کرکٹ ٹیم اور سرفراز نواز اپنے اپنے مشن پر!
عالمی کپ مشن کا آغاز ہوا چاہتا ہے۔ پریکٹس میچوں میں ناکامی سے دورہ نیوزی لینڈ کی شروعات ہوئی ہے۔ آغاز اچھا نہیں ہے لیکن اختتام اچھا ہو یہ سب کی دعا ہے، خواہش ہے۔ قومی ٹیم کیلئے عالمی کپ جیتنا مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں لیکن کیا سب اندھے ہوسکتے ہیں کہ ہم باآسانی جیت جائیں۔ مخالف بلے باز کو گیند نظرنہ آئے اوراس کی وکٹیں اڑجائیں۔ مخالف باﺅلرز ہمارے بیٹسمینوں کو باﺅلنگ کرتے ہوئے حواس باختہ ہوجائیں اور ایسی آسان گیند بازی کریں کہ ہمارے شہزادے رنز کے پہاڑ کھڑے کرلیں۔ یقینا ایسا ناممکن ہے۔ بھر پور محنت لگن اور توجہ سے ہی منزل ملے گی۔ عالمی کپ میں فتح حاصل کرنے کیلئے کسی ایک میچ میں کامیابی نہیں ٹورنامنٹ کے اکثر میچوں میں کامیابی حاصل کرنا ہوگی۔ ایک میچ تو کسی بھی کھلاڑی کی انفرادی کارکردگی سے جیتا جا سکتا ہے لیکن ٹورنامنٹ جیتنے کیلئے ٹیم کے اہم کھلاڑیوں کو مسلسل عمدہ کھیل کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ کوئی کرکٹ ٹیم کے منیجر کو بھی یہ سمجھا دے کیونکہ ٹیم کے بیوروکریٹ مینجر نوید اکرم چیمہ اس لئے عالمی کپ میں کامیابی کے حوالے سے پر امید ہیں کہ قوم کی دعائیں کرکٹ ٹیم کے ساتھ ہیں۔ بھولے بادشاہ ہیں ٹیم مینجر بھی! کیا ایونٹ میں شرکت دیگر ممالک کی ٹیمیں بددعاﺅں کے سائے میں شریک ہوں گی۔ دعاﺅں والا معاملہ تو ہمیشہ سے ہے کوئی کہے نا کہے کوئی درخواست کرے نا کرے۔ پاکستانی دعاﺅں کے معاملے میں کبھی کنجوسی نہیں کرتے۔ چیمہ صاحب ٹیم کو متحرک رکھنے اور کھلاڑیوں کو آف دی فیلڈ قابو میں رکھنے پر توجہ دیں۔ دعاﺅں والا کام کرنے کیلئے یہاں بڑی تعداد موجود ہے۔ بڑی تعداد کا ذکر ہو تو ان دنوں یہ خبریں بھی تیزی سے گردش کررہی ہیں کہ عالمی کپ میں پندرہ رکنی ٹیم تو شرکت کررہی ہے۔ ٹیم کی ورلڈ کپ میں شرکت کے سائے تلے بہت سے لوگ بھی آسٹریلیا نیوزی لینڈ یاتراکریں گے۔ اسی حوالے سے برادرم سہیل عمران نے سوشل میڈیا پر لکھا ہے کہ ”دوستو کیا پاکستان کرکٹ ٹیم کی نیوزی لینڈ سے کسی کو کوئی خبر ملی، سنا تھا میڈیا مینجر بھی ٹیم کے ساتھ ہیں“ محسوس ہوتا ہے کہ سہیل عمران کو یقین ہے کہ جو صاحب میڈیا کے معاملات کو دیکھنے کیلئے ٹیم کے ہمراہ ہیں۔ وہ کوئی خبر نہیں بھیجیں گے۔ بلکہ ان کی خبر لینے کے لئے بھی کسی باخبر سے رابطہ کرنا پڑے گا۔ سہیل عمران کا یہ جملہ شرارت ہے طنز ہے یا پھر اسے مزاح کے کھاتے میں ڈال دیا جائے۔ بہرحال بات انہوں نے پتے کی کردی ہے۔ گذشتہ روز ایک روزنامے میں بھی موصوف کا ذکر ہوا ہے کہ ابھی تک کسی سے ان کا رابطہ نہیںہو سکا۔ ہم نے بھی پی سی بی میڈیا ڈیپارٹمنٹ کے رضا راشد سے فون نمبر کی درخواست کی ہے انہوں نے دفتر پہنچنے پر موبائل نمبردینے کا وعدہ فرمایا ہے۔ لیکن لگتا ہے وہ ابھی تک راستے میں ہی ہیں۔ لاہور کی سڑکوں پر ان دنوں ٹریفک جام معمول کی بات ہے۔ رضا کہیں ٹریفک میں پھنس گئے ہوں گے ورنہ وہ دفتر پہنچ جاتے تو یہ مسئلہ یقیناً حل ہو جاتا۔
ایک طرف ٹیم پاکستان عالمی کپ مشن پر ہے تو دوسری طرف ٹیسٹ فاسٹ باﺅلر سرفراز نواز نے بھی پاکستان کرکٹ بورڈ میں ہونیوالی فضول خرچیوں کو عدالت کے ذریعے عوام کے سامنے لانے کا اعلان کیا ہے۔ سرفراز نواز کی پنشن بند کردی گئی ہے۔ پنشن کی بندش نے ان کیلئے نیا راستہ کھولا ہے۔ سابق تیز گیند باز نے کرکٹ بورڈ کے اس فیصلے کے خلاف عدالت جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ بگ سیف کہتے ہیں کہ پی۔ سی۔ بی کے سی۔ او۔ او کے پاس ملاقات کا وقت بھی نہیں ہے۔ چند روز نیشنل کرکٹ اکیڈمی میں رہا ہوں۔ نوجوان کھلاڑیوں کی کوچنگ کی ہے۔ لیکن یہاں مجھے کرکٹ کا ماحول نظر نہیں آرہا۔ سب ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں۔ سرفراز نواز کہتے ہیں کہ وہ عدالت میں گورننگ بورڈ ممبران اور پی۔ سی۔ بی کے دیگر افسران نے جو بھی ٹی۔ اے،ڈی۔اے اور مراعات حاصل کی ہیں، وہ عوام کے سامنے لائیں گے۔ سرفراز نواز کرکٹ کے میدان میں اپنی باﺅلنگ سے مخالف بلے بازوں کو گراﺅنڈ چھوڑنے پر مجبور کرتے تھے تو اب وہ اپنے بیانات سے پی۔سی۔بی افسران کے مسائل میں اضافے کا باعث بنتے رہتے ہیں۔ سرفراز نواز ان دنوں انتخاب عالم کو بھی ڈھونڈ رہے ہیں کہ ان سے یہ جان سکیں کہ ہر بدلتے چیئرمین اور انتظامیہ کے ساتھ کیسے ”فٹ“ ہوا جاسکتا ہے۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر نے کرکٹ کمیٹی کے چیئرمین پر بھی اعتراضات اٹھائے ہیں۔ انہوں نے کہا ہے کہ ایک نان کرکٹر کی سرپرستی میں کام کرنے والی اس کمیٹی میں موجود سابق ٹیسٹ کرکٹرز کو مستعفی ہو جانا چاہئے۔
سرفراز نواز نے بڑے درست وقت میں کرکٹ بورڈ انتظامیہ کو آڑے ہاتھوں لینے کا فیصلہ کیا ہے۔ ان کی پنشن کا مسئلہ حل ہونے کی خاصی امید ہے کیونکہ ٹیم عالمی کپ مشن پر ہے اور کرکٹ بورڈ کے انتظامی معاملات بھی مثالی نہیں ہیں۔ سرفراز کے اگر کچھ اور معاملات ہیں تو ان حالات میں وہ بھی حل ہوسکتے ہیں۔ رہا مسئلہ چیف آپریٹنگ آفیسر سے ملاقات نا ہونے کا تو یہ بھی کوئی اتنی بڑی بات نہیں۔ صاحب اقتدار و اختیار کے اپنے مسائل اور مصروفیات ہوتی ہیں۔ آنے والے دنوں میں یہ مسئلہ بھی باقی نہیں رہے گا۔ قومی ٹیم عالمی کپ مشن پر ہے اور سرفراز نواز بھی ایک مشن پر ہیں دونوں کا مقصد نیک ہے ٹیم کے ساتھ دعاﺅں کی اضافی طاقت اور قوت ہے تو سرفراز نواز کے پاس میڈیا کی طاقت، اپنے لئے دعاوہ خود ہی کریں گے لیکن ان کی اصل قوت کرکٹ بورڈکے غلط فیصلے اور اخبارات و ٹی۔ وی چینلز ہیں۔ وہ صاحب اقتدار پر جملوں کی بارش کریں گے کبھی ان سوئنگ کبھی آﺅٹ سوئنگ ، دیکھتے ہیں مقابلہ کب تک جاری رہتا ہے۔ دعا ہے کہ قومی کرکٹ ٹیم بھی اپنے نیک مقصد میں کامیاب ہو اور سرفراز نواز بھی اگر ان کا مقصد نیک ہے تو !