• news

لگتا ہے سازش ہوئی: اسحاق ڈار، مجھے علم نہیں: شاہد خاقان، نااہلی ہے معاف نہیں کریں گے: نوازشریف

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی+ نوائے وقت نیوز) وزیراعظم محمد نوازشریف کی زیرصدارت پٹرول کی قلت سے متعلقہنگامی اجلاس کے دو دور ہوئے۔ پہلے اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور دیگر حکام شریک ہوئے اس موقع پر وزیراعظم محمد نوازشریف نے کہا کہ گزشتہ چند روز سے عوام کو پٹرول کے حصول میں جن تکالیف کا سامنا کرنا پڑا ہے اس پر کسی کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ اجلاس کے دوسرے دور میں وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف، وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی اور وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے شرکت کی۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم نے پٹرول کے بحران پر حکام پر شدید برہمی ظاہر کی، وزیر پٹرولیم سمیت دیگر حکام سے بازپرس کی۔ وزارت پٹرولیم نے پٹرول کی قلت کی وجوہات بیان کیں جن میں بتایا گیا کہ پٹرول کی شدید طلب محسوس کرتے ہوئے وزارت اور پی ایس او دونوں نے تیل کی اضافی درآمد کی تجویز دی تھی تاہم مالی وسائل موجود نہیں تھے۔ وزارت پٹرولیم نے بروقت فنڈز کے عدم اجرا کی ذمہ داری وزارت خزانہ پر ڈال دی تاہم وزارت خزانہ نے اس مئوقف کو مسترد کیا اور مئوقف اختیار کیا کہ پٹرول پر سبسڈی نہیں جس کی رقم واجب الادا ہو، پٹرولیم کے ادارے اپنے بلز وصول نہیں کر پاتے اور وزارت خزانہ کو مورد الزام ٹھہرانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ حکومت کے پاس لامحدود وسائل نہیں۔ ذرائع کے مطابق وزیراعظم وزارت پٹرولیم کی وضاحت سے مطمئن نہیں ہوئے۔ وزیراعظم کو عوام کو ریلیف دینے کے اقدامات کے بارے میں بھی بتایا گیا۔ اجلاس میں بتایا گیا کہ 15600ٹن پٹرول ملک بھر میں سپلائی کے لئے لایا گیا ہے۔ آئندہ ماہ سے اضافی پٹرول سپلائی کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وزارت پانی و بجلی لائن لاسز میں کمی کے لئے اقدامات کرے۔ 500بلین روپے کے بقایا جات وصول کرے تاکہ پی ایس او کو رقم مل سکے۔ ذرائع کے مطابق بحران کی مکمل انکوائری کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی گزشتہ روز تین روز سے بحران کی ذمہ داری لینے کے لئے تیار نہیں وہ کہتے رہے ہیں کہ وہ صورتحال کے ذمہ دار نہیں اس لئے استعفیٰ کیوں دیں؟ نجی ٹی وی اور این این آئی کے مطابق اجلاس میں وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے پٹرول کے بحران کا ذمہ دار وزارت خزانہ کو ٹھہرایا اور وزیراعظم کو بتایا کہ وزارت خزانہ کی جانب سے بروقت ادائیگیوں میں تاخیر پر پٹرول کا بحران شدید ہوا۔ وزیراعظم نے وزیر پٹرولیم کے جواب پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اتنا بڑا بحران نااہلی کا ثبوت ہے۔ وزارت پٹرولیم نے بتایا کہ طلب اور رسد میں توازن لانے کے لئے اقدامات کر رہے ہیں۔ بحران پر مکمل قابو پانے کے لئے مزید چند دن لگیں گے۔ وزارت خزانہ نے وزارت پٹرولیم کے الزامات مسترد کرتے ہوئے کہا کہ طلب اور رسد کا فرق جانچنا وزارت خزانہ کا کام نہیں۔ وزیراعظم نے پٹرول کی قلت پر شدید غصے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پٹرول کی صورتحال پر عوام کی مشکلات کا احساس ہے۔ پٹرول کا بحران اس قدر سنگین ہو گیا ہے کہ معافی کی کوئی گنجائش ہی نہیں۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں وزارت پٹرولیم اور وزارت خزانہ بحران کی ذمہ داری ایک دوسرے پر ڈالتے رہے۔ وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہاکہ بحران کی ذمہ دار وزارت خزانہ ہے، وزارت خزانہ کی طرف سے بروقت ادائیگیاں نہیں کی گئیں، جس کی وجہ سے بحران شدت اختیار کر گیا۔ پنجاب اور خیبرپی کے میں پٹرول کی قلت ہے جسے ختم کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں، چند دنوں میں پٹرول کی قلت پر قابو پا لیا جائے گا۔ وزارت خزانہ نے کہا ہے کہ ذمہ دار پٹرولیم کمپنیاں ہیں، بحران سے متعلق سوالات وزیر پٹرولیم سے کئے جائیں۔ وزیراعظم کو بریفنگ دی گئی کہ پٹرول کی رسد میں اضافہ کر دیا گیا، روزانہ اوسطاً 12ہزار ٹن پٹرول کی کھپت ہے۔ وزیراعظم کو فوری ریلیف کے اقدامات سے آگاہ کیا۔ آئندہ مہینوں میں پٹرول کی اضافی سپلائی کو یقینی بنایا جائے گا۔ اجلاس کے دوران وزیراعظم نوازشریف پٹرول بحران پر شدید برہم ہوئے اور اجلاس میں شریک حکام پر برس پڑے۔ وزیراعظم نے وزیر پٹرولیم کو ہدایت کی کہ پٹرول بحران پر عوام کو اعتماد میں لیا جائے۔ دریں اثنا پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر پٹرولیم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ وزیراعظم نے پٹرول کے بحران کے ذمہ داروں کا تعین کرنے کے لئے مشیر پٹرولیم زاہد مظفر کی سربراہی میں تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی ہے، اگر تحقیقاتی کمیٹی انہیں قصور وار ٹھہراتی ہے تو وزیراعظم جو بھی فیصلہ کریں گے قبول کرونگا، عوام سے شرمندہ اور نادم ہیں کہ انہیں تکلیف اٹھانا پڑرہی ہے، پٹرول کے بحران پر قابو پانے کے لئے لاہور، راولپنڈی اور اسلام آباد کو 30فیصد زیادہ سپلائی شروع کردی گئی ہے،لاہور اور کراچی میں تمام سی این جی سٹیشنز کھول دئیے گئے ہیں۔ لاہور میں پی ایس او کے سو فیصد پٹرول پمپ کھلے ہیں راولپنڈی اسلام آباد میں بھی پی ایس او کے پٹرول پمپوں کو سپلائی جاری ہے۔ ملک میں پٹرول کا اوسطاً 15ہزار ٹن یومیہ خرچ ہے جسے مد نظر رکھتے ہوئے سپلائی 15ہزار 6سو ٹن مقرر کردی گئی ہے، لاہور جہاں 8لاکھ ٹن ماہانہ خرچ ہے بڑھا کر سپلائی 10لاکھ کردی گئی ہے، پنڈی میں 4لاکھ ڈیمانڈ کے بجائے 5لاکھ اور اسلام آباد 4لاکھ 25ہزار کے بجائے 6لاکھ کردیا گیا ہے، اس سے امید ہے کہ بحران جلد ختم ہوجائے گا، پریشانی کی ضرورت نہیں سپلائی بحال رہے گی۔ پٹرول کے بحران کا تعلق رقم کی فراہمی سے نہیں، اس کی وجہ پٹرول کی طلب میں کئی گنا اضافہ اور پی ایس او کی شپمنٹ کا 6روز تک لیٹ ہونا، ایک آئل ریفائنری کا 5روز تک بند ہونا ہے۔ یکم جنوری کو پٹرول 40ہزار ٹن فروخت ہوا، اس سے قبل 16ہزار ٹن سے زیادہ پٹرول کبھی فروخت نہ ہوا۔ وزیر اعظم کی زیر صدارت ہونے والے اجلاس میں پی ایس او کے سرکلرڈیٹ کا مسئلہ حل کرنے پر بھی بات ہوئی، ملک میں اضافی سٹوریج تعمیر کرنے کا بھی فیصلہ کیا گیا، آئندہ اس قسم کے بحران سے بچنے کے لئے لائحہ عمل بھی تیار کرنے پر بات چیت ہوئی۔ انہوں نے کہاکہ گزشتہ دنوں پی ایس او نے 48فیصد جبکہ پرائیویٹ کمپنیوں نے 52فیصد پٹرول فروخت کیا۔ انہوں نے کہا پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میںکمی کی وجہ سے جی ایس ٹی میں 1سو 35ارب روپے کی کمی ہوئی، پٹرول کا بحران پیدا کرکے کیا کسی نے حکومت کے خلاف سازش کی، کے سوال کے جواب شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں۔ پٹرول کی قیمت کم ہونے سے خریداری بڑھی ہے اس لئے بحران پیدا ہوا۔ پٹرول کی کمی کا مسئلہ زیادہ طلب کی وجہ سے پیش آیا۔ پٹرول کی مانگ میں اضافے کی وجہ سے ذخائر ختم ہو گئے۔ یکم فروری سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں 5 سے 7 روپے کمی ہو گی۔ پٹرول کی قلت اسی ہفتے ختم ہو جائے گی۔ مستقبل میں ایسی صورتحال پیدا نہ ہو اس کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ پٹرول کی سپلائی میں خدشات نہیں ہونے چاہئیں۔ پنجاب میں سی این جی نہیں تھی اس لئے لوگوں نے پٹرول زیادہ خریدا۔ عوام کو جو پریشانی ہوئی اس پر شرمندہ ہیں۔ پٹرول کی سپلائی اب مکمل طور پر بحال ہو چکی ہے۔ کوشش کی جائے گی کہ مستقبل میں پٹرول کا بحران نہ ہو۔ صارفین زیادہ خریداری نہ کریں، پٹرول کی سپلائی مستحکم رہے گی۔ پاکستان میں پٹرول کی قیمت بھارت سے زیادہ کم ہوئی ہے۔ سیف الرحمٰن کا حکومت کے کسی ادارے کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ وزیراعظم نے مسئلے کا نوٹس لے کر اس کے حل کی ہدایت کی ہے۔ پورے پنجاب میں سی این جی سپلائی کی بحالی ممکن نہیں۔ کوئی مارکیٹنگ کمپنی دیوالیہ نہیں ہوئی۔ پٹرول کی درآمد میں 10 دن لگتے ہیں۔ پارکو ریفائنری بند رہنے سے بھی پٹرول کی سپلائی کم رہی۔ پٹرول کی قیمت میں بے پناہ کمی ہوئی ہے۔ اوگرا کی ذمہ داری ہے کہ سٹاک چیک کرے۔ پہلے کہہ چکا ہوں بحران کا سب سے پہلا ذمہ دار میں ہوں اگر میری کوتاہی ہے تو حاضر ہوں۔ پٹرول کا مسئلہ پنجاب اور خیبر پی کے کچھ علاقوں میں ہے۔ نجی ٹی وی کو انٹرویو میں شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ پٹرول بحران میری کوتاہی ہے تو سزا ملنی چاہئے۔ کراچی میں کچھ عناصر پٹرول کا بحران چاہتے ہیں۔ کراچی سے ایک لٹر پٹرول بھی پنجاب کوفراہم نہیں کیا۔ فرنس آئل کے 2 کنٹینر اگلے ہفتے پہنچ جائیں گے۔ 

اسلام آباد (نمائندہ خصوصی) وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پٹرول کے جاری بحران میں وزارت خزانہ کے کسی قسم کا کردار مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ پی ایس او کا ایک روپیہ بھی وزارت خزانہ کے ذمہ نہیں نہ ہی کوئی کلیم آیا تھا۔ وزارت خزانہ پٹرول کے بحران کی ذمہ دار نہیں۔ مکمل تحقیقات کے بعد ذمہ داروں کا تعین ہو گا۔ وزارت پانی و بجلی کے کلیم ترجیحی بنیادوں پر ادا کئے جاتے ہیں۔ پی ایس او کی انتظامیہ کو ریلیف میری ذمہ داری نہیں۔ سرکاری تحویل میں تو ہزاروں کمپنیاں ہیں۔ کیا یہ ادارہ ’’کیو بلاک‘‘ چلائے گا؟ پٹرول نے خریداری میں وزارت خزانہ کا کوئی کردار نہیں۔ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پٹرول کی قلت کی وجہ بدانتظامی ہے، وزارت خزانہ اس کی ذمہ دار نہیں۔ لگتا ہے کہ پٹرول کے بحران کے ذریعے ہماری حکومت کیخلاف گہری سازش ہوئی ہے اس کا پتہ لگنا چاہئے۔ تیل کی کمپنیوں کو ذخیرہ رکھنا ہوتا ہے جو نہیں رکھا گیا۔ بحران کا رقم کی فراہمی میں کوئی معاملہ نہیں۔ پی ایس او نے وزارت خزانہ سے کوئی رابطہ نہیں کیا۔ ادارہ نے جب درخواست کی ہم نے اس کے ساتھ تعاون کیا۔ تیل کے بحران میں قوم کو اعتماد میں لینا ضروری ہے۔ جن اداروں نے ذمہ داری پوری نہیں کی ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ بحران پر چند روز میں قابو پا لیا جائے گا۔ پی ایس او اور پوری کمپنیاں پٹرول کا کم سے کم ذخیرہ رکھنے کی پابند ہیں۔ ان کمپنیوں کی اس کارکردگی کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔ پٹرول بحران پر کی جانے والی باتیں بے بنیاد ہیں۔ پی ایس او کی نادہندگی کی ذمہ داری وزارت خزانہ پر نہیں ڈالی جا سکتی۔ پٹرول کے بحران میں بدانتظامی ہوئی ہے۔ وزیراعظم معاملہ دیکھ رہے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ وزیر خزانہ تیل کی فروخت یا خریداری کی فنانسنگ نہیں کرتی۔ وزارت خزانہ کے ذمہ پی ایس او کا ایک پیسہ بھی نہیں۔ وزارت خزانہ کو تیل کی درآمد کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر نہیں بتایا جاتا۔ یہ بات غلط ہے کہ ایسی کوئی رپورٹ دی گئی تھی۔ وزارت پانی و بجلی نے کوئی ادائیگی نہیں روکی جو بھی وزارت کے کلیم آتے ہیں ان کو ترجیحی بنیاد پر منظور کیا جاتا ہے۔ وزیراعظم نے بحران کے حوالے سے افراد کی معطلی کرکے عبوری ایکشن لیا ہے۔ تحقیقات کی رپورٹ پر مزید ایکشن لیں گے جس نے بھی پٹرول کا سٹاک نہیں رکھا اس کے خلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ پی ایس او کا انتظام دیکھنا ان کی ذمہ داری نہیں۔ پی ایس او سرکاری کمپنی ہے کیا یہ ادارہ کیو بلاک چلائے گا؟ بجٹ میں 480 بلین روپے کا سرکلر ڈیٹ ادا کیا تھا یہ بیک لاگ تھا اور اس وقت کہہ دیا تھا کہ آئندہ اس طرح سرکلر ڈیٹ ادا نہیں کریں گے۔ پی ایس ڈی پی اور سوشل سیفٹی … بند کر دئیے جائیں اور سرکاری ریٹ دیا جائے۔ اب اگر سرکلر ڈیٹ کا مسئلہ ہو رہا ہے تو اس کا وہ جواب نہیں دے سکتے۔ اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ پی ایس او سمیت تیل کی مارکیٹنگ کمپنیاں مطلوبہ ذخیرہ برقرار رکھنے کی ذمہ دار تھیں، اس معاملے پر نظر نہ رکھنے والوں کیخلاف کارروائی کی جائے گی۔ وزیر پٹرولیم تحقیقات کر رہے ہیں۔ انہوں نے تمام آئل کمپنیوں کا اجلاس بلوایا تھا۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں 60 فیصد تیل مہیا کرتی ہیں۔ اگر ان کے لائسنس میں یہ شرط ہے۔ انہوں نے ایک خاص تعداد میں دنوں کے حساب سے تیل ذخیرہ کرنا ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہونا چاہئے کہ انہوں نے وہ سٹاک کیوں نہیں رکھا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی ایس او کا کوئی پیسہ وزارت خزانہ کے ذمے نہیں اور نہ ہی پی ایس او نے وزارت خزانہ سے رابطہ کیا تھا۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ پی ایس او کی جانب سے ان کی وزارت کو روزانہ رپورٹ دینے کی خبر درست نہیں۔ جاپان کے وزیراعظم کو پاکستان آنے کی دعوت دی ہے۔ جاپان کے وزیراعظم جلد پاکستان کا دورہ کرینگے۔ دورہ جاپان سے دوطرفہ تعلقات میں اضافہ ہوا ہے۔ جاپانی ادارہ لاکھڑا پراجیکٹ پر تعاون کریگا۔ جاپان لاکھڑا پروجیکٹ کے لئے 85کروڑ ڈالر فراہم کریگا۔ اپریل میں موٹر سائیکل پلانٹ کام کرنے لگے گا۔ جاپان کے ساتھ پرانے منصوبے پھر سے شروع کئے جائیں گے۔ جاپان بنک انٹرنیشنل پاکستان کی جانب سے تازہ ترین صورتحال پر مطمئن ہے۔ مئی میں پاکستان جاپان سٹرٹیجک ڈائیلاگ شروع کرنے پر اتفاق ہوا ہے۔ جاپانی کمپنی پاکستان میں توانائی کے شعبے میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتی ہے۔ اعتراف کرتا ہوں کہ بدانتظامی ہوئی۔ پی ایس او کے ساتھ وزارت خزانہ کا کوئی بزنس نہیں۔ جنہوں نے پٹرول کا سٹاک نہیں رکھا ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ وزارت پٹرولیم کا پی ایس او کے ساتھ کوئی بزنس نہیں۔ سب سے پہلی ذمہ داری محکمہ کے سربراہ پر آتی ہے۔ اتوار کو وزارت پانی و بجلی نے کہا 10ملین روپے جاری کئے جائیں ہم نے کر دیئے۔ وزارت خزانہ نے کوئی ایل سی نہیں روکی۔ پٹرول کا ذخیرہ یقینی بنانے کے ذمہ دار ادارے بھی جوابدہ ہیں۔ ابھی یہ طے نہیں ہوا کہ قصور کس کا ہے۔ چار اعلیٰ افسروں کو معطل کرنا عارضی کارروائی ہے۔ پی ایس او نے ادائیگیوں کا کوئی کلیم نہیں کیا۔ جن کمپنیوں نے ایندھن کا ذخیرہ نہیں کیا ان کیخلاف کارروائی ہونی چاہئے۔ تیل کی عالمی قیمتیں 40فیصد کم ہوئیں مگر مطلوبہ ذخیرہ نہیں رکھا گیا۔ امید ہے تین چار روز میں پٹرولیم بحران پر قابو پا لیا جائیگا۔ آئی ڈی پیز کو رقم دینے کیلئے بحران پیدا کرنے کا الزام غلط ہے۔ تیل کے بحران میں عوام کو اعتماد میں رکھنا ضروری ہے۔ تمام وزارتوں کو ڈسپلن میں لانا ضروری ہے۔ آئی ڈی پیز کو دی گئی رقم کا آڈٹ ہو چکا ہے۔ بحران غفلت سے پیدا ہوا ہے، ذمہ داری قبول کرتا ہوں۔ وزیراعظم معاملے پر نظر رکھے ہوئے ہیں، ذمہ داروں کیخلاف ضرور کارروائی ہو گی۔ وزارت خزانہ کی پی ایس او کی ایل سیز روکنے یا بروقت فنڈز ادا نہ کئے جانے کی افواہیں بے بنیاد ہیں۔ میرا پٹرول بحران سے تعلق ہے نہ ہی وزارت پانی و بجلی کے فنڈز روکے۔ پٹرول کا بحران بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ ذمہ دار آئل کمپنیاں ہیں جنہوں نے 20روز کے پٹرول کا سٹرٹیجک سٹاک نہیں رکھا، شپنگ کارپوریشن کے جہاز تیل لینے کیوں نہیں گئے۔
وزیر خزانہ

ای پیپر-دی نیشن