ایوانِ اقبال میں مولانا فضل اُلرحمن؟
پاکستان کے تمام شہریوں کو” پاکستانیت“ کی شناخت کے سرٹیفکیٹس جاری کرنے والے ادارے ”National Database Authority “ ( نادرا) کہا جاتا ہے۔ سینیٹ آف پاکستان کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کمیٹی کے چیئرمین سینیٹر طلحہ محمود نے بتایا ہے کہ ”نادرا“ نے 20 لاکھ سے زیادہ غیر مُلکیوں (بشمول افغان مہاجرین) کو پاکستانی شہریت دے دی ہے“۔ میرے خیال میں سینیٹر طلحہ محمود کے اِس بیان کو مختلف اوقات میں ”نادرا“ کے چیئرمین کی کُرسی پر فائز افسران کا ” کمالِ فن“ سمجھنا چاہئے۔ اِس خبر میں ایک خیر کا پہلُو بھی ہے اور وہ یہ کہ بیشک قیامِ پاکستان کے 67 سال اور 5 ماہ بعد ہی سہی ¾ ہمارے مُلک میں1947ءمیں تحریکِ پاکستان کے دَوران سِکھّوں اور ہِندُو مہاسبھائی غُنڈوں کے ہاتھوں شہید ہونے والے اپنے 20 لاکھ مسلمان بزرگوں اور بھائی¾ بہنوں کی کمی پُوری ہو گئی ہے۔ اب ”امن کی آشا دیوی“ کی پُوجا کرنے کے لئے (مجاہدِ تحریکِ پاکستان ڈاکٹر مجید نظامی کے بقول ) ”بھارت کے شردھالوﺅں“ کے لئے راستہ مزید صاف ہو گیا ہے۔ اب ہمیں اپنے 20 لاکھ شہیدوں کا غم بھُول جانا چاہئے۔
”کاروبار کِیا تو ڈرنا کِیا؟“
مُغل بادشاہ اکبر کی ایک درباری رقاصہ کا نام ”نادرہ“ تھا ¾ جِسے عُرفِ عام میں ”نادرا“ ہی کہتے ہیں۔ ایک دِن نادرا کے رقص پر خُوش ہو کر اکبر نے اُسے ”انارکلی“ کا خطاب دِیا تھا۔ اُس وقت تک اکبر کو یہ راز معلوم نہیں ہُوا تھا کہ ولی عہدِ سلطنت ¾ شہزادہ سلیم (مُستقبل کے بادشاہ جہانگیر) کے ساتھ نادرا کا عِشق کا چکّر چل رہا ہے۔ شہزادہ سلیم کو نادرا کی زُلفِ گِرہ گِیر سے مستقل طور پر آزاد کرانے کے لئے اکبر نے نادرا ( انارکلی) کو زِندہ دیوار میں چُنوا دِیا۔ انارکلی کی قبر (جِسے بعض لوگ مزار بھی کہتے ہیں) پنجاب سیکرٹریٹ لاہور کی عمارت کے اندر ہے اور اُس کے نام سے 2 بازار ”پُرانی انارکلی اور نئی انارکلی“۔ اب بھی رواں دواں ہیں۔ جن لوگوں نے مدھو بالا نادرا (انارکلی) اور دلیپ کُمار (شہزادہ سلیم) کی بھارتی فِلم ”مُغلِ اعظم“ دیکھی ہے انہوں نے دربارِ اکبری میں رقص کرتی ہُوئی ” نادرا“ پر فلمایا گیا وہ گانا بھی سُنا ہوگا جِس کا ٹِیپ کا مصرع ہے
”جب پیار کِیا تو ڈرنا کیا“
نادرا کا صِرف ایک ہی عاشق تھا لیکن ہماری ”مسمّاة نادرا“ نے اپنے 20 لاکھ غیر مُلکی عاشقوں کو بھُگتا دِیا۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِس نے دِن میں بھی ”بتّی بال کے بنیرے اُتّے “ رکھی ہُوئی تھی اور باہر لِکھوا رکھا تھا کہ
”کُنڈی نہ کھڑکا ¾ سوہنیا سِدّھا اندر آ“
غیر مُلکیوں کو پاکستانی شہریت دے کر ”مسمّاة نادرا“ نے ثابت کر دِیا ہے کہ موصُوفہ بہت ہی نڈر اور بے خوف ہے اور اگر وفاقی وزارتِ اطلاعات و نشریات اور ثقافت وغیرہ اِس کے سرعام رقص پر کوئی گانا فلمانا چاہے تو اُس کا ٹِیپ کا مِصرع ہوگا۔
”کاروبار کِیا تو ڈرنا کیا؟“
”بلاول بھٹو مسلم لیگ میں؟“
سِندھ کے سابق وزیرِاعلیٰ ارباب غلام رحیم نے کہا ہے کہ ”پِیر صاحب پگاڑا دوم (مرحوم) کی پیش گوئی کے مطابق چیئرمین پاکستان پیپلز پارٹی بلاول بھٹو ¾ بہت جلد مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں گے“۔ یہ درُست ہے کہ بلاول زرداری کی اوائل عُمری میں ہی پِیر صاحب پگاڑا (مرحوم) نے کہا تھا کہ ”بلاول پیدائشی مسلم لیگی“ ہے اور وہ بڑا ہو کر مسلم لیگ میں شامل ہو جائے گا“۔ مسلم لیگ سے مراد پِیر صاحب کی ”پاکستان فنکشنل مسلم لیگ“ تھی۔ چیئرمین بلاول کا فنکشنل مسلم لیگ یا کسی دوسری مسلم لیگ میں شامل ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہوگی کیونکہ موصُوف کے نانا سائیں جناب ذوالفقار علی بھٹو کنونشن مسلم لیگ کے مرکزی سیکرٹری جنرل رہے تھے۔
اُن دِنوں بھٹو صاحب نے صدر کنونشن مسلم لیگ ایوب خان کو تجویز پیش کی تھی کہ ”پاکستان کے ہر ضلع کے ڈپٹی کمشنر کو کنونشن مسلم لیگ کا ضلعی صدر اور سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کو سیکرٹری جنرل نامزد کر دِیا جائے“ لیکن صدر ایوب خان نے جنابِ بھٹو کی اِس تجویز کو مسترد کر دِیا۔ چیئرمین بلاول فی اِلحال لندن میں ہیں اور اَنکل الطاف حسین کا ”لندن میں جِینا حرام“ کئے بغیر واپس نہیں آئیں گے اور اُس وقت تک تو اُن کا مسلم لیگ میں شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ چیئرمین بلاول نے اپنے بابا سائیںکو ”سائنسی سیاست دان “ کا خطاب دِیا تھا۔ اِس لحاظ سے اگر سائنسی سیاستدان کی سائنس کام آ گئی یا اُن کے پِیر و مُرشد پِیر اعجاز احمد نے کوئی کرامت دکھا دی تو ممکن ہے پِیر صاحب پگاڑا مرحوم کی پیش گوئی پُوری نہ ہو سکے!۔
”توقِیر صادق کی خدمات حاصل کرلیں!“
حکومتی ماہرینِ سیاست و امورِ اقتصادِیات کے مطابق ”وطنِ عزیز میں پٹرول کے بحران کا ذمہ دار ”اوگرا“ (Oil And Gas Regulatory Authority ) ہے“۔ چنانچہ اوگرا کے چیئرمین سعید احمد خان کے خلاف کارروائی کی کرنے کا اعلان کر دِیا گیا ہے“۔ خان صاحب نے اِس الزام کو غلط قرار دِیا ہے۔ میری تجویز ہے کہ کیوں نہ پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکرٹری جنرل جناب جہانگیر بدر کے برادرِ نسبتی اور اوگرا کے سابق چیئرمین جناب توقِیر صادق کو ”قوم و مُلک کی خدمت“ کا ایک اور موقع دِیا جائے۔ کیونکہ جنابِ توقِیر صادق کے دَور میں پاکستان میں پٹرول کا بحران نہیں تھا۔ بیشک جناب توقِیر صادق قومی خزانے کا 82 ارب روپیہ غبن کرکے مُلک سے فرار ہو گئے تھے۔ اُنہیں گرفتار کے لایا گیا اور اب وہ ضمانت پر رہا ہیں۔ پیپلز پارٹی کے کئی قائدِین پر بھی کرپشن کے الزامات ہیں ۔اُن کی مشکل جناب قمر لدھیانوی نے حل کردی تھی جب کہا کہ
”اِک تیرا قمر شہر میں بدنام نہیں ہے!
کِس کِس پہ یہاں عِشق کا اِلزام نہیں ہے؟“
میرا مخلصانہ مشورہ ہے کہ جناب توقِیر صادق کو دوبارہ آزما لِیا جائے اور فارسی کی اِس ضرب اُلمِثل کو نظرانداز کردِیا جائے۔ ” آزمُودہ را ¾ آزمُودن جِہل است“ (یعنی آزمائے ہُوئے کو آزمانا جہالت ہے)۔
ایوانِ اقبال میں مولانا فضل اُلرحمن؟
ایوانِ اقبال لاہور میں مولانا فضل اُلرحمن کی دعوت پر منعقدہ مذہبی جماعتوں کا ”قومی سیمینار“ اور اُس میں مولانا صاحب کی تقریر خُوب رہی۔ اُن کی تقریر کے خاص خاص نکات یہ ہیں۔1۔ سیکولر لابی فوج اور مولویوں کو لڑانا چاہتی ہے 2 ۔ ہمارے گلے میں کلاشنکوف لٹکانے والوں نے ہمیں اکیلا چھوڑ دِیا ہے 3۔ دینی مدارس سے اُن کے کوائف مانگ کر انہیں ہراساں کِیا جا رہا ہے 4۔ گر مدارس کے ساتھ کئے گئے معاہدوں کی خلاف ورزی کی گئی تو ہم مدارس بند کردیں گے اور جیلیں بھر دیں گے“۔ بِلاشُبہ مولانا فضل اُلرحمن ایک مذہبی لِیڈر ہیں لیکن حکومت کے اتحادی ہوتے ہُوئے اُن کی جُرا¿ت کو ”جُرا¿ت رندانہ“ ہی کہا جائے گا۔ مختلف نیوز چینلوں پر دکھائی اور سُنائی گئی اُن کی تقریر سے مولانا فضل اُلرحمن ”حقیقی اپوزیشن لیڈر“ کا رُوپ تھے۔ مطالبات پُورے نہ ہونے کی صُورت میں مدرسے بند کر کے جیلیں بھرنے کا الٹی میٹم ”Ultimatum“ دینے کے ساتھ اگر مولانا صاحب کشمیر کمیٹی کی چیئرمین شپ مولانا محمد خان شیرانی کے اسلامی نظریاتی کونسل کی چیئرمین شِپ اور اپنے وفاقی وزیروں جناب محمد اکرم دُرانی اور مولانا عبداُلغفور حیدری کے استعفوں کا اعلان بھی کر دیتے تو کم از کم لاہور میں اُن کی ”بلّے بلّے“ ہو جاتی۔ کیا مولانا فضل اُلرحمن اپنے رفقاءکے ساتھ بُلٹ پرُوف جھنڈے والی گاڑیوں میں جائیں گے ؟ایسی صُورت میں تو اس صُورت میں تو ہر صوبے کا آئی جی جیل خانہ جات اور اُس کا ماتحت عملہ مہمانوں کی خاطر تواضع میںمصروف ہو جائے گا۔
31 مارچ 2013 ءکو مولانا فضل اُلرحمن نے (جے یُو آئی کی انتخابی مہم کے دَوران) پہلی پار لاہور کے علّامہ اقبال پارک میں مِینارپاکستان کے زیرسایہ اپنی ”اسلام زِندہ باد کانفرنس“ سے خطاب کرتے ہُوئے کہا تھا کہ ”مَیں پاکستان کے عوام کو یہ یاد دلانے آیا ہُوں کہ 23 مارچ 1940ءکو اِس جگہ اسلام کے نام پر پاکستان بنانے کی قرار داد منظور کی گئی تھی“ ”نوائے وقت“ کے رپورٹر نے یہ خبر دی تھی کہ ”مولانا صاحب نے قائدِاعظم کو بھی یاد کِیا تھا۔ کاش ایوانِ اقبال میں خطاب کرتے ہُوئے مولانا فضل اُلرحمن اپنی تقریر میں علّامہ اقبال کو بھی یاد کرتے اور کہتے کہ میں آپ کو یاد دِلانے آیا ہُوں کہ ”علّامہ اقبال مصوّرِ پاکستان تھے“۔ علّامہ اقبال نے اپنی ایک نظم میں کہا تھا کہ
”گلا تو گھونٹ دِیا اہل ِمدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لَا اِلہٰ اِلّا اللہ“