• news

بھارت ترقی کیلئے مذہبی رواداری اپنائے‘ امریکہ اس کا بہترین پارٹنر بن سکتا ہے: اوباما

نئی دہلی (اے ایف پی+ بی بی سی+ رائٹرز+ این این آئی) امریکی صدر بارک اوباما نے کہا ہے کہ ان کے دورہ بھارت کا مقصد دونوں ملکوں کے درمیان سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کے مکمل نفاذ کی طرف جانا ہے، ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا ہی ان کا ہدف ہونا چاہیے۔ نئی دہلی میں یونیورسٹی طلبا سے خطاب کرتے ہوئے اوباما نے کہاکہ دنیا کی دو بڑی جمہوری قوتیں مل کر ہی دنیا کو محفوظ جگہ بنا سکتی ہیں۔ بارک اوباما نے کہاکہ نوجوان طبقہ ٹیکنالوجی کے ذریعے دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے پہلے سے زیادہ قریب لارہا ہے، انہوں نے کہاکہ امریکہ میں تیس لاکھ سے زیادہ بھارتی نژاد امریکی رہائش پذیر ہیں جو امریکہ کو زیادہ مضبوط بنارہے ہیں۔ امریکی صدر نے کہاکہ ایک غریب رکشہ چلانے والے، گھروں میں کام کرنے والی اور سائیکل پر لنچ پہنچانے والے کے خواب بھی ہمارے خوابوں جیسے برابر اہم ہیں اور بھارت اور امریکہ ہی وہ ملک ہیں جہاں ہر ایک کو برابر موقع ملتا ہے۔ یہی بات تو ہے کہ یہاں چائے بیچنے والا وزیراعظم بن جاتا ہے۔ بارک اوباما نے خواتین کی ترقی اور بہبود پر بھی زور دیا اور کہاکہ دنیا میں قومیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب ان کی خواتین کامیاب ہوتی ہیں۔ اوباما نے کہا ہے کہ سلامتی کونسل میں بھارت کو مستقل رکن بنانے کی کوشش کریں گے۔ امریکہ اقوام متحدہ کی ایسی سلامتی کونسل چاہتا ہے جس میں بھارت رکن ہو، امریکہ انفراسٹرکچر کی تعمیر کیلئے بھارت کا ساتھ دے گا، بھارت کو خطے میں جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہیے۔ موسمی تبدیلیوں سے متعلق بھارت کی ہر ممکن مدد کرنے کو تیار ہوں۔ نوجوانوں سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ بھارتی عوام کا شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے میری بھارت آمد پر شاندار استقبال کیا، امریکہ اور بھارت کے درمیان بہترین تعلقات ہیں، انہوں نے کہاکہ دونوں ممالک ایک دوسرے کے بہترین اتحادی ہیں، پہلی مرتبہ وائٹ ہائوس میں دیوالی کی تقریب ہوئی۔ بھارت کے یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کرنیوالا پہلا امریکی صدر ہونے پر خوشی محسوس کر رہا ہوں۔ اوباما نے کہا کہ امریکہ اور بھارت چاند اور مریخ پر پہنچ چکے ہیں، ہم دنیا کی دو بڑی جمہوری طاقتیں ہیں، بھارت کو خطے میں جمہوریت کو مضبوط کرنا چاہیے، اگر ہمیں عالمی اتحادی بننا ہے تو دونوں ملکوں کو دنیا کیلئے مزید کام کرنا ہوگا۔ موسمی تبدیلیوں سے متعلق بھارت کی ہرممکن مدد کرنے کو تیار ہیں۔ اوباما نے کہا کہ ان کا ملک بھارت کا ’بہترین ساتھی‘ بن سکتا ہے مگر انہوں نے زور دے کر کہا کہ موسمیاتی تبدیلی کو پیچھے نہیں دھکیلا جا سکتا جب تک بھارت ماحول کے لیے بہتر ایندھن کا استعمال نہیں اپناتا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ بھارت اور امریکہ کے اقتصادی تعلقات میں ابھی تک ’بہت سارے امکانات‘ موجود ہیں۔ ’بھارت اور امریکہ نہ صرف قدرتی ساتھی ہیں بلکہ میں سمجھتا ہوں کہ امریکہ بھارت کا بہترین ساتھی بن سکتا ہے۔‘ ’یقیناً بھارتی ہی اس بات کا فیصلہ کر سکتے ہیں کہ بھارت نے دنیا میں کیا کردار ادا کرنا ہے مگر میں اس لیے یہاں پر ہوں کیونکہ میں اس بات پر یقینِ کامل رکھتا ہوں کہ ہمارے دونوں ممالک کے لوگوں کے لیے روزگار کے مزید مواقع ہوں گے اور ہماری قوموں کے لیے ایک محفوظ اور زیادہ مساویانہ بنیادوں پر کام کرنے والی دنیا ہو گی اگر ہماری دونوں جمہوریتیں اکٹھی کھڑی ہو کر کام کریں۔‘ صدر اوباما نے خبردار کیا کہ دونوں ممالک ’موسمیاتی تبدیلی کو روکنے کی اہلیت‘ رکھتے ہیں اگر بھارت جیسے ترقی پذیر ممالک نامیاتی ایندھن کا استعمال کم کر دیں۔ انہوں نے مذہبی برداشت اور خواتین کے تحفظ اور اْن کی عزت کی بات کی۔ ’ہمارے دونوں ممالک میں بنیادی آزادی کا تحفظ (مذہبی) حکومت کی ذمہ داری مگر یہ ہر شخص کی ذمہ داری بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہر عورت کو اپنے روز مرہ کے کام کرنے کے لیے موقع ملنا چاہیے کہ وہ سڑکوں پر آزادی سے چل پھر سکے، بس پر سواری کر سکے اور محفوظ رہے اور اسے اسی طرح کی عزت اور تعظیم کا برتاؤ کیا جائے جس کی وہ مستحق ہے۔‘ اوباما نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان گذشتہ چند سالوں میں تجارت میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ روانگی سے پہلے اوباما نے یہ پیغام بھی دیا کہ آگے بڑھنا ہے تو مذہبی رواداری کا دامن نہ چھوڑیں اور عورتوں کو بھی آگے بڑھنے کا برابر موقع دیں۔ صدر اوباما نے دہلی کے سیری فورٹ آڈیٹوریم میں اپنی تقریر کا بڑا حصہ مذہبی یک جہتی اور عدم مساوات کے نام کیا۔ ان کا پیغام تھا: ’طاقت کے ساتھ ذمہ داری بھی آتی ہے، انڈیا کو خطے میں اور عالمی سٹیج پر زیادہ موثر قائدانہ کردار ادا کرنا چاہیے۔ بھارت ہر رنگ و نسل اور مذہب کے لوگ رہتے ہیں۔ امریکہ میں بھی ہر رنگ و نسل اور قومیت کے لوگ رہتے ہیں۔ دنیا میں آج بھی بہت عدم مساوات ہے، لیکن مجھے کہتے ہوئے فخر محسوس ہوتا ہے کہ ہم ایسے ممالک میں رہتے ہیں جہاں ایک باورچی کا بیٹا امریکہ کا صدر بن سکتا ہے اور ایک چائے بیچنے والا وزیراعظم بن سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمارے دونوں ملکوں میں، ہندو اور مسلمان، یہودی اور بودھ، عیسائی، سکھ اور جین اور کئی دوسرے مذاہب پر عمل کرنے والے رہتے ہیں۔ گاندھی نے کہا تھاکہ یہ سب ایک ہی گلدستے کے پھول ہیں۔ کسی بھی مذہب پر عمل کرنے کی آزادی ہمارے دونوں ملکوں کے دستوروں میں شامل ہے، اور اس حق کا تحفظ کرنا حکومت اور ہر شخص کی ذمہ داری ہے۔ ہمیں آج پھر دہرانا چاہیے کہ ہر شخص کو اپنے عقیدے پر اپنی مرضی کے مطابق عمل کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ ’دنیا میں ہمیں جس امن کی تلاش ہے، اس کی ابتدا انسانوں کے دلوں سے ہی ہوتی ہے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ہم مذہبی اختلافات سے اوپر اٹھ کر سوچیں اور بھارت میں یہ بات سب سے زیادہ اہم ہے، بھارت تبھی کامیاب ہو گا جب وہ متحدہ ہو گا، اس میں مذہب کی بنیاد پر کوئی تقسیم نہیں ہوگی۔ ہمارے دونوں ملکوں میں ہمارا تنوع ہی ہماری طاقت ہے اور ہمیں اس بات کو یقینی بنانا ہو گا کہ ہمارے معاشرے مذہب یا کسی بھی دوسرے فرق کی بنیاد پر تقسیم نہ ہوجائیں اور اگر انڈیا اپنے جمہوری اقدار کا مسلسل تحفظ کرتا رہتا ہے تو دوسرے ملکوں کیلئے ایک مثال قائم ہو گی۔
ریاض (نمائندہ خصوصی+ رائٹرز+ اے ایف پی) امریکہ کے صدر بارک اوباما بھارت کا دورہ مختصر کرکے گزشتہ سہ پہر ریاض پہنچے جہاں سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے انکا استقبال کیا۔ اوباما کے وفد میں ریاض میں امریکہ کے سفارتکار بھی شامل تھے۔ امریکی صدر نے شاہ عبداللہ کی وفات پر گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کیا۔ سعودی شاہ سے ملاقات کے بعد اوباما  کے اعزاز میں عرغہ پیلس میں ایک عشائیہ کا اہتمام بھی کیا گیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ جان کیری بھی ملاقات میں شریک ہوئے۔ امریکی وفد میں سابق وزیر خارجہ کونڈا لیزا رائس، جان مکین، جیمز بیکر بھی شامل ہیں۔ رائٹرز کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی صدر نے سعودی عرب کے نئے فرمانروا کیساتھ خطے کی صورتحال جن میں داعش، شام، ایران، عراق کے معاملات کے ساتھ تیل کی صورتحال پر بھی تبادلہ خیال کیا۔ امریکی صدر کے دورہ میں سی آئی اے کے ڈائریکٹر جان برینن بھی شامل ہیں۔ قبل ازیں امریکی ٹی وی سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے بارک اوباما نے کہا تھا کہ سعودی حکام کے ساتھ مذاکرات میں خطے میں امن و استحکام کے ساتھ انسانی حقوق کے حوالے سے بات ہو گی اور اس کیلئے دبائو بھی ڈالا جائیگا۔ انکا کہنا تھا کہ وہ تمام ممالک جن کیساتھ ہم ملکر کام کر رہے ہیں ان سے اس حوالے سے بات کرتے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ اس حوالے سے مزید کیا کام کرنے کی ضرورت ہے۔ اوباما  نے  امریکہ کے سعودی  عرب کے ساتھ قریبی  تعلقات کا دفاع کرتے ہوئے کہا تھا  کہ  امریکہ انسانی حقوق  اور سلامتی  میں ایک توازن رکھنا ضروری ہے۔امریکی صدر کو ہوائی اڈے پر گارڈ آف آنر پیش کیا گیا۔ اس موقع پر خاتون اوّل مشل اوبامہ بھی صدر کے ہمراہ تھیں۔

ای پیپر-دی نیشن