شیخ رشید کا نامناسب انداز بیان
ڈاکٹر زاہد حسن چغتائی
بسیار گوئی‘ جگت بازی اور یا وہ گوئی ہمارے معاشرے کا ایک غیر فطری چلن بن گیا ہے۔ جگت بازی کا رسیا چاہے کوئی کامیڈین ہو یا سیاستدان یا وہ گوئی کا کوئی موقع خالی جانے نہیں دیتا۔ اس حوالے سے بسا اوقات جگت باز شخص ایسے موضوعات اور معاملات کو بھی ہدف تنقید بنا بیٹھتا ہے‘ جن میں کہیں نہ کہیں تقدس اور احترام کا پہلو بدرجہ اتم موجود ہوتا ہے۔
اس تناظر میں شیخ رشید احمد کا کوئی ثانی ہے‘ نہ متبادل‘ موصوف اپنے مخالف سیاستدانوں کو زیر کرنے کیلئے بعض موقعوں پر اخلاقیات کی حدیں بھی عبور کر جاتے ہیں۔ ایسے میں انہیں وضعداری‘ باہمی احترام اور رشتوں کے تقدس کا بھی خیال نہیں رہتا۔ یہ بات بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ یا وہ گوئی اور جگت بازی کی سرحدیں وہیں سے شروع ہوتی ہیں جہاں دلیل اور ثبوت کے ساتھ بات کرنے کا حوصلہ دم توڑ جاتا ہے۔ اب دیکھئے وزیراعظم میاں نوازشریف کی سیاسی ناکامی اور انکی حکومت کے ڈوبنے کے کالے خواب دیکھنا آج کل شیخ رشید احمد کا وطیرہ ہے۔ اپنے ایک تازہ ترین بیان میں انہوں نے یہی کالا خواب دیکھتے ہوئے دیدہ دلیری کے ساتھ فرمایا ’’خدشہ ہے فوجی عدالتوں کو سپریم کورٹ ختم کر دیگی ایسا ہونے پر نواز شریف کی حکومت ختم ہو جائیگی اگر دونوں شریف (نواز شریف اور جنرل راحیل شریف) آمنے سامنے آئے تو پھر اس وقت ’’درود شریف‘‘ ہی پڑھا جائیگا۔‘‘ ذرا غور کیجئے نوازشریف دشمنی میں مسلم لیگ ن کے ڈوبتے اقتدارکا کالا خواب دیکھنا شیخ رشید کا سیاسی حق سہی لیکن اس مقصد کیلئے درود شریف کے لفظ میں ضم کا پہلو نکالنا اور اس کا تقدس ملحوظ خاطر نہ رکھنا آخرچہ معنی دارد؟
مسلمانان پاکستان کسی جگت باز کی گفتگو میں ذرہ برابر بھی گستاخی کا کوئی پہلو نکل آئے تو قطعاً برداشت نہیں کیا کرتے۔ چہ جائیکہ درود شریف ایسے مقدس عمل کو کسی معاملے میں نعوذ بااللہ طنز و مزاح کے پیرائے میں استعمال کیا جائے۔ درود پاک تو وہ فریضہ ہے جو اللہ کریم خود اپنے پاک لحن میں ادا فرماتا ہے۔ یہی وہ عمل ہے جس میں انتہائی سنجیدگی اور پاکیزگی قلب و نظر درکار ہوتی ہے۔ اس ضمن میں احتیاط کرنے والوں نے جس انتہا کے تقدس اور احترام کو ملحوظ خاطر رکھا اس کے تصور سے ہی روح میں ایمان ویقین کی نعمت در آتی ہے۔ کیا شیخ رشید نے متحدہ ہندوستان کے اس مسلمان بادشاہ کے بارے میں نہیں سُنا کہ جو اپنے ملازم محمد کو نام لیکر اس وقت پکارتا تھا جب وہ باوضو ہوتا تھا۔ کیا شیخ رشید نے مولانا احمد رضا خانؒ ایسے عاشق رسولؐ کی وہ وصیت نہیں سنی جس میں انہوں نے ہدایت فرمائی تھی کہ میری قبر قد آدم گہری کھو دی جائے۔
پوچھا گیا اعلیٰ حضرت اس میں کیا حکمت ہے؟ آپ نے فرمایا جب رسول پاکؐ میری قبر میں تشریف لائینگے تو کیا میں لیٹا یا بیٹھا رہوں گا۔ میں انکے احترام میں ایستادہ ہو جاؤں گا۔ شاید شیخ رشید احمد نے علامہ اقبال ایسے عاشق صادق کا یہ مصرح بھی نہیں پڑھا ‘ جس میں حکیم الامت نے فرمایا …ع
نفس گم کردہ می آید جنید و بایزید اینجا
شیخ رشید صاحب سن لیجئے پاکستانی معاشرے کا حسن ہی محبت رسولؐ ہے۔ ہر قول وفعل میں اور زبان وقلم کے ساتھ عشق رسولؐ کا دامن مضبوطی سے تھامنے والے ابھی اس ملک خداداد میں موجود ہیں۔ حرمت رسولؐ میں اگر کسی کی زبان کو لگام نہیں تو پھر ایسے شخص کو اللہ کی پکڑ میں آنے سے دنیا کی کوئی طاقت نہیں بچا سکتی۔ ا
للہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ پاکستان کے ہر پیدا ہونے والا بچے کے خون میں محبت رسولؐ کا رس فطری و جبلی طور پر موجود ہے۔ ابھی چند روز پہلے میرے ایک شاگرد احسان اللہ کے ہاں پہلا بیٹا تولد ہوا۔ اسکی والدہ محترمہ نے بچے کا نام مصطفیٰ تجویز کیا تاہم احسان اللہ نے اصرار کے ساتھ مجھے نام تجویز کرنے کیلئے کہا۔ میں نے مشورہ دیا کہ تمہاری والدہ محترمہ کا تجویز کردہ نام ہی مبارک ہے‘ البتہ مصطفیٰ سے پہلے محمد رکھ لو کہ ہر پیدا ہونیوالے مسلمان بچے کا پیدائشی نام محمد ہی ہوتا ہے۔ چنانچہ بچے کا نام محمد مصطفیٰ رکھ دیا گیا۔
میں نے اپنے شاگرد سے کہا مبارک ہو یہ نام محمد مصطفٰے تو نعتیہ زینت کا حامل ہے۔ اس بچے کو کبھی بھی نام لے کر بُرا بھلا نہ کہنا کہ اس نام کی نسبت اس ذات بابرکاتؐ سے ہے کہ جو وجہ کائنات ہے۔ طریقت‘ روحانیت اور تصوف میں نسبت ہی سب کچھ ہے۔ اسی لئے ایک عاشق رسولؐ نے کہا تھا کہ حجر اسود میں تجھے اس لیے چومتا ہوں کہ میرے رسولؐ نے تجھے بوسہ دیا تھا۔
درود شریف کی حرمت وعزت کا پاس ہر مومن و گنہگار مسلمان کی متاع بے بہا ہے۔ بسیار گوئی جستہ جستہ یا وہ گوئی کا روپ دھار لیتی ہے۔ پاکستان میں ایسے عاقبت نااندیش سیاست دانوں اور نام نہاد دانشوروں کی کمی نہیں جو لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کیلئے یاوہ گوئی اور جگت بازی کا سہارا لیتے ہیں۔ انہیں بسا اوقات اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ وہ جو فلسفہ بگھار رہے ہیں یا لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کیلئے جگت بازی کے پیرائے میں بات کررہے ہیں وہ کتنی نازک اور ملائم ہے۔ ہر لفظ تول کر بولنے والے ایسا نہیں کرتے۔
جلد باز اور جذبات کی رو میں بہہ جانیوالے لوگوں کی زبان ہی قابو میں نہیں رہتی۔ بات کرکے اس پر غور کرنا عقلمندی نہیں بلکہ بات کرنے سے پیشتر اسے میزان پر رکھ کر جانچنا عقل مندوں کا شیوہ ہے۔
مسلمان کا وطیرہ ہے کہ رسول اکرمؐ کے حوالے سے جو بھی بات کرے اسکے ہر پہلو کے تقدس کو پورے ایمان و یقین کے ساتھ ملحوظ خاطر رکھے۔ قرآن حکیم نے ایسے لوگوں کو ایمان سے خارج کر دینے کا عندیہ دیا جو رسول اکرمؐ کی آواز سے اونچی آواز میں بات کرتے تھے۔
اس قرآنی اصول کے تحت رسولؐ کی حرمت ایمان کی اصل جہت قرار پاتی ہے۔ جو بھی مسلمان اس امر کا خیال نہیں رکھتا گویا خود کو ایمان سے خارج سمجھے۔ اس لیے شیخ رشید اور اس قبیل کے دیگر لوگوں اور عوام نمائندوں کو چاہیے کہ وہ گفتگو کی شائستگی کو ہی اپنے نطق کی زینت بنائیں اور جگت بازی کو اس نہج پر نہ لے جائیں جہاں یہ ایمان ویقین کو مجروح کرنے کا سبب بنے۔ اگر ایسے سیاستدانوں کی بات جگت بازی کے بغیر کوئی نہیں سنتا تو انہیں چاہیے کہ سیاست سے کنارہ کش ہو کر توبہ استغفار کریں کہ یہی ان کیلئے اچھا ورد ہے۔