شاخ کھلنے کے باوجود پاکستانی حکام داعش پر بات کرنے سے گریزاں
اسلام آباد (نیٹ نیوز + بی بی سی) پاکستان اور افغانستان میں دولت اسلامیہ کی نئی شاخ کھلنے پر سرکاری سطح پر وہی ردعمل دکھائی دے رہا ہے جو یہاں طالبان کے جڑیں پکڑنے کے وقت سامنے آیا تھا۔ بی بی سی کے مطابق ریت میں سر چھپانے سے شاید یہ تنظیم بھی ہوا تحلیل نہیں ہو جائے گی۔ پاکستانی حکام داعش پر بات کرنے سے گریزاں ہیں۔ حکومت کی طرف سے اس مسئلے پر کھل کر بات نہ کرنے سے خدشہ یہی ہے کہ لوگوں کا یہ شک بڑھے گا کہ کیا اسے کسی کی سرپرستی تو حاصل نہیں۔ شام اور عراق میں بڑے علاقے پر قبضہ جمانے والی دولت اسلامیہ کی پاکستان میں حمایت کی پہلی نشانی خیبر پی کے کے جنوبی اور وزیرستان سے جڑے علاقے بنوں میں وال چاکنگ کی صورت میں دکھائی دی۔ حکام نے اس پر فوراً راتوں رات چونا پھیر دیا۔ یہی صورت حال بعد میں کراچی اور پشاور میں بھی جگہ جگہ دکھائی دی مگر تحریری صورت میں پہلی بار اس تنظیم کی جانب سے پشاور اور افغانستان میں کتابچے شائع اور تقسیم ہوئے ہیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے نے اس پر بات کرنے کیلئے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ اس مسئلے کو سکیورٹی ادارے دیکھ رہے ہیں، وہی بات کریں گے۔ وزیراعلیٰ خیبر پی کے کی جانب سے تجویز آئی کہ ترقیاتی منصوبوں پر بات کر لیں۔ بی بی سی کے مطابق پاکستانی سیاست دان جس طرح سے اپنی گرفت اور حیثیت کھو رہے ہیں، یہ واقعہ شاید اسکی بہترین مثال ہے۔ اعتماد کی کمی اور حالات کا ادراک نہ ہونے سے دیگر ریاستی اداروں کو آگے آنے کا موقع مل رہا ہے۔ یہ بھی ایسے صوبے میں جو شدت پسندی سے سب سے زیادہ متاثرہ علاقوں میں سے ہے۔ جو شدت پسند پکڑے جا رہے ہیں، ان کی ڈوریاں ہلانے والے بے نقاب ہونے چاہئیں تاکہ قوم کو معلوم ہو کہ مسئلہ کتنا گھمبیر ہے۔ قالین کے نیچے گرد چھپانے سے مسائل حل نہیں ہوتے، بلکہ مزید ابتر صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ پہلے ہی افغانستان کے بعض لوگ دولت اسلامیہ کو غیرملکی سازش کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ اگر اس کا مقابلہ نہ ہوا تو وہی ہوگا جو گذشتہ تین دہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے۔
داعش / پاکستانی حکام