں۔“ خلیفہ¿ رسول دوم حضرت عمر بن الخطابؓ کو بھری مجلس میں اپنے لمبے کُرتے کے کپڑے کا حساب دینا پڑا۔ خلیفہ¿ رسول سوم حضرت عثمانؓ نے اپنے زیادہ تر وسائل عام انسانوں کے لئے وقف کر رکھے تھے اور خلیفہ¿ رسول چہارم حضرت علیؓ نے مُدعا الیہ کی حیثیت سے ¾ اپنے خلاف ¾ ایک یہودی کے جھُوٹے مقدمے میں ¾ قاضی سے استثنا نہیں مانگا تھا اور جب آپؓ عدالت میں پیش ہُوئے تو قاضی نے آپؓ کو کُرسی پیش نہیں کی تھی۔ ہے کوئی ایسا حکمران اور پاکستان میں خلافت قائم کرنے کا دعویدار مولوی جو ¾ اِس طرح کے معیار پر پُورا اُترتا ہو؟
مصوّرِ پاکستان علّامہ اقبالؒ جب وکالت کرتے تھے تو اپنی ضروریات کے مطابق مقدمات رکھتے تھے اور باقی مقدمات اپنے دوستوں سینئر / جونیئر وُکلاءمیں بانٹ دیتے تھے۔ قائدِاعظم پاکستان کے واحد حکمران تھے کہ ”جنہوں نے اپنی ساری جائیداد کا ٹرسٹ بنا کر اُسے قوم کے نام وقف کردِیا تھا۔ جمہوریہ تُرکیہ کے بانی ”اتاتُرک“ غازی مصطفی کمال پاشا نے بھی ایسا ہی کِیا تھا لیکن ”عُلمائے سُو“ نے اسلامی دُنیا کے اُن دونوں قائدین کے خلاف کُفر کے فتوے دے کر اپنے لئے رُسوائی کا سامان پیدا کر لِیا۔ دورِ حاضر میں ملائیشیا کے جناب مہاتِیر محمد ¾ ایران کے سابق صدر جناب محمد احمدی نژاد اور جمہوریہ تُرکِیہ کے صدر جناب طیب اُردگان کے سِوا عالمِ اسلام کے مثالی حکمران کا نام ”چراغِ رُخِ زیبا“ لے کر بھی ڈھونڈنے سے نہیں مِلے گا۔ اگر عالمِ اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ¾ مملکت خدادادِ پاکستان کا بھی کوئی مثالی حکمران ہوتا تو (بعض عُلماءکے بقول) طاغُوتی (شیطانی) طاقتیں شرمندہ ہو جاتیں؟
جن مولوِیوں نے علّامہ اقبال اور قائدِاعظم کے خلاف کُفر کے فتوے دیئے ¾ انہیں پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات میں کبھی بھاری مینڈیٹ نہیں مِلا۔ پھر انہی مولوِیوں کے مدرسوں سے دہشت گرد طالبان پیدا ہُوئے۔ (جوان بھی ہُوئے) اور علامہ اقبال اور قائدِاعظم کے پاکستان میں اپنی مرضی کی شرِیعت کے قیام کے لئے میدان میں اُترے۔ اُن کے خلاف تو پاک فوج نے آپریشن ”ضربِ العضب“ شروع کر رکھا ہے۔ لیکن پاکستان کو بچانے کے لئے اپنی جانیں قُربان کرنے والے پاک فوج کے افسروں اور جوانوں کو ”شہید“ تسلیم نہ کرنے والے دہشت گردوں کے شکل مومناں سرپرستوں کے خلاف آپریشن ”ضرب اُلغضب“ کب شروع ہوگا؟
جناب محمد رفیق تارڑ نے نبی کریم کی تشریف آوری کو عرب کے استحصالی طبقات کے لئے ”پیغامِ اَجل“ قرار دِیا ہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”نبی کریم کی سِیرت کی روشنی میں پاکستان کے استحصالی طبقات کا خاتمہ کون کرے گا اور یہاں ”قومی یک جہتی“ کیسے پیدا ہوگی؟ علّامہ اقبالؒ نے اسلامیانِ ہِند کے لئے دو قومی نظریہ“ پیش کِیا اور قائدِاعظم ”دوقومی نظریہ¿“ کی بنیاد پر ہی پاکستان کا قیام عمل میں لائے۔ اِس وقت بھی پاکستان میں دو قومیں ہیں۔ ایک قوم غُربت کی لکِیر سے نِیچے زِندگی بسر کرنے والے 60 فیصد لوگوں پر مشتمل ہے اور دوسری غُربت کی لکِیر کو اپنے پَیروں تَلے روندنے والے 40 فیصد لوگوں کی قوم سیرة النبی کی روشنی میں سیرة کانفرنس میں ”قومی یک جہتی“ کا چراغ جلانے والے جناب محمد رفیق تارڑ اور ڈاکٹر مجید نظامی(مرحوم) کے دوسرے ساتھیوں اور عقیدت مند مقررین کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان کے موجودہ حالات میں ”دو قومی نظریہ“ کا عِلم کون بُلند کرے گا؟