• news

President Roohani -"The Soul Of Honour!"

20 جنوری کو برادر مُلک اسلامیہ جمہوریہ ایران میں آلُودگی کو کم کرنے کے لئے "National Clean Air Day" منایا گیا اِس دِن کو منانے کا مقصد ایران کی سڑکوں پر دوڑتی یا رِینگتی ہُوئی گاڑیوں کی تعداد کو کم کرنا تھا۔ نیشنل کلین ائر ڈے منانے میں ایران کے صدر  جناب حسن رُوحانی پیش پیش رہے ۔ انہوں نے ایران  میں مصروف اوقات کے دوران ٗ وزیرخارجہ ایران جناب جواد ظریف اور اپنی کابینہ کے بعض دوسرے ارکان کو ساتھ لے کر اور عام لوگوں کے ساتھ ٹرین میںسفر کِیا۔ خبر کے مطابق  ’’ایرانی شہری اپنے مُنتخب صدر کو اپنے قریب دیکھ کر حیران اور بہت خُوش ہوئے‘‘۔ مِرزا غالبؔ بھی اپنے ’’مہمان عزیز‘‘ کی اپنے گھر میں آمد پر اِسی طرح خُوش ہُوئے تھے ٗ جب انہوں نے کہا تھا کہ…؎
’’وہ آئیں گھر میں ہمارے خُدا کی قُدرت ہے
کبھی ہم اُن کو‘ کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں‘‘
ایران میں ہوائی آلُودگی کے خاتمے یا اُسے کم کرنے کی مُہم میں اپنے صدر اور اُن کی کابینہ کے ارکان کے ساتھ ٹرین میں سفر کرتے وقت عام لوگوں کے دِلوں کی بھی آلُودگی بھی دُور ہو گئی ہوگی اور شاید اُنہیں رُوحانی طور پر بھی کوئی فائدہ پہنچا ہو۔ مرحومہ شاعرہ پروینؔ شاکر نے کہا تھا کہ… ؎
’’اُس نے جلتی ہُوئی پیشانی پہ  جب ہاتھ رکھا
رُوح تک آ گئی تاثِیر مسیحائی کی‘‘
جناب حسن رُوحانی کا اپنے لوگوں کے ساتھ اور عام ٹرین میں سفر ظاہر کرتا ہے کہ ایران میں ’’اپنی مرضی کی شریعت نافذ کرنے  کے لئے معصوم اور بے گناہ لوگوں کا قتل کرنے والے اور اُن کے ’’سہولت کار‘‘ نہیں ہیں اور نہ ہی ہمارے پیارے پاکستان کی طرح مسجدوں اور مدرسوں پر قابض اُن کے سرپرست صدر حسن رُوحانی ایران کی اڑھائی ہزار سالہ بادشاہت کے خلاف‘ جناب آیت اُللہ رُوح اُللہ خمینی  کی قیادت میں ایرانی اِنقلاب میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ نومبر1977 ء میںتہران کی جامع مسجد میں جناب آیت اُللہ رُوح اُللہ خمینی  کے بڑے بیٹے جناب مصطفی خمینی کی تعزیتی تقریب میں جناب حسن رُوحانی نے محترم آیت اُللہ رُوح اُللہ خمینی کو پہلی مرتبہ ’’امام خمینی‘‘ کہہ کر پکارا تھا۔ اُس کے بعد قائدِ اِنقلابِ ایران کا نام مختصر نام ’’امام خمینی‘‘ ہی پڑ گیا۔ یہ محض اِتفاق ہے کہ جناب حسن رُوحانی نے 4 اگست 2013ء کو اسلامیہ جمہوریہ ایران کے صدر کا منصب سنبھالا تھا اور 5 اگست 2013 ء کو گلاسگو (سکاٹ لینڈ) سے برطانوی داراُلعوام کے مسلسل 12 سال تک مُنتخب رُکن اور 35 سال تک برطانیہ میں رہ کر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر وطن واپس لوٹنے والے چودھری محمد سرور نے گورنر پنجاب کے عہدے کا حلف اُٹھایا تھا ۔
مَیں ستمبر 2013 ء میں برطانیہ کے دورے پر گیا تو اکتوبر کے پہلے ہفتے میں گلاسگو میں ’’بابائے امن‘‘ ملک غلام ربّانی کا مہمان تھا۔ گورنر چودھری محمد سرور نے مجھے اور لندن میں مقیم میرے بیٹے سالسٹر اِنتصار علی چوہان کو گلاسگو میں اپنے گھر ناشتے پر مدعُو کِیا ’’بابائے امن‘‘ ہمیں اُن کے گھر لے گئے۔ چودھری صاحب ہمیں ڈائننگ ہال کے بجائے کچن میں لے گئے ٗ جہاں ایک میز اور صِرف 4 کُرسیاں  رکھی تھیں۔ گورنر سرور سمیت ’’بابائے امن‘‘ میں اور اِنتصار علی چوہان مہمان اور بیگم پروین چودھری سرور ہماری میزبان تھیں۔ دورانِ گُفتگُو اسلامیہ جمہوریہ ایران کے نومُنتخب صدر جناب حسن رُوحانی کا ذِکر بھی ہُوا تو مَیں نے گورنر چودھری محمد سرور سے پُوچھا کہ جناب حسن رُوحانی نے 1995ء میں Glasgow Caledolian University سے قانون میں پی  ایچ ڈی کی ڈِگری حاصل کی تھی۔ کیا آپ اُن دِنوں اُن سے ملے ہیں؟ تو چودھری صاحب نے کہا کہ ’’جی نہیں! مَیں اُن سے کبھی نہیں مِلا لیکن سکاٹ لینڈ کے لوگ چونکہ برادر مُلک ایران سے بہت محبت کرتے ہیں‘ اِس لئے اُنہیں ایران کی ہر عام شخصیت سے محبت اور دِلچسپی ہے اور جب محترم صدر حسن رُوحانی کے حوالے سے یہ بات منظرِ عام پر آئی کہ وہ گلاسگو کی ایک یونیورسٹی سے ۔پی ۔ ایچ ۔ ڈی ۔ کی ایک ڈِگری حاصل کی  تھی تویہاں خوشی ایک لہر دوڑ گئی اور جِس طرح سکاٹ لینڈ کے لوگ مجھے اب بھی پاکستان میں اپناگورنر سمجھتے ہیں ٗ اُسی طرح وہ جناب حسن رُوحانی کو بھی ایران میں اپنا ہی صدر سمجھتے ہیں‘‘۔
مَیں نے ’’بابائے امن‘‘ سے پوچھا کہ آپ تو اسلامی دُنیا کی اہم شخصیات کے اعزاز میں تقریبات کا انعقاد کرتے رہتے ہیں‘ کیا آپ نے جناب حسن رُوحانی کے صدر مُنتخب ہونے پر کسی تقریب کا اہتمام کِیا تھا؟ تو اُنہوں نے کہا کہ ’’جی نہیں! فی اِلحال تو نہیں ہم چونکہ مسلمان ہیں اِس لئے ہم مغربی دوستوں کی طرح صدر حسن رُوحانی صاحب کی کامیابی کے لئے اُن کا ’’جامِ صحت‘‘ تو تجویز نہیں کر سکتے۔ پھر ’’بابائے امن‘‘ نے مُسکراتے ہُوئے کہا کہ آئیے! ہم اُن کی کامیابی کے لئے دُعا کرتے ہُوئے ناشتے میں ایک کیک "Toast" ضرور نوشِ جاں کرتے ہیں‘‘۔ پھر ہم سب نے صدر اسلامیہ جمہوریہ ایران کی کامیابی اور درازیٔ صحت کے لئے دُعا مانگی۔
’’رُوح اُللہ‘‘ حضرت عیسیٰؑ کو کہا جاتا ہے اور ’’رُوح اُللہ‘‘ امام خمینی کے نام کا حِصّہ ہے جنہوں نے اپنی ولولہ انگیز قیادت سے ایران کے عوام کے دِلوں کو جمہوریت کی رُوح سے روشن کِیا اور خِطے میں امریکی ایجنٹ شہنشاہ محمد رضا شاہ پہلوی کی حکومت کا خاتمہ کر کے اُسے جلاوطن ہونے پر مجبور کر دِیا اور اُسے ایران کی سر زمین پر دفن ہونے کے لئے 2 گز زمین بھی نہیں مِل سکی۔ ہِندوستان کے آخر مُغل بادشاہ بہادر شاہ ظفرؔ کی طرح جِس نے ہِندوستان سے جلا وطن ہو کر رنگون میں دفن ہونے سے پہلے ہی کہہ دِیا تھاکہ… ؎
’’کِتنا ہے بدنصیب ظفرؔ  دفن کے لئے
دو گز زمین بھی نہ مِلی‘ کُوئے یار میں‘‘
پاکستان کے پہلے مُنتخب صدر میجر جنرل (ر) سکندر مِرزا جس نے پاکستان میں جمہوری حکومت ختم کرکے مارشل لاء نافذ کِیا تھا ٗ اُسے 20 دِن بعد لندن جلا وطن کردِیا گیا تھا۔ وہ ایران کے شہر ’’مشہد‘‘ میں دفن ہے اور اُس کی قبر پر شاید ہی کوئی فاتحہ پڑھنے یا پھُول چڑھانے جاتا ہو!۔ مجھے نہیں معلوم کہ ایران میں صدر مملکت سے لے کر حکومت کی لِسٹ میں شامل ’’اہم شخصیات‘‘ کی سکیورٹی پر قومی خزانے سے کتنی رقم خرچ ہوتی ہو گی لیکن ہمارے پیارے پاکستان میں تو صدرِ ممنون حسین اور وزیراعظم نواز شریف سے لے کر وفاقی وزراء اور وزرائے مملکت‘ چاروں صوبوں کے گورنرز‘ وزرائے اعلیٰ‘ صوبائی وزراء اور اُن کے اہل و عیال تک کی سکیورٹی پر تو ہمارے قومی و دفاعی بجٹ کے برابر رقم خرچ ہو جاتی ہے۔ دُنیا دار حکمران اور سیاستدان تو خیر ہر وقت اپنی اپنی موت کے خوف میں مُبتلا رہتے ہیں لیکن عُلماء اور مذہبی جماعتوں کے قائدین جو سیدھے سادے مسلمانوں کو بتاتے رہتے ہیں کہ ’’موت مقرّرہ اور معیّنہ وقت سے پہلے نہیں آسکتی وہ بھی حکومت سے بُلٹ پرُوف گاڑیاں اور "Fool Proof Security"   طلب کرتے ہیں جِس پر ’’Fools‘‘ بھی قہقہے مار کر ہنستے ہیں۔
 20 جنوری کو جناب صدر حسن رُوحانی کے ٹرین پر سفر کی خبر آئی اور 20 جنوری کو ہی صوبہ خیبر پختونخوا کے گورنر سردار مہتاب خان کے سکیورٹی اور بغیر پروٹوکول گورنر ہائوس سے پیدل چل کر سانحہ پشاور کے شہداء کی تقریب میں شرکت کے لئے صحیح و سلامت وزیر ِاعلیٰ ہائوس پہنچ گئے۔ مَیں نے یہ خبر پڑھی تو مجھے تو سردار مہتاب خان بھی عارضی طور پر ’’رُوحانی‘‘ ہی لگے۔ اسلامیہ جمہوریہ ایران تیل کی دولت سے مالا مال ہے۔ کہا جاتا ہے کہ پاکستان کے زیرِ زمین بھی تیل موجود ہے۔اصل مسئلہ وسائل کا نہیں ہے بلکہ جرأت مندانہ اور مخلص قیادت کا ہے جِس کا اللہ تعالیٰ پر ایمان اور اُس کے دِل میں عوام کی خدمت کا جذبہ ہو۔ پاکستانی قوم بھی اُس دِن کی منتظر ہے کہ جب پاکستان کے حکمران بھی عام لوگوں میں گُھل مِل کر رہیں اور اُس کے ساتھ چلتے پھرتے نظر آئیں۔صدر حسن رُوحانی جیسے اصحاب کو دیکھ کر اہلِ عرب خوشی سے کہتے ہیں کہ ’’رُوحی فِدا کَ‘‘  (یعنی میری رُوح تجھ پر فِدا ہو) اور انگریزی میں ’’The Soul Of Honour‘‘ میرے خیال میں صدر حسن رُوحانی کے لئے یہ دونوں تراکیب استعمال کی جا سکتی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن