• news

زنا بالجبر قانون میں مزید ترامیم، ڈی این اے ٹیسٹ لازمی قرار، بل مارچ سے قبل منظور ہو گا

اسلام آباد (آن لائن) زنا بالجبر کے ملزمان کے گھیرا تنگ کرنے کے لئے قانون میں مزید ترمیم کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ لڑکی کی بلوغت اٹھارہ سال کردی گئی۔ سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف نے سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کی زنا بالجبر قانون اور لڑکی کی بلوغت کی عمر بارے ترمیمی بل پر غور شروع کردیا۔ کمیٹی کا اجلاس منگل کے روز سینیٹر کاظم خان کی سربراہی میں پارلیمنٹ ہائوس میں ہوا۔ اجلاس میں سینیٹر فاروق نائیک‘ سینیٹر سیدہ صغریٰ امام ‘ سینیٹر اعتزاز احسن ‘ سینیٹر حاجی عدیل ‘ سینیٹر چوہدری جعفر اقبال‘ سینیٹر ظفر علی شاہ‘ سینیٹر سیف مگسی ‘ سینیٹر سعید غنی اور سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے شرکت کی۔ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ زنا بالجبر میں ملزموں اور لڑکی کا ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا۔ جبکہ واقعہ کا مقدمہ مناسب وقت کے اندر دائر کرنے بارے قانون میں ترمیم کی گئی ہے صغریٰ امام نے قانون شہادت اور مجرمانہ قانون میں ترمیم کا بل پیش کیا تھا جس پر قائمہ کمیٹی نے غور کیا اور تمام ترامیم کو قانونی شکل دینے کا فیصلہ کیا۔ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ یہ ترمیمی بل مارچ سے قبل باقاعدہ قانونی شکل اختیار کرلیں گے۔ مزید برآں آئی این پی کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے قانون و انصاف میں سینیٹر رضا ربانی اور سینیٹر سعید غنی کی طرف سے قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں اقلیتوں اور خواتین کی طرح مزدوروں کیلئے مخصوص نشستیں رکھنے کا بل پیش کردیا گیا، بل میں قومی اسمبلی اور سینٹ میں ایک ایک جبکہ صوبائی اسمبلیوں میں مزدوروں کو نمائندگی دینے کیلئے دو دو نشستیں تجویز کی گئی ہیں تاکہ مزدوروں کو نمائندگی ملے اور وہ اسمبلیوں میں اپنے مسائل بہتر انداز میں حل کروا سکیں۔ بل میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں صرف بلدیاتی نظام میں مزدوروں کی نمائندگی موجود ہے جبکہ 1935 انڈین ایکٹ کے تحت ورکرز کو نمائندگی دی گئی ہے جس پر سینٹ میں قائد ایوان راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ 1973ء کے آئین میں جو نظام موجود ہے، اس پر عملدرآمد ہونا چاہئے اگر یہ بل منظور ہو جائے تو پھر کسان بھی مطالبہ کریں گے کہ ہمیں بھی نمائندگی دی جائے جس سے مسائل کھڑے ہو جائیں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے سینیٹر ظفر علی شاہ نے کہا کہ اگر یہ بل منظور ہوتا ہے تو پھر خواجہ سرائوں کو بھی نمائندگی دینا پڑے گی۔ سینیٹر فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ میڈیا ورکرز کو بھی حق نمائندگی ملنا چاہئے، بل کو موخر کر دیا گیا، منگل کو کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہائوس میں چیئرمین سینیٹر محمد کاظم خان کی زیر صدارت منعقد ہوا۔ اجلاس میں ارکان کمیٹی سمیت متعلقہ حکام نے شرکت کی۔ پیپلز پارٹی کی سینیٹر سیدہ صغریٰ امام کی طرف سے انسداد زنا بالجبرکا بل پیش کیا جس میں کہا کہ موجودہ قانون میں خلاء کو دور کرنے اور ترقی یافتہ ممالک کی طرح ڈی این اے ٹیسٹ کو مقدمہ کا حصہ بنایا جائے، زیادتی کا شکار ہوتی عورت کی شکایات پر ملزم مرد کا ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا جائے۔ خواتین کو کام کرنے کی جگہ پر ہراساں کرنے کا بل سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کیا، جسے آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا، جس میں کہا گیا کہ اس میں ترمیم کر کے مذکورہ بل کو کالجز اور یونیورسٹی کی سطح پر رائج کیا جائے، فرحت اللہ بابر نے کہا کہ ایک یونیورسٹی میں طالبہ کو ہراساں کرنے کے واقعے پر بل پیش کیا تھا۔ سینیٹر حاجی عدیل کی طرف سے علاقائی زبانوں کو بھی قومی زبانوں کا درجہ دینے کے ترمیمی بل پیش کیا اس علاقائی زبانوں کو قومی زبانوں کا درجہ دینے سے ہم آہنگی میں اضافہ ہو گا۔ سینیٹر راجہ ظفر الحق نے کہا کہ 1973ء کے آئین میں تمام معاملات حل ہو چکے ہیں ، ترمیم سے مسائل بڑھیں گے۔ بل کو آئندہ اجلاس تک موخر کر دیا ۔ سینیٹر اعتزاز احسن نے کہا کہ ہندوئوں اور عیسائیوں کی شادیوں کے بارے میں بھی قانون سازی کی اشد ضرورت ہے۔ اجلاس میں کمیٹی کی تجاویز ترمیمی بلوں جن کو موخر کیا گیا ہے آئندہ اجلاس میں شامل کیا جائے گا۔

ای پیپر-دی نیشن