• news

اربوں کی ڈیوٹی چوری، 10 افراد گرفتار، پشاور اور لاہور کسٹمز کا عملہ سکینڈلز میں ملوث

لاہور (سید شعیب الدین سے) کسٹمز انٹیلی جنس لاہور نے اربوں روپے مالیت کی ڈیوٹی چوری کے دو بڑے سکینڈلز کا سراغ لگا کر 10 افراد کو گرفتار کر لیا ہے۔ دو اہم اور مرکزی ملزموں کی گرفتاری کیلئے چھاپے مارے جا رہے ہیں۔ پشاور اور لاہور کسٹمز کا عملہ بھی اس سکینڈل میں ملوث ہے۔ ڈائریکٹر امتیاز احمد خان، ایڈیشنل ڈائریکٹر محسن رفیق اور رضوان صلابت کی اطلاعات پر، ڈپٹی ڈائریکٹر سعد عطا ربانی اور سپرنٹنڈنٹ گلزار نے کراچی سے لاہور کی تینوں ڈرائی پورٹس کیلئے آنیوالے کنٹینروں کی چیکنگ کی تو انکشاف ہوا کہ یہ کنٹینر پریم نگر، این ایل سی اور مغلپورہ ڈرائی پورٹس کی بجائے شامکے بھٹیاں، سندر اور جمپر میں گوداموں میں لے جا کر کھولے جاتے ہیں۔ کسٹمز انٹیلی جنس ٹیم نے چھاپہ مارا تو جمشید اقبال اور ان کے بیٹے سکندر سبحانی کے گودام میں سامان اتارا جا رہا تھا۔ مہنگے آٹو پارٹس اتار کر اس میں ’’شیشے کے کنچے‘‘، سوڈا ایس، ٹی وی کی باڈی کٹس اور دیگر سامان بھرا جا رہا تھا۔ مہنگے آٹو پارٹس نکال کر دوسرا سامان بھر کر کنٹینر دوبارہ بند کر کے ڈرائی پورٹ بھیج دیتے تھے جہاں لاکھوں کی بجائے ہزاروں روپے ڈیوٹی ادا کر کے سامان کسٹمز افسروں کی ملی بھگت سے کلیئر کرا لیا جاتا تھا۔ یہ کام لمبے عرصے سے جاری تھا۔ کسٹمز انٹیلی جنس نے بدلا ہوا سامان بعدازاں چمڑی منڈی اور بیدیاں روڈ سے قبضے میں لے لیا۔ اس کیس میں 5 ملزم گرفتار ہوئے۔ مرکزی ملزم جمشید اقبال اور اس کا بیٹا سکندر سبحانی مفرور ہیں البتہ جمشید اقبال کا بھائی پرویز اقبال گرفتار کیا جا چکا ہے۔ درآمد کنندگان کے خلاف بھی مقدمہ درج کر لیا گیا ہے، صرف پہلے کیس میں 10 کروڑ روپے کی خورد برد کی نشاندہی ہوئی ہے اور 8 مزید ایسے کنٹینروں کی نشاندہی ہو چکی ہے۔ ملزم عرصہ سے یہ کام جاری رکھے ہوئے تھے۔ دوسرے کیس میں کراچی سے پشاور جانیوالے کنٹینر ٹرالر کو لاہور میں ’’تنویر بانڈ‘‘ پر ان لوڈ ہوتے ہوئے قبضہ میں لیا گیا۔ یہ ٹرالر ’’سیف ٹرانسپورٹیشن‘‘ کے تحت پشاور جا رہا تھا جہاں اس میں موجود کوائل کو مینوفیکچرنگ بانڈ میں اتارا جاتا اور وہاں کوائل پر پلاسٹک (PVC) چڑھا کر افغانستان بھیج دیا جاتا۔ ان کوائلز پر ڈیوٹی وصول نہیں کی جاتی تھی۔ انہیں ایک عرصہ سے  لاہور میں ان لوڈ کر کے خالی ٹرالر پشاور بھیجا جاتا تھا۔ لاہور میں کوائل بجلی کے تار بنانے والی فیکٹریوں کو بیچا جاتا جو اس پر (PVC) چڑھا کر تار بیچ کر بھاری منافع کما رہی تھیں۔ کسٹمز انٹیلی جنس نے 5 ملزموں کو گرفتار کر لیا۔ لاہور میں مختلف فیکٹریوں، گوداموں سے بھی کوائل اور تیار ’’تار‘‘ پکڑے گئے ہیں جن کی قیمت 33 کروڑ اور ڈیوٹی 18 کروڑ بتائی جاتی ہے۔ قومی خزانے کو کروڑوں روپے کا نقصان پہنچانے کا سلسلہ عرصے سے جاری تھا۔ اس مکروہ دھندے میں پشاور کسٹمز بھی ملوث تھا جو خالی کنٹینروں کو کلیئر کرتا تھا اور صرف ’’کاغذات‘‘ وصول کر کے بجلی کے تاروں کی افغانستان برآمد کا لیٹر جاری کر دیتا تھا۔

ای پیپر-دی نیشن