• news

اوباما اپنے دورہ بھارت میں اسکا نوٹس لیں اور عالمی تباہی کا خطرہ ٹالیں

بی جے پی حکومت کی مسلم کش پالیسیوں کا شاخسانہ‘ بہار میں ہندوﺅں نے 25 گھراور تین مسلمان زندہ جلا دیئے

بھارتی ریاست بہار کے ضلع مظفرپور کے علاقے روپ ناتھ میں مسلم کش فسادات کے دوران ہندو بلوائیوں نے تین مسلمانوں کو زندہ جلا دیا۔ بھارتی میڈیا کے مطابق انتہاءپسند ہندوﺅں نے مسلم گاﺅں پر حملہ کرکے 25 گھر بھی جلا دیئے۔ اس واقعہ کے بعد پولیس نے آٹھ ہندوﺅں کو گرفتار کرلیا ہے۔ یہ مسلم کش فسادات ایک لاپتہ ہندو نوجوان کی لاش ملنے کے بعد شروع ہوئے‘ آگ میں جھلسنے والے مزید دو مسلمانوں کی حالت بھی تشویشناک بتائی جاتی ہے۔ ٹائمز آف انڈیا کے مطابق بھارتندو کمار نامی ایک ہندو لڑکے کی جانب سے ایک مسلم لڑکی کو اغواءکرکے لے جانے کے معاملہ پر گزشتہ چار پانچ روز سے کشیدگی جاری تھی کہ بھارتندو کی لاش شفقت علی کے کھیت میں پائی گئی۔ اسکی اطلاع ملتے ہی بھارتندو کے اہل خانہ نے مشتعل ہو کر مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگا دی جس سے بعض لوگ تو زندہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو گئے مگر تین مسلمان زندہ جل گئے اور دو بری طرح جھلس گئے‘ پولیس نے شفقت علی کو بھی گرفتار کرلیا ہے۔ 

بھارت میں جب سے انتہاءپسند بی جے پی اقتدار میں آئی ہے‘ وہاں مسلمان اور دوسری اقلیتوں کا عرصہ حیات تنگ کرتے ہوئے سیکولر ہونے کے دعویدار بھارتی معاشرے کو مکمل طور پر ہندو ریاست میں تبدیل کرنے کی کارروائیاں شروع کردی گئی ہیں جبکہ بھارتی حکمران سیاست دان فخریہ اعلانات کرتے بھی نظر آتے ہیں کہ ہندوستان صرف ہندوﺅں کا ہے اور یہاں دوسرے مذاہب کے لوگوں کی کوئی گنجائش نہیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی تو خود مسلم دشمنی کی علامت ہیں جو بھارتی ریاست گجرات میں اپنی وزارت اعلیٰ کے دوران مسلم کش فسادات میں خود بھی شریک ہوئے جس پر ان کیخلاف مقدمات بھی درج ہوئے۔ بی جے پی کی جانب سے گزشتہ بھارتی انتخابات میں مودی کو وزیراعظم کیلئے نامزد کئے جانے سے انکے سابقہ کردار کی بنیاد پر ہی بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمان اقلیتوں میں عدم تحفظ کی فضا پیدا ہوگئی تھی اور یہ باتیں زبانِ زدعام تھیں کہ مودی کے اقتدار میں آنے کی صورت میں بھارت کا سیکولر چہرہ بگڑ جائیگا۔ بی جے پی نے تو انتخابی مہم کے دوران اپنا منشور ہی پاکستان اور مسلمان دشمنی کی بنیاد پر تیار کیا جس پر انتخابی مہم کے دوران ہی عملی جامہ بھی پہنایا جانے لگا۔ سمجھوتہ ایکسپریس اور دوستی بس پر حملے کئے گئے‘ بھارت جانیوالے پاکستانی کھلاڑیوں اور فنکاروں کا گھیراﺅ کرکے ان کا ناطقہ تنگ کیا گیا اور پاکستان کے ہائی کمیشن آفس پر بھی چڑھائی کی گئی جو اس امر کا واضح پیغام تھا کہ بی جے پی کے اقتدار کے دوران پاکستان بھارت سے کسی خیر کی توقع نہ رکھے۔ بھارتی مسلمان اقلیتیں بھی اسی تناظر میں خوف کا شکار ہوئیں جبکہ مسلمانوں کیخلاف بی جے پی کے انتہاءپسندانہ رویے نے مقبوضہ کشمیر میں ہندو تسلط سے آزادی کی لہر کو بھی تیز کر دیا اور کشمیری لیڈران نے ہر عالمی فورم سے رجوع کرکے مقبوضہ کشمیر میں جاری بھارتی مظالم کے حوالے سے سیکولر بھارت کا اصل چہرہ دکھانا شروع کردیا۔ جب مودی اقتدار میں آئے تو انہوں نے اپنے پارٹی منشور اور طے کردہ حکمت عملی کے عین مطابق پاکستان کے ساتھ سرحدی کشیدگی بڑھانے کے اقدامات شروع کر دیئے۔ کنٹرول لائن اور ورکنگ باﺅنڈری پر پاکستان کی چیک پوسٹوں اور نواحی آبادیوں پر بلااشتعال فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ ہنوز جاری ہے جس میں پاکستان کے سکیورٹی اہلکاروں سمیت درجنوں شہری شہید ہو چکے ہیں جبکہ نواحی آبادیوں کے ہزاروں لوگ اپنے گھر بار اور مال مویشی چھوڑ کر نقل مکانی کرچکے ہیں۔ دو ہفتے قبل تو تمام سفارتی ادب آداب کو بالائے طاق رکھتے ہوئے بھارتی فوجیوں نے فلیگ میٹنگ کیلئے بلائے گئے دو پاکستانی اہلکاروں کو بے دردی سے فائرنگ کرکے شہید کر دیا اور پوری ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس واقعہ کا الزام بھی پاکستان پر عائد کر دیا۔ ”آہنسا“ کے پرچارک مودی نے پاکستان کے ساتھ ہی چھیڑچھاڑ کا سلسلہ شروع نہیں کیا بلکہ حکومتی سرپرستی میں بھارتی اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں کو جبراً ہندو بنانے کی پالیسی پر بھی عملدرآمد شروع کر دیا گیا۔ گزشتہ ماہ دو سو مسلمان گھرانوں اور ایک سو عیسائی گھرانوں کو جبراً ہندو بنانے کی خبریں عالمی میڈیا پر آئیں تو اس پر حقوق انسانی کی عالمی تنظیموں کی جانب سے بھی سخت احتجاج کیا گیا اور اقلیتوں کو جبراً ہندو بنانے کی اس پالیسی کی اقوام متحدہ میں بھی صدائے بازگشت سنی گئی جبکہ بھارت کی جانب سے اس پالیسی کے جواز میں یہ بودی دلیل دی گئی کہ ہندو بنائی جانیوالی اقلیتوں کے لوگ پہلے ہندو ہی تھے اس لئے وہ اپنے دھرم کی جانب واپس لوٹ رہے ہیں۔ اسی طرح مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر کی مسلمان اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جس کے تحت بھارتی آئین کی دفعہ 370 میں ترمیم کرکے ہندوﺅں کو بھی مقبوضہ کشمیر میں متروکہ جائیدادیں خریدنے کا حق دے دیا گیا۔ اس آئینی ترمیم کا بنیادی مقصد زیادہ سے زیادہ ہندوﺅں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کرکے اسکی مسلمان ریاست کی شناخت ختم کرنے کا ہے تاکہ تقسیم ہند کے ایجنڈا کے تحت مسلمان اکثریت کو اپنے مستقبل کا خود فیصلہ کرنے کے حق سے محروم کیا جا سکے۔ بی جے پی حکومت کی اس جابرانہ پالیسی کیخلاف بھی کشمیری عوام کی جانب سے سخت مزاحمت کی جا رہی ہے اور دنیا کو باور کرایا جا رہا ہے کہ بی جے پی نے کشمیری عوام کو محض حق خودارادیت کے محروم کرنے کیلئے وادی¿ کشمیر کی اصل ہیئت تبدیل کررہی ہے۔ بی جے پی کو اپنی اس پالیسی کا خمیازہ مقبوضہ کشمیر کے حالیہ انتخابات میں اپنی شکست کی صورت میں بھگتنا پڑا جبکہ اس کا انتقام مودی سرکار نے مقبوضہ کشمیر میں گورنر راج نافذ کرکے لیا ہے۔
یہی وہ بھارتی پالیسیاں ہیں جو بالخصوص مسلمان اقلیتوں کیخلاف انتہاءپسند ہندوﺅں کے حوصلے بلند کررہی ہے اور وہاں مسلم کش فسادات آئے روز کا معمول بن گئے ہیں۔ بھارتی ریاست بہار میں گزشتہ روز کے مسلم کش فساد کی نوبت بھی ہندوﺅں کے حوصلے بڑھانے والی مودی سرکار کی پالیسی کے باعث آئی ہو گی جبکہ ہندوﺅں کی جانب سے مسلمانوں کے گھروں کو آگ لگانے کے دوران وہاں کی انتظامیہ نے نہ مسلمانوں کو بچانے کیلئے انکی مدد کی اور نہ ہی ہندوﺅں کو اس جنونیت سے روکنے کی کوشش کی۔ مودی سرکار کی پاکستان مخالف پالیسیاں اس انتہاءتک پہنچ چکی ہیں کہ نئی دہلی میں ایک بے بنیاد الزام کے تحت پاکستان انٹرنیشنل ائرلائنز کا نہ صرف دفتر بند کر دیا گیا ہے بلکہ اسکے عملے کے ویزوں کی توسیع سے انکار کرکے اسے فوری طور پر بھارت چھوڑنے کا بھی حکم دے دیا گیا ہے۔ اس سے تو بادی النظر میں یہی محسوس ہو رہا ہے کہ مودی حکومت تمام سفارتی عالمی قوانین اور ادب آداب کے تقاضوں کو بالائے طاق رکھ کر ہر محاذ پر پاکستان پر چڑھائی کرنے کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کی جانب گامزن ہو چکی ہے۔ اس بھارتی پالیسی سے دہشت گردی کے خاتمہ اور مستقل قیام امن کی عالمی کوششیں تو کامیابی سے کیا ہمکنار ہوں‘ الٹا علاقائی اور عالمی امن و سلامتی مزید خطرات میں گھر جائیگی۔ بھارت کے اندر گزشتہ روز کے واقعہ کی بنیاد پر ہندو مسلم فسادات کا سلسلہ بھی شروع ہو سکتا ہے جس کی آنچ علاقے میں دہشت گردی کے خاتمہ کی کوششوں کو سبوتاژ کردیگی جبکہ پاکستان مخالف بھارتی جارحانہ پالیسیاں بالآخر ان دونوں ایٹمی ممالک کو نئی جنگ کی صورت میں ایک دوسرے کے مدمقابل لاکھڑا کریں گی جس میں انسانی تباہی بعیداز قیاس نہیں۔ اس تناظر میں عالمی قیادتوں بالخصوص امریکہ کو سوچنا چاہیے کہ مودی حکومت کی جارحانہ اور انتہاءپسندانہ پالیسیوں سے کہیں ایٹمی جنگ کی شکل میں عالمی تباہی کا اہتمام تو نہیں کیا جارہا۔ امریکی صدر اوباما بھارتی یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کیلئے چند روز بعد دہلی آرہے ہیں جو پہلے ہی بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے چکے ہیں۔ انہیں حالات کی نزاکت اور حقائق کا ادراک کرتے ہوئے اپنے دورہ بھارت کے موقع پر بھارتی سرپرستی کے اعادہ کے بجائے مودی سرکار کو اسکی انتہاءپسندانہ پالیسیوں کے باعث علاقائی اور عالمی امن کو لاحق ہونیوالے خطرات کا احساس دلانا چاہیے اور بھارتی اقلیتوں اور پاکستان کی سلامتی کیخلاف اپنے جارحانہ عزائم سے باز رکھنے کی کوشش کرنی چاہیے ورنہ بی جے پی حکومت تو عالمی تباہی کا کریڈٹ لینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہی۔

ای پیپر-دی نیشن