فیصلے پر25 برس لگ جاتے ہیں، کیا یہ فوری اور سستا انصاف ہے؟ علما، فقرا پیسے کے چکر میں پڑ جائیں تو قوتیں تباہ ہو جاتی ہیں: جسٹس جواد
اسلام آباد (نمائندہ نوائے وقت) سپریم کورٹ نے غیر ملکی سفارت خانوں اور دیگر بااثر اداروں کی جانب سے رہائشی علاقوں کے کمرشل استعمال اور سکیورٹی کے نام پر رکاوٹیں کھڑی کرنے سے متعلق ازخود نوٹس کیس کی سماعت 3فروری تک ملتوی کر دی ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے ریمارکس دیئے کہ کیا سفارتخانے والوں پر ہمارے قانون کا اطلاق نہیں ہوتا؟ پسند ناپسند امیر غریب کی بنیاد پر قانون اور قواعد و ضوابط کا اطلاق نہیں ہو سکتا، خود احتسابی ہونی چاہیے سی ڈی اے بھی کسی قواعدوضوابط کے تحت ہی چلتا ہے پھر یہ غیر قانونی اقدامات کیوں ہو رہے ہیں؟ غیر ملکی سفارخانوں والے ہمارے ملکی قوانین کے پابند ہیں وہ کیوں نہیں ڈپلومیٹک انکلیو میں جاتے؟ جب علماء و فقرا، دنیاوی شان و شوکت اور پیسے کے چکر میں پڑ جائیں تو وہ قومیں تباہ ہوجاتی ہیں جبکہ سرمد جلال عثمانی نے کہا کہ سکیورٹی کے نام پر سڑکیں، گلیاں، فٹ پاتھ بلاک کرنے والوں کے خلاف بلا تخصیص کارروائی ہونی چاہئے سی ڈی اے بلڈوزر چلائے اور تمام رکاٹیں ختم کرے، سیمنٹ کے بلاکس سے 20فٹ کی سڑک کو 6فٹ کردیا گیا کیا سی ڈی اے کو نظر نہیں آتا؟ سی ڈی اے نے نوٹس جاری کرنے زحمت بھی نہیں کی۔ درخواست گزار کے وکیل نے کہا کہ سی ڈی اے کی جانب سے رپورٹ پیش کی گئی ہے مگر سی ڈی اے پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ رکاوٹیں اور غیر قانونی تعمیرات کو ختم کرائے‘ میٹرو بس منصوبے کی آڑ میں شاہراہ دستور کو بلاک کیا گیا ہے۔ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ یہ سنجیدہ معاملہ ہے ہماری تشویش یہ ہے کہ سی ڈی اے باقاعدہ ایک اتھارٹی ہے‘ ہم یہ کہہ کہہ کر تھک گئے ہیں کہ اگر ادارے اپنا کام ٹھیک طریقے سے کریں تو عدالتوں کا کام آدھا رہ جائے‘ خود احتسابی ہونی چاہئے‘ ہم قانون بناتے نہیں ہیں بلکہ رائج قوانین پر عملدرآمد کرانا ہمارا کام ہے‘ میری ذاتی ریسرچ کہتی ہے کہ سپریم کورٹ میں اوسطاً ایک دعویٰ دائر ہونے سے لے کر فیصلہ آنے تک پچیس سال تک کا عرصہ لگ جاتا ہے کیا یہ فوری اور سستا انصاف ہے؟ ہمیں چشم پوشی نہیں کرنی چاہئے۔ سی ڈی اے کے وکیل نے کہا کہ ڈپلومیٹک انکلیو میں کچھ سفارتخانے زیر تعمیر ہیں یا خالی پلاٹس پڑے ہیں، مجموعی طور پر 148 سفارتخانے ہیں تاہم ان میں سے 136 ڈپلومیٹک انکلیو سے باہر ہیں کچھ ممالک مالی طو ر پر کمزور ہیں ان کے پلاٹس خالی پڑے ہیں، جسٹس سرمد نے کہا کہ کیا یہ سب غریب ممالک ہیں؟ ایسا نہیں‘ سفارت خانوں کے نام پر پورے اسلام آباد میں امپائرز کھڑی کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے اگر سیکورٹی کے نام پر اتنا ڈر خوف ہے تو واپس چلے جائیں سب کی جان برابر ہے۔ سی ڈی اے کی رپورٹ میں منسٹری آف ڈیفنس کو ڈیفائینس لکھا گیا ہے یہ کون سی وزارت ہے جسٹس جواد نے کہا غلطی نہیں حقیقت اور درست لکھا گیا ہے یہ ان لوگوںکو ڈیفنس اور پروٹیکٹ ہی تو کررہے ہیںجسٹس سرمد جلال نے مزید کہا کہ کیا سویڈن غریب ملک ہے؟ ویلسن پلازہ کے مالک نے ایک گلی بند کر رکھی ہے یہ مالکان کب سے گلیاں بند کرنے لگے؟ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ سرکار کہہ دے کہ وہ حفاظت فراہم نہیں کر سکتی اور امیر اپنی حفاظت کیلئے گلی بند کرسکتے ہیں، غریب کا کوئی پرسان حال نہیں، پیسے اور طبقاتی طور پر تفریق نہیں ہونی چاہیے، وفاق میں کوئی ہائوسنگ فائونڈیشن ہے جو پلاٹس بانٹتی پھرتی ہے کیا اس نے کبھی کسی نائب قاصد کوئی پلاٹ دیا ،کیا اس شہر میں غریب کیلئے کوئی جائے پناہ ہے ؟بارہ لاکھ افراد پر مشتمل آبادی کے شہر اسلام آباد میں فرانس کالونی والے شمار ہوتے ہیں ان کا مائی باپ بھی تو سی ڈی اے ہی ہے۔