• news

امریکی صدر کا دورہ اور اہمیت

عالیہ شبیر
اوباما کے دورۂ بھارت میںسات چیزیں بڑی ہی اہمیت کی حامل ہیں۔ نمبر ون: امریکی صدر باراک اوباما بھارتی یوم جمہوریہ میں شرکت کیلئے نئی دہلی پہنچے۔ امریکی صدر اوباما یوم جمہوریہ کی تقریب میں شرکت کرنیوالے پہلے صدر ہیں۔ اس سے پہلے بھارت کے یوم جمہوریہ کے موقع پر جاپان کے وزیر اعظم، روسی صدر، فرانس کے صدر شرکت کرچکے ہیں۔ کسی بھی امریکی صدر کی دوسری بھارت یاترا ہے۔نمبر ٹو، یہ بھارتی وزیراعظم اور امریکی صدر کی نہ ہی پہلی اور نہ ہی دوسری ملاقات ہے۔ نریندر مودی 2014ء میں پاور میں آنے کے بعد ستمبر میں نیویارک گئے۔ جہاں اوباما نے مودی کو  "Man of Action" کہا۔ پھر G20-summit آسٹریلیا میں ملاقات ہوئی اور اس کے بعد ایسٹ ایشیا سمٹ برما میں بھی ملے۔ نمبر تین دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات ہمیشہ سموتھ نہیں رہے ہیں۔ ماضی قریب ہی میں غالباً 2013ء کی بات ہے جب بھارتی ڈپٹی کونسل جنرل Devani khobragade کو نیویارک میں غلط ویزا کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔ جس کا انڈیا نے بھی بھر پور جواب دیا اور امریکی سفارتخانوں کی سیکیورٹی ہٹادی اور سفارتکاروں کو ملک بدر کرنے کی بھی دھمکی دے ڈالی۔ اس پس منظر میں اوباما کا یہ وزٹ اس لیے بھی اہمیت رکھتا ہے کہ اب دونوں ملکوں میں تواتر کے ساتھ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔نمبر چار، اس اہم وزٹ کا ایجنڈا ہے جس میں 4 ارب کی ٹریڈ اور دفاعی معاہدے ہیں۔ جس میں امکان ہے کہ ڈرون ٹیکنالوجی بھی بھارت کو دی جائیگی۔ انڈیا کا اس سے پہلے  milttary trandionally ally روس رہا ہے اور اب انڈیا اور روس کے دفاعی تعلقات بہت حد تک کمزور ہوچکے ہیں۔ 2008ء کے بعد سے انڈیا امریکا سے ہتھیار خرید رہا ہے اور ایک اندازے کیمطابق سات سے نو ملین کے ہتھیار انڈیا امریکا سے خرید چکا ہے۔ ایک اور اندازہ یہ بھی ہے کہ جو ہتھیار اور جنگی سامان افغانستان میں امریکا کے پاس ہیں، وہ بھی امریکا انڈیا کو فروخت کرسکتا ہے۔ انڈیا اس سلسلے میں کئی بار بات چیت بھی کرچکا ہے، لیکن اسکے مقصد کے حصول میں ایک رکاوٹ پاکستان ہے۔اسکے علاوہ سول نیوکلیئر معاہدہ ہے، جو دونوں ملکوں کے درمیان 2008ء میں سول جوہری پروگرام کے نام سے طے ہوچکا تھا، جس کیلئے شرائط اور قواعدو ضوابط کو حتمی شکل نہیں دی جاسکی تھی۔ اب امریکی صدر ایٹمی مواد پر ٹریکنگ ڈیوائس ہٹانے پر رضامند ہوگیا ہے۔ اس ٹریکنگ ڈیوائس کا مقصد افزودہ یورینیم کے غلط استعمال کو روکنا تھا۔ اس دورے میں امریکی صدر نے جوہری معاملات کے حوالے سے بھارت کو فری ہینڈ دے دیا ہے۔
پانچویں اہم بات، جس پر عمل درآمد تو شاید ویسے ممکن نہ ہو، مگر کچھ باتیں عمل سے زیادہ وزن رکھتی ہیں۔ وہ ہے بارک اوباما کی طرف سے بھارت کی سلامتی کونسل کی مستقل رکنیت کی حمایت۔ اس دورے میں یقینا یہ ایک پیش رفت ہے۔چھٹی بات جو میرے لیے سب سے قابل غور ہے، وہ یہ ہے کہ اسٹیٹ کی سطح پر تو دونوں ملکوں میں تعاون پر بات چیت ہوئی، مودی نے بھارتی عوام کے ساتھ بھی امریکی صدر کی  intereaction  کی بھرپور کوشش کی۔ بھارتی وزیراعظم ریڈیو پر ایک شو کرتے ہیں، جس کانا م ہے ـ ’’دل کی بات‘‘، اس بار انہوں نے ٹویٹ کیا کہ یہ شو اَب امریکی صدر اور مودی دونوں ساتھ کریں گے۔ یقینا اس سے انڈین وزیراعظم نے امریکا کو اپنے عوام کی طرف سے اپنائیت کا ایک پیغام دیا ہے۔ ساتویں اہم بات، ہوسکتا ہے کہ یہ روٹین کا میٹر ہو، مگر جب بھارتی ایوان صدر میں اوباما کو گارڑ آف آنر دیا گیا، اس وقت ایک بھارتی خاتون اسکواڈ کمانڈو کا اوباما کو اسکواڈ کرنا تھا۔ جس سے مودی کی طرف سے دنیا کو یہ پیغام دیا جارہا تھا کہ بھارت ایک گریٹ جمہوریت ہے۔ یہ پیغام اور میسج اوباما کو بھی دیا کہ وہ لبرل اور عورت کو برابری کی بنیاد پر ترقی کرنے اور آگے بڑھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔خطے پر اوباما کے دورے پر کیا اثرات ہوں گے؟ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ سامنے آئینگے، مگر پاکستان کی سیا سی اور خارجہ پالیسی کی ناکامی ضرور وا ضح ہوگئی ہے۔ اب پاکستان میں خارجہ پالیسی پاکستان کے سیاسی ہاتھوں میں نہیں ہے تو جو اس کی کامیابی کا کریڈٹ لیتے ہیں وہ کیا ناکامی بھی اپنے سر لیں گے؟ خیر ایسا تو ہو نہیں سکتا، مگر جس وقت بھارت دو بڑی جمہوری قوتوں کے اکٹھے ہونے پر جشن منارہا تھا، اس وقت ہمارے وزیراعظم مری یاترا پر تھے اور صرف مستقبل میں اپنی حکومت کو بچانے کیلئے مشرف کانام ای سی ایل سے نکال کر اپنی حکومت کو سہارا دینے کی کوشش کررہے تھے۔ رہے پاکستان کی آخری امید، سپہ سالار جنرل راحیل شریف تو وہ چائنیز آفیشل سے باہمی تعاون پر بات چیت کررہے تھے۔ جنرل راحیل شریف کی کوششوں کو خراج تحسین پیش کرنا چاہیے، جنہوں نے عالمی برادری کو یہ پیغا م دیا ہے کہ وہ خطے میں تنہا نہیں ہے۔ سیاسی قیادت کو بھارت کے اس جشن کو کاوئنٹر کرنا چاہیے تھا۔ اس وقت وہ خواب خرگوش کے مزے لے رہے تھے، جبکہ ہماری وزارتِ خارجہ دوسروں کی سفارتی کامیابی پر اپنے اور خطے پر مثبت اثرات بیان کررہے تھے۔ اب ایک بڑا چیلنج ہے کہ سیاسی حکومت اپنی ناکامیوں کا ازالہ کرے اور سفارتی روابط کو تیز کرے، جو کہ پاکستان کے مستقبل کیلئے اہم ہے۔

ای پیپر-دی نیشن