خدائے محمد کی قسم ہم بھی انہیں نہیں جانتے
دنیا والے رحمت اللعالمین، محسن انسانیت، رسول کریم حضرت محمد کی زندگی سے واقف ہو جائیں۔ آپکی سیرت کا مطالعہ کریں۔ ایک مسلمان کی حیثیت سے نہیں ایک غیرمتعصب انسان کے طور پر دیکھیں وہ کیا شخص تھے۔ انسانوں کو آپ نے کتنی عزت بخشی۔ مکی دور میں آپ نے کتنی تکلیفیں جھیلیں۔ اپنے راستے میں کانٹے اور گندگی بچھانے والی عورت کی بیمار پرسی کو اس کے گھر چلے گئے۔ فتح مکہ کی کوئی مثال دنیا والوں کے پاس نہیں ہے۔ آپ نے اپنے دشمنوں کو معاف کر دیا۔ آپ کے دشمن بھی آپ کے صادق اور امین ہونے کی گواہی دیتے تھے۔ آپ نے اپنے فوجیوں کو تلقین کی کہ کوئی پھل دار، سایہ دار درخت نہیں کاٹنا، بچوں، عورتوں اور بوڑھوں کو قتل نہیں کرنا۔ آپ نے اپنے بہت محبوب اور دوست چچا حضرت حمزہؓ کی شہادت کے بعد ان کا کلیجہ چپانے والی ہندہ کو صرف اتنا کہا کہ میرے سامنے نہ آنا۔ تمہارے وہی حقوق ہیں جو دوسری مسلمان عورتوں کے ہیں۔
پڑھو تو سہی آپ کی زندگی پر نظر ڈالو اور پھر دل سے فیصلہ کرو کہ آپ تو محبت کے لئے سب سے زیادہ اہل ہیں۔ آپ سے پیار کرو کہ ان سے اتنا پیار انسانوں نے کیا جتنا دنیا کے کسی آدمی کے ساتھ بلکہ سب بڑے اور بچے اور اچھے اور سوہنے لوگوں کے ساتھ ملا کر بھی نہیں کیا گیا اور آپ نے بھی جتنی محبت انسانوں کے ساتھ کی کسی نے نہیں کی۔ اس لئے میں بار بار کہتا ہوں کہ صرف اسلامیات نہ پڑھاﺅ، سیرت النبی پڑھاﺅ۔ انہوں نے کس طرح زندگی کی اور زندگی کو کیسی کیسی کشادگی بخشی۔ انہوں نے انسان کے اندر اور باہر کی ساری کشیدگی کو کشادگی میں بدل دیا۔ ایسا انسان آسمان کی بوڑھی نگاہوں نے نہیں دیکھا۔ وہ پیغمبر اسلام ہیں مگر سارے انسانوں کے لئے رحمت ہی رحمت ہیں۔ انہوں نے سادگی اور آسودگی کو قائم کیا۔ ڈیڑھ ہزار برس پہلے ایسی ایسی حکمت اور بھلائی کی باتیں کیں جو آج دنیا والوں کے لئے حیرت اور سرشاری کا باعث ہیں۔
میرے خیال میں سیرت کی کتابیں عام کرنا چاہئے۔ دنیا کی ساری زبانوں میں ان کے تراجم ہونا چاہئیں۔ اتنی کتابیں کسی عظیم اور محبوب شخصیت پر نہیں لکھی گئیں۔ جو آپ کے بارے میں لکھی گئیں۔ انہیں دوبارہ چھاپ کر اور انٹرنیٹ پر منتقل کر کے دنیا والوں کو متوجہ کرنا چاہئے۔ نیلسن منڈیلا ایک عظیم لیڈر کے طور پر سامنے آئے۔ انہوں نے تقریباً تیس برس کی قید کے بعد رہائی پا کے اپنے مخالفوں کو معاف کر دیا۔ منڈیلا نے جیل میں سیرت رسول کا مطالعہ کیا تھا۔ معاف کرنا رسول کریم کی زندگی کا ایک وصف تھا۔ بڑے بڑے لوگوں نے آپ کی تعریف کی ہے۔
ایک مسیحی مائیکل ہارٹ نے ایک عظیم کتاب لکھی ہے۔ ”دی ہنڈرڈ“ (سو بڑے آدمی) جن چند بڑے لوگوں نے زندگی کو بدلا۔ زندگی کو ایک اور زندگی بنایا۔ پہلے نمبر پر حضرت محمد کے لئے لکھا۔ اس سے پہلے کئی دن تک حضرت یسوع مسیح کے لئے مضطرب رہا۔ مگر سیرت رسول کے مطالعے کے بعد ان کی اولیت، اہمیت، اہلیت، محبوبیت اور عالمگیر حیثیت کے بعد پہلے نمبر پر انہیں رکھا۔ فرانسیسی رسالے میں توہین آمیز کارٹون بنانے والے اور چھاپنے والے یہ کتاب ہی پڑھ لیتے تو شاید کبھی یہ حرکت نہ کرتے۔ کوئی بھی حضرت محمد کی زندگی سے واقف ہو جائیں تو ہم سے بڑھ کر ان کے عاشق ہو جائیں۔
بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح کو پاکستان میں کچھ لوگ کہتے ہیں کہ وہ انگریز تھے۔ میں بحث میں پڑے بغیر کہتا ہوں کہ وہ عاشق رسول تھے۔ انہوں نے لندن کے کالج ”لنکن ان“ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا کہ وہاں قانون دانوں کی فہرست میں سب سے پہلے نمبر پر محمد کا نام لکھا ہوا تھا۔ پھر اللہ نے محمدعلی جناح کو سب سے بڑی اسلامی ریاست پاکستان بنانے اور اس کا پہلا آئینی سربراہ بننے کا اعزاز بھی بخشا۔ میں قائداعظم کے پاکستان کو خطہ¿ عشق محمد کہتا ہوں۔
عشق رسول کے حوالے سے پاکستان کے لوگ سب سے زیادہ جذباتی ہیں اور اس کے لئے اپنی جان قربان کرنے کے لئے بھی تیار رہتے ہیں۔ اسلام کے دشمن پاکستان سے ڈرتے ہیں۔ مغرب والے اور بالخصوص بھارت پاکستان سے ڈرتا ہے۔ جب کبھی کہیں توہین رسالت کا شرمناک واقعہ ہوتا ہے تو سب سے زیادہ ردعمل اسلامیان پاکستان کی طرف سے سامنے آتا ہے۔ ہمارے خیال میں عشق رسول ایمان کا حصہ ہے۔ اس کے بغیر آدمی مسلمان نہیں ہو سکتا۔ اور اگر لوگ رسول کریم کو جان لیں تو وہ اس کے بغیر انسان بھی نہیں ہو سکتے۔ جب طائف کے شہر میں دعوت حق کے بعد اوباش نوجوانوں نے آپ کو پتھر مارے تو آپ ایک باغ میں چلے گئے۔ مالی نے دیکھا کہ ایک بے حد خوبصورت اور نرم خو، محبت والے چہرے کا آدمی زخموں سے چور ہے مگر ان کے چہرے پر ایک مسکراہٹ چمک رہی ہے۔ اس نے انگور کے کچھ دانے پلیٹ میں پیش کئے۔ حضور نے پوچھا کہ تم کون ہو۔ اس نے جواب دیا کہ میں مسیحی ہوں۔ حضور نے فرمایا کہ ہاں حضرت مسیح میرے بھائی ہیں۔ یہ جملہ مسیحی لوگوں کے لئے قابل غور ہے۔ آپ نے یہ بھی فرمایا فرشتوں سے کہ تم طائف کے لوگوں کو سزا نہ دو کہ میں رحمت بنا کر بھیجا گیا ہوں اور یہ لوگ مجھے جانتے نہیں ہیں۔ توہین رسالت کرنے والے آج کے ترقی یافتہ اور تہذیب یافتہ ملکوں کے صحافی اور کارٹونسٹ بھی رسول کریم کو نہیں جانتے۔ ورنہ یہ حرکت نہ کرتے۔ اب رسول کریم اس طرح زمین پر نہیں ہیں کہ انہیں اللہ کے عذاب سے بچا سکیں۔ اب وہ عذاب سے نہیں بچ سکیں گے۔ خدائے محمد کی قسم ہم بھی رحمت اللعالمین کو نہیں جانتے۔
روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے انہیں پکارا۔ ان کے خیال میں آزادی اظہار کا یہ مطلب نہیں کہ دوسرے کے مذہبی جذبات کا مذاق اڑایا جائے۔ تم میری ماں کو گالی دو گے تو پھر میرے گھونسے کے منتظر رہو۔ میرے بھائی آغا مسعود شورش نے کہا ہے کہ یہ پوپ اگلے جہان میں کلمہ حق کے لئے رسول کریم کے عاشق اللہ تعالیٰ کی مہربانی اور نوازش کے مستحق ہوں گے اور مسلمان حکام جو مغرب کے غلام بنے ہوئے ہیں برے انجام کے مستحق ہیں۔ کیا انہیں مرنا نہیں ہے۔ وہ رسول کریم کو کیا منہ دکھائیں گے؟ کچھ اظہار ہو جو مسلمان حکمرانوں کو زیبا ہے۔
اختر شیرانی بڑے شاعر تھے۔ انہوں نے ایک گستاخ رسول کو شراب کا گلاس منہ پر دے مارا تھا۔
اختر مجھے پسند ہے دنیا میں اپنی ناکامی
کہ ہر ذلیل یہاں کامیاب ہے ساقی
پاکستان میں عشق رسول کی کیفیتوں کی فراوانی ہے۔ یہاں نعت رسول کے لئے بھی عجب بے قراری اور سرشاری پائی جاتی ہے۔ مجدد نعت حضرت حفیظ تائب نے پاکستان میں نعت گوئی اور نعت خوانی کی روایت کو بڑا فروخ بخشا۔ کرسمس کی طرح اب عالمی طور پر عید میلادالنبی منائی جاتی ہے اور ساری بستیاں عشق رسول کی روشنیوں سے منور ہو جاتی ہیں۔ مسلمان حکمرانوں کو بھی غیرت ایمانی کا ثبوت دینا ہو گا۔
آزادی رائے کو اپے مقاصد کے لئے استعمال کرنے والے پاگل ہو چکے ہیں اور ان کا یوم حشر قریب آ گیا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ مسلمان سارے پیغمبروں یر ایمان رکھتے ہیں۔ مسیحی جو کچھ کر لیں مسلمان کبھی حضرت یسوع مسیح کے لئے پوری عزت کا مظاہرہ کریں گے۔ ایک آدمی نے ایک پروڈیوسر سے کہا کہ میں حضرت یسوع مسیح کی ”سیکس لائف“ پر ایک فلم بنانا چاہتا ہوں تو اسے ایک لبرل پروڈیوسر نے کہا کہ اس فلم کے بعد شاید مسیحی تو تمہیں کچھ نہیں کہیں مگر مسلمان تمہیں عبرتناک سزا دیں گے اور تمہاری فلم جہاں لگے گی وہ سنیما ہاﺅس بھی جلا دیں گے۔
ایک اسرائیلی طالب علم نے ایک ریسرچ پیپر لکھا ہے۔ تم مسلمانوں کے خلاف جو کچھ کر لو۔ وہ سب کچھ برداشت کر لیں گے مگر ان کے پیغمبر حضرت محمدالرسول اللہ کے خلاف کوئی توہین آمیز بات زبان پر لاﺅ گے تو وہ تمہیں کبھی معاف نہیں کریں گے۔
روس کے صدر پیوٹن بھی بڑے درد سے بولے ہیں کہ ہم مذہب کو نہیں مانتے مگر کسی مذہب کے سربراہ کا مذاق اڑانے کی مذمت کرتے ہیں۔ کچھ شرم کرو مغرب میں رہنے والو، عالم مشرق اور عالم اسلام کے ساتھ ایسی نفرت اور نحوست کا مظاہرہ نہ کرو۔ روس کے صدر کا بیان امریکی صدر کے لئے ایک امتحان ہے؟ صدر اوباما کو کبھی اپنے مسلمان ہونے پر فخر تھا۔ اب وہ کس غرور میں ہیں۔ غرور کا انجام ہمیشہ خاک میں مل کر خوار ہوتا ہے۔ حضرت امام خمینی نے سلمان رشدی کو واجب القتل قرار دیا تھا۔ اب اسلامی جمہوریہ ایران کے سربراہ آیت اللہ خامنائی اس معاملے میں خاموش کیوں ہیں؟ آج صدر احمدی نژاد یاد آتا ہے۔ جس کے جوش خطابت سے اقوام متحدہ کے درودیوار لرزتے تھے؟ دیار حجاز کے سربراہ عالم اسلام کے علامتی بادشاہ خادم حرمین شریفین شاہ عبداللہ بیمار ہیں ان کی صحت کاملہ کے لئے دعا کے ساتھ عرض ہے کہ وہ تمام عاشقان رسول کی نمائندگی کریں۔ ایسی بات کریں کہ جس کی گونج فرانس کے شہر پیرس تک سنائی دے۔