• news

بیک وقت 3 طلاقتیں دینا سنتؐ اور جرم ہے، حکومت سزا کے لئے قانون بنائے: اسلامی نظریہ کونسل

اسلام آباد (وقائع نگار خصوصی+ نیوز ایجنسیاں+ نوائے وقت رپورٹ) اسلامی نظریہ کونسل نے بیک وقت 3طلاقیں دینے کے عمل کو قابل سزا جرم قرار دیدیا اور کہا ہے کہ اکٹھی تین طلاقیں دینے والے اور لکھنے والے پر تعزیری سزا جاری کی جا سکتی ہے، اسکا اطلاق ان مسالک پر نہیں ہوگا جن کے ہاں ایک مجلس کی 3 طلاقیں ایک شمار ہوتی ہیں۔ کونسل نے قرار دیا ہے کہ کونسل بچوں کو جسمانی سزا دینے کے حوالے سے قانون کی اصلاح کیلئے نئے بل کا مسودہ تیار کریگی۔ پہلا تیار کیا گیا بل مسترد کردیا گیا۔ اس بات کا اعلان اسلامی نظریہ کونسل کے چیئرمین مولانا محمد خان شیرانی نے اجلاس کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہی۔ مولانا شیرانی نے کہا کہ کونسل کے سامنے آنیوالے مختلف مسائل پر فیصلے کیے ہیں اور بعض کو مزید تحقیق کیلئے موخر کر دیا گیا ہے انہوں نے بتایا کہ قانون انفساخ مسلم ازدواج 1939(2دفعات) کے حوالے سے کونسل نے دفعہ (۲) (۳) میں سزا کی وجہ سے فسخ نکاح کا اختیار حذف قرار دیا ہے۔ اسی طرح میاں بیوی کے درمیان اختلاف کی صورت میں مصالحت کا ر یا ثالث کو مصالحت کرانے کا حق ہے لیکن وہ طلاق نہیں کرا سکتا فسخ نکاح کا اختیار عدالت کے پاس ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ بیک وقت 3طلاقیں دینا قابل سزا جرم ہوگا طلاق دینے کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک ہی طلاق دی جائے گی 3اکٹھی طلاقیں دینا خلاف سنت ہے اور گناہ ہے البتہ اکٹھی 3طلاقیں دینے سے طلاق واقع ہو جائے گی کیونکہ یہ گنا ہ کا عمل ہو گا اسلئے اس پر سزا دی جاسکتی ہے سزا کیا دی جائے اسکا اختیار عدالت کو ہے۔ یہ سزا تین طلاقتیں دینے والے اور اسٹامپ پیپرز پر تین طلاقیں درج کرنے والے دونوں پر لاگو ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ اسلام میں تین طلاقوں کا کوئی تصور ہی نہیں، اس لیے حکومت ایسی قانون سازی کرے جس کے نتیجے میں ایک ہی نشست میں تین طلاقیں دینے کے عمل کو قابل سزا جرم قرار دیا جائے اور اسکی سزا مقرر کردی جائے۔ کونسل کے سامنے ایک مسئلہ یہ بھی تھا کہ کیا خاتون جج حدود مقدمات سن سکتی ہے اس پر کونسل نے سفارش کی ہے کہ خاتون جج جو چالیس سال عمر سے کم نہ ہو پردہ کی پابند ہو وہ حدود سمیت تمام مقدمات سن سکتی ہے اسے مقرر بھی کیا جاسکتا ہے۔ فرقہ وارانہ تشدد کے خاتمے کے لیے ضابطہ اخلاق کا ایشو بھی زیر بحث آیا جوکہ رکن کونسل حافظ طاہر محمود اشرفی کی طر ف سے آیاجس پر ہم نے کچھ نکات اٹھائے ہیں کہ پہلے دیکھنا ہوگا کہ شرعی لحاظ سے مسلم اور غیرمسلموں کے شہری حقوق یکساں ہیں یا ضمنی ہیں ؟ جبکہ قادیانیوں کے حوالے سے بھی غور کرنا ہوگا کہ وہ مرتد ہیں یا غیر مسلم ہیں ؟ جبکہ کلمہ گو مسلمانوں کو کافر کہنے کی شرعی بنیاد کیاہے ؟ اسلئے یہ معاملہ آئندہ اجلاس میں زیر غورآئیگا۔ سنی اتحاد کونسل کی جانب سے دہشت گردی اور جہاد میں فرق کا معاملہ بھی آئندہ اجلاس میں زیر غور آئیگا۔ انہوں نے کہا کہ تعلیمی نصاب میں جنسی تعلیم سے متعلق مواد شامل کیے جانے کے حوالے سے ہم نے طے کیا ہے کہ کتابوں کا جائزہ لیا جائے گا۔ اسی طرح سے کونسل کے پاس ایک مسئلہ آیا تھا کہ 14اگست کی طرح 27رمضان المبارک کو بھی یوم آزادی پاکستان کے طور پر منایا جائے اور چھٹی کی جائے جس پر کونسل نے 14اگست کو ہی یوم آزادی کے طور پر منانے کی تجویز دی ہے جبکہ یوم سیاہ کے موقع پر چھٹی کی ضرورت نہیں ہے عیسائیوں اور ہندئووں کی شادی و طلاق کے ترمیمی بل کے حوالے سے کہا ہے کہ ان بلوں کے آخر میں یہ شامل کر دیا جائے کہ فریقین میں سے اگر کوئی فریق کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرے تو اس پر قانون کا اطلاق نہیں ہوتا۔ مولانا شیرانی نے وضاحت کی کہ ایک طلاق کے بعد رجوع کافی ہوگا جبکہ 2 طلاقوں پر دوبارہ نکاح کرنا ضروری ہوگا۔ انہوں نے کہا بیک وقت 3 طلاقیں دینے پر شوہر کو سزا ہوسکتی ہے۔

ای پیپر-دی نیشن