غیرت کے نام پر قتل ناقابل معافی جرم ، عصمت دری پر عمر قید،30 لاکھ جرمانہ
اسلام آباد (صباح نیوز+ آئی این پی) سینٹ کی قائمہ کمیٹی داخلہ نے صغریٰ امام کے غیرت کے نام پر قتل کے بل سمیت موٹر وہیکل ترمیمی بل 2012ء کی متفقہ طور پر منظوری دیدی۔ اس بل کے تحت حادثہ کا ذمہ دار جاں بحق ہونیوالے کے وارث کو 2 لاکھ روپے جبکہ زخمی کو 25 ہزار روپے دیگا۔ سینیٹر طلحہ محمود کی زیرصدارت کمیٹی کے اجلاس میں وزیر داخلہ اور سیکرٹری داخلہ کی عدم شرکت پر برہمی کا اظہار کیا گیا۔ سینیٹر طاہر مشہدی کا کہنا تھا کہ وزراء اپنے اندر جمہوریت پیدا کریں، اجلاس میں شریک نہ ہو کر وزیراعظم کے احکامات اور قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی ہے۔ سینیٹر صغریٰ امام نے غیرت کے نام پر قتل کی روک تھام کا بل 2014ء کمیٹی میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ غیرت کے نام پر قتل کو ناقابل ضمانت جرم قرار دیا جائے۔ ایف آئی آر کا حق اہلخانہ کو نہیں ملنا چاہئے، ارکان نے تجویز دی کہ غیرت کے نام پر قتل کیخلاف مقدمہ سرکار کی مدعیت میں درج ہونا چاہئے۔ مزید برآں آئی این پی کے مطابق سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ امور نے انسداد تشدد بل کی متفقہ طور پر منظوری دے دی ، یہ بل پاکستان پیپلز پارٹی کے سینٹر فرحت اللہ بابر نے گزشتہ سال اگست میں پیش کیا تھا اور اب اسے چیئرمین سینٹ کو دے دیا گیا ہے۔ بل کے متعلق وزارت داخلہ نے کہا ہے کہ بل میں دی گئی سفارشات فائدہ مند ہیںاور اس کے مخالفت نہ کی جائے۔ بدھ کو کمیٹی میں بل کا جواز پیش کرتے ہوئے سینٹر فرحت اللہ بابر نے کہا کہ پاکستان نے تشدد کے خلاف عالمی کنونشن پر 2008ء میں دستخط کئے تھے اور اس کی توثیق 2010ء میں کر دی تھی جس کے لئے اب قانون سازی درکار تھی تاکہ تشدد کی تعریف ہو سکے اور اس کے لئے سزا مقرر کی جا سکے۔ اس بل میں دئیے گئے کچھ امور پاکستان پینل کوڈ میں موجود ہیں لیکن تشدد کی تعریف واضح طور پر اس طرح نہیں کی گئی تھی جیسا کہ اس کنونشن کے آرٹیکل ا میں کی گئی ہے اور نہ ہی تشدد کو ایسا جرم سمجھا گیا ہے جیسا کہ کنونشن آرٹیکل4 میں کہا گیاہے۔ اس لئے اب اس پر پاکستان میں قانون سازی ضروری ہوگئی تھی۔ اس بل میں تشدد کی تعریف کرتے ہوئے کہاگیا ہے کہ تشدد کا مطلب کسی شخص کو اپنی حراست میں رکھ کر جسمانی اور ذہنی تکلیف دینا ہے تاکہ اس سے معلومات حاصل کی جاسکیں یا کسی بات کا اعتراف کرایا جا سکے، یا اسے حراساں کیا جا سکے یا کسی خاتون کے ساتھ دست درازی کی جائے۔ کسی بھی خاتون کو کسی معلومات کے لئے حراست میں نہیں رکھا جا سکتا اور نہ ہی کوئی مرد اسے اپنی حراست میں رکھ سکتا ہے اگر اس نے کوئی جرم کیا ہے تو صرف ایک عورت ہی اسے حراست میں لے سکتی ہے۔ بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ حراست میں موت واقع ہونے یا کسی خاتون کی عصمت دری پر عمر قید اور 30 لاکھ روپے جرمانہ بھی ہوگا۔ تشدد کرنے کے جرم میں پانچ سال اور دس لاکھ روپے جرمانہ کیا جائے گا اور جرمانے کی رقم متاثرہ فرد کو دی جائے گی۔ تشدد کے ذریعے کسی قسم کا بیان عدالت میں ثبوت کے طور پر نہیں پیش کیا جا سکے گا۔ تشدد کے خلاف شکایت ایف آئی میں کی جا سکتی یا سیشن جج کے سامنے۔ یہ شکایت کسی بھی شخص بشمول سرکاری اہلکار کے خلاف کی جا سکتی ہے۔ تشدد کی تحقیقات تشدد کی شکایت کے 14روز کے اندر کرنی ہوگی اور اس کا مقدمہ تین ہفتے کے اندر مکمل کیا جائے گا۔ اس سزا کے خلاف اپیل متعلقہ ہائی کورٹ میں دس روز کے اندر کرنی ہوگی اور اس کا فیصلہ 30 دن میں سنا دیا جائے گا۔ ان سارے جرائم میں سزائیں الگ الگ دی جائیں گی اور تشدد کے مقدمے میں ضمانت نہیں ہو سکے گی۔ بدنیتی سے کی گئی شکایت کی سزا بھی ایک سال قید اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ ہوگی۔ اگر کسی سرکاری اہلکار کے خلاف تشدد کی شکایت ہے تو اس اہلکار کو یا تو معطل کر دیا جائے گا یا اس کا کسی دوسری جگہ تبادلہ کر دیا جائے گا۔ سیشن کورٹس ہی ان جرائم کے مقدمات سن سکیں گے۔ جنگ کی حالت، ایمرجنسی، سیاسی عدم استحکام یا کسی اعلیٰ افسر کا حکم تشدد کے مقدمے میں صفائی کے طور پر پیش نہیں کیا جا سکے گا۔ یہ ایکٹ دیگر تمام قوانین کو رد کرتا ہے اور اس کیلئے وفاقی حکومت رولز بنائے گی۔