ملٹری اسٹیبلشمنٹ
اعظم ملک
پاکستان میں 2013ء کے انتخابات کے بعد مسلم لیگ کی حکومت برسرِ اقتدار آئی تو نواز شریف کو سنگین چیلنجز درپیش تھے۔ اگرچہ تحریکِ انصاف نے الیکشن کو صاف و شفاف اور غیر جانبدارانہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ لیکن عمران خان کے زخمی ہونے کے سبب اور جمہوریت کے تسلسل کی خاطر وقتی طور پر تحریکِ انصاف نے حکومت کو مان لیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف پرانے کھلاڑی ہونے کے سبب اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ پاکستان میں اقتدار حاصل کرنے کیلئے صرف عوامی تائید کی ضرورت نہیں بلکہ اس کیلئے الیکشن سے چند ہفتے قبل امریکہ کا خفیہ دورہ بلا ستہ دوبئی کرنا پڑتا ہے۔ برادر اسلامی ملک کے سفیر سے بھی خوشگوار ملاقاتیں لازمی ہیں۔ دورانِ الیکشن ڈرون حملوں اور خارجہ پالیسیوں پر خاموشی اختیار کر کے تابعداری کا پیغام دیا جاتا ہے۔ پولنگ ایجنٹ سے لے کر اوپر تک اور میڈیا ہائوسز سے لے کر نگران سیٹ اپ تک سب کا بندوبست کرنا پڑتا ہے۔مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں بعض رہنما ایسے برادری پرست بھی ہیں کہ مخالف پارٹی میں اپنی برادری کے امیدوار وں کو جتوانے کیلئے اپنی جماعت میں کمزور اُمیدواروں کو ٹکٹ دلوادیتے ہیں جبکہ عمران خان اپنی فطرت سے مجبور اور نیوٹرل ایمپائر کے ذریعے میچ کھیلنے والا جب بستر علالت سے اُٹھے تو بے شمار حقائق سے پردہ اُٹھتا ہے اور الیکشن سے چار دِن پہلے کسی اہم ملک کے سفیر سے نہ ملنا کتنا مہنگا پڑ سکتا ہے اسکے علاوہ ڈرون حملوں کو مار گرانے کا بیان کیا گُل کھلاتا ہے اِ ن چیزوں کا اندازہ اُس کو بخوبی ہو چکا تھا۔ خیر بات ہو رہی تھی کہ نواز شریف نے جب حکومت سنبھالی تو عوام اس بات کی اُمید کر رہے تھے کہ پیپلز پارٹی کی کرپشن ، بے حسی اور نا اہلی کے سبب تباہ حال ہونیوالے قومی اداروں کی تشکیل ِ نو کی جائے گی، معیشت کو سہارا ملے گا، ٹیکس نظام درست کرکے غریب عوام کو ریلیف دیا جائیگا اور لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ ہو سکے گا۔ افسوس کہ حکومت کی ترجیحات عوامی مسائل کے حل کی بجائے اپنے اقتدار کو مضبوط کرنے اورفوج کے کردار کو محدود کرنے کی کوششوںمیں مرکوز ہوگئیں۔ جمہوریت کے نام پر پیپلز پارٹی کے پانچ سال فرینڈلی اپوزیشن کی حیثیت سے گزارے۔ وفاقی کابینہ میں شمولیت اُس فوجی صدر سے حلف اُٹھا کر جو بقول (ن) لیگ تمام خراب ملکی صورتِ حال کا ذمہ دار تھا۔ اُس وقت وہ نہ آئین شکن تھااور نہ غدارپھر کیا ہوا کہ (ن) لیگ حکومت میں آنے کے بعد جنرل مشرف پر بذریعہ عدالت غداری کا مقدمہ چلا کر ایک تیر سے دو شکار کرنے کی کوشش کی گئی۔ ایک طرف تو مشرف کیس کے ذریعے عوامی مسائل سے توجہ ہٹانے کی کوشش کی گئی اور دوسری طرف مشرف کیس کے ذریعے فوج کو بھی دبائو میں لانے کیلئے کوشش کی گئی۔ وفاقی وزراء کو جنرل مشرف کا نام لے کر فوج پر تنقید کرنے کا لائسنس دے دیا گیا۔ آئی ایس آئی کے چیف کو نجی میڈیا ہائوس کی جانب سے تذلیل کرنے پر سخت تادیبی کارروائی کرنے کی بجائے اُس میڈیا ہائوس کو سپورٹ کیا گیا۔ وزراء نے کہاہم قلم والوں کے ساتھ ہیں غلیل والوں کے ساتھ نہیں۔ نواز شریف کا ہمیشہ یہ المیہ رہاکہ وہ انجانے خوف کی وجہ سے تمام اداروںپر کنٹرول حاصل کرنا چاہتے ہیں ۔ وہ آتے ہی اگلے پانچ سال کی منصوبہ بندی شروع کر دیتے ہیں اگر وہ موجودہ پانچ سال میں عوامی مسائل حل کرنے کیلئے نیک نیتی سے کام کریں تو اگلے پانچ سال کیلئے کوئی ایسا کام کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے جس کے سبب پچھلی دونوں دفعہ ہی وہ دو سال سے زائد حکومت نہ کرسکے۔ آجکل حکومتی وزراء بعض اینکرز کو یہ زور دے رہے ہیں کہ آپ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بڑھتے قومی سلامتی کے کردار پر تنقید کریںجبکہ میری نظر میں حکومت کو اپنی دو سالہ کارکردگی کا جائزہ لینا چاہیے۔ ملکی سلامتی، دہشت گردی اور قومی سلامتی کے اداروں کے متعلق اپنی پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ پاک فوج نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قربانیوں کی لازوال داستانیں قائم کی ہیں۔ سوات آپریشن اور ضرب ِ عضب میں ملکی سلامتی کیلئے آخری حد تک جانے میں کسی ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ دُنیا کی تاریخ میں بہت کم ایسا ہوا ہو گا کہ ملکی مفاد کی خاطر جان کا نذرانہ دینے والے شہداء اور غازیوں نے اپنے معصوم ننھے کمسن بچوںکی شہادت کا نذرانہ بھی پیش کیا۔
ان حالات میں جبکہ ملک سنگین اندرونی بیرونی خطرات و مسائل سے گرِا ہوا ہے کسی بھی ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو کیا کرنا چاہیے کیا وہ ہاتھ پر ہاتھ رکھ کرملک کے خدانخواستہ ٹوٹنے کا انتظار کرے، معصوم بچوں کو بے دردی سے شہید ہوتا ہوا دیکھے ،دہشت گردی اور انتہا پسندی کے زہر سے قوم کو تباہ ہوتا دیکھے اور بیرونی مداخلت کے خلاف سیسہ پلائی دیوار نہ بنے۔ یہاں ملٹری اسٹیبلشمنٹ تنقید کرنے والے ان سربراہوں کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں جو دھاندلی سے انتخابات جیت کر برسرِ اقتدار میں آتے اور ہروقت عوام کے سامنے جوابدہ بھی نہیں ہوتے ۔ سیاستدان جب اپنے دولت کے انبار لگانے اور شوقِ حکمرانی کو ملکی مفادپر قربان کر کے آئین اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے عوام کے خادم بنیں گے تو آپ کا کام کرنے کی کسی کو ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ عوام کی تائید حاصل ہو اور پالیسی کی سمت و نیت ٹھیک ہو تو کسی ادارے اور فرد کو مداخلت کی ضرورت محسوس نہ ہو گی۔