امریکہ، بھارت معاہدوں سے خطے میں عدم توازن پیدا ہو گا، ایشو نہیں بنانے چاہئیں
لاہور (سیف اللہ سپرا) ’’امریکی صدر بارک اوباما کے دورہ بھارت کے دوران بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کی حمایت اور دونوں ملکوں کے درمیان ’’سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی معاہدے کی تجدید‘‘ کے موضوع پر نوائے وقت گروپ کے زیر اہتمام ایوان وقت میں منعقدہ مذاکرے میں شریک سیاسی رہنماؤں اور عسکری ماہرین نے متضاد آرا کا اظہار کیا ہے۔ مذاکرے کے شرکا میں سابق سفیر بیگم عابدہ حسین، لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیر اختر، عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما احسان وائیں اور پاکستان تحریک انصاف کے سینئر نائب صدر اور اپوزیشن لیڈر پنجاب اسمبلی میاں محمودالرشید تھے۔ عابدہ حسین نے کہا امریکہ اور بھارت کے درمیان سول نیوکلیئر ڈیل ڈیڑھ دو سال قبل ہوئی صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران اس ڈیل کی تجدید کی گئی۔ امریکہ نے یہ ڈیل کرتے وقت ان ریاستوں کا احساس نہیں کیا جنہوں نے این پی ٹی پر دستخط کئے ہیں۔ بھارت نے تو این پی ٹی پر سائن بھی نہیں کئے۔ اس ڈیل سے ظاہر ہوتا ہے نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی فیلڈ میں بھارت اور امریکہ کے درمیان تعاون ہو گا۔ یہ تعاون کس قسم کا ہو گا اس کا اندازہ وقت آنے پر ہو گا۔ پاکستان کے ساتھ امریکہ نے سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کی ڈیل نہیں کی۔ اس سے خطے میں عدم توازن کی صورتحال پیدا ہونے کا امکان ہے۔ جہاں تک امریکہ کی طرف سے بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنانے کی حمایت کا تعلق ہے تو میں سمجھتی ہوں یہ ایک رسمی بات ہے کیونکہ بھارت کے علاوہ جرمنی، جاپان، برازیل اور جنوبی افریقہ بھی سلامتی کونسل کے مستقل ممبر بننے کے خواہشمند ہیں۔ سکیورٹی کونسل کی مستقل نشستیں بڑھانے کا جب معاملہ آئے گا تو بھارت کے علاوہ دوسرے ممالک بھی میدان میں آجائیں گے۔ چنانچہ امریکی حمایت کی کوئی وقعت نہیں۔ تاہم امریکہ بھارت کو اسلحہ فروخت کرے گا تو اس کا ہمیں ہی سامنا کرنا پڑے گا۔ انہوں نے کہا آرمی چیف کا چین جانا مناسب تھا انہیں روس کے ساتھ دفاعی تعلقات مضبوط بنانے چاہئیں۔ اسلامی ممالک کو مل کر یہ مطالبہ کرنا چاہئے کہ کسی ایک اسلامی ملک کو سلامتی کونسل کا مستقل ممبر بنایا جائے۔ ہمارا خطہ نیوکلیئر فلیش پوائنٹ اور کشمیر وجہ تنازعہ ہے مسئلہ کشمیر حل ہو جائے تو یہ علاقے کے امن کے لئے سودمند ہو گا۔ بھارت کے ساتھ پانی کا تنازعہ بھی حل ہونا چاہئے۔ بھارت کی بائیں بازو کی جماعتیں امریکہ کے ساتھ نریندر مودی حکومت کے جھکاؤ کے خلاف آواز اٹھائیں گی۔ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نصیر اختر نے کہا اوباما کا دورہ بھارت لینڈ مارک ہے اس دفعہ پاکستان نے کوئی ایسی بات نہیں کی جو اوباما یا امریکہ کے خلاف ہو۔ دوسری طرف اوباما اور بھارتی قیادت کا لہجہ بھی نرم تھا انہوں نے پاکستان کا نام بھی نہیں لیا۔ عین اس موقع پر آرمی چیف کا دورہ چین اہمیت کا حامل ہے یہ امن کی طرف پہلا قدم ہے۔ بہتر یہ ہے بھارت اور پاکستان کی صلح ہو جائے اور اس میں امریکہ اہم کردار ادا کرے گا ہمیں کوشش کرنی چاہئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتری کی طرف چلیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان صلح میں ایک بڑی رکاوٹ مسئلہ کشمیر ہے۔ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا اس وقت تک دونوں ملکوں کی صلح نہیں ہو سکتی۔ اوباما کے دورے سے قبل اس خطے میں لڑائی کا سماں تھا۔ اوباما کے وزٹ سے اس کشیدگی میں کمی آگئی ہے۔ ہمیں خوامخواہ ایشو نہیں بنانے چاہئیں۔ اس وقت ہمارے ہاں غربت ہے، دہشت گردی ہے ہمیں جلد از جلد ان مسائل سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہئے۔ جہاں تک امریکہ اور بھارت کی نیوکلیئر ڈیل کا تعلق ہے اس پر ہمیں کچھ تحفظات تھے ہم نے کوشش کی ہے ان تحفظات کو ختم کیا جائے۔ ہمارے پاس نہ کھانے کو ہے نہ پینے کو، سکیورٹی کی صورتحال بھی خراب ہے۔ ان حالات میں امریکی صدر بھلا کیوں آئے گا۔ ملک میں تقریباً مارشل لا ہے۔ ہمیں حالات کو نارمل کرنا چاہئے، اپنے مسائل حل کرنے چاہئیں، معیشت مضبوط کرنی چاہئے پھر امریکہ سمیت پوری دنیا کے لیڈر یہاں آئیں گے۔ احسان وائیں نے کہا بھارت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک اور دنیا کی دوسری بڑی مارکیٹ ہے، بھارت دنیا کی دسویں بڑی معیشت اور نویں بڑی دفاعی طاقت ہے۔ پاکستان کے مقابلے میں بھارت معاشی طور پر اور جنگی لحاظ سے دس گنا بڑا ملک ہے۔ اس لئے امریکہ کو تجارت کے لئے منڈی چاہئے۔ اسلحہ کی خریداری میں دنیا کا سب سے بڑا ملک بھارت ہے اس لئے امریکہ کو اپنا اسلحہ بیچنے کے لئے بھارت جیسے خریداری کی ضرورت ہے۔ پاکستان کے ہمسائے میں چین ہے جو دفاعی لحاظ سے سپر پاور بنتا جا رہا ہے۔ امریکہ کو چین کو روکنے کے لئے بھارت کی ضرورت ہے کیونکہ جاپان سے پہلے ہی چین کے اختلافات ہیں اور جاپان امریکہ کے ساتھ ہے۔ اس طرح جاپان، جنوبی کوریا، بھارت اور آسٹریلیا مل کر چین کو سپرپاور بننے سے روکنا چاہتے ہیں اور امریکہ اس حوالے سے ان تین ملکوں کو استعمال کر رہا ہے۔ بھارت امریکہ کا اس لئے بھی سٹریٹجک پارٹنر بننا چاہتا ہے کہ چین پاکستان کا سٹریٹجک پارٹنر ہے اور پاکستان کی موجودہ حالت میں دفاعی ضروریات پوری کرتا ہے۔ امریکہ بھارت دو ملکوں کے درمیان تعلقات ہیں جس کا پاکستان کو کوئی اعتراض نہیں لیکن پاکستان کے لئے امریکی صدر کا افغانستان کے لئے اعتماد کرنا اور انہیں دہشت گردی کو روکنے کے لئے ذمہ داری سونپنا، پاکستان کے لئے اعتراض کا باعث ہے کیونکہ بھارت افغانستان میں بیٹھ کر اس کے قونصلر پاکستان میں دہشت گردی کو پھیلاتے ہیں اور خاص طور پر بلوچستان کے حالات بھارت کی وجہ سے زیادہ خراب ہیں۔ اس لئے ہم امریکہ یا اپنے ہمسایہ ممالک خاص طور پر بھارت سے برابری کی بنیاد پر تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔ میاں محمود الرشید نے کہا امریکی صدر کا دورہ بھارت اس بات کی غمازی کرتا ہے اس کا جھکاؤ بتدریج بھارت کی طرف ہو رہا ہے اس لئے پاکستان کو صرف امریکہ پر انحصار نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہمیں بھی بتدریج چین اور روس کے ساتھ اپنے تعلقات بہتر بنانے چاہئیں۔ ماضی میں بھی امریکہ نے قابل اعتماد ساتھی اور اتحادی ہونے کا ثبوت کبھی نہیں دیا۔ دوسرا افغانستان میں قیام امن کے لئے امریکہ بھارت کو کوئی رول دینا چاہتا ہے جو ہمیں کسی طور پر بھی قابل قبول نہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے ہم اپنی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کریں اور امریکہ کو یہ پیغام دیں ہم خطے میں بھارت کی بالادستی کسی صورت قبول نہیں کریں گے۔ بھارت اور امریکہ سول نیوکلیئر ٹیکنالوجی کا معاہدہ دراصل امریکہ بھارت کو چین کے مقابلے میں کھڑا کرنا چاہتا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف ہم نے بہت قربانیاں دی ہیں اب ہمیں نظرانداز کر کے بھارت پر امریکی مہربانیاں ناقابل فہم ہیں۔ بھارت کو سلامتی کونسل کا ممبر بنانے کے لئے امریکی کوششوں کی ہم مذمت کرتے ہیں۔