بچپن کے ساتھ درندگی کیلئے بھی فوجی عدالتیں
آج ضیا شاہد کے اخبار میں گرین ٹائون کے چھ سال کے بہت پیارے معین کی معصوم مگر نیم برہنہ لاش پھندے سے لٹکتی ہوئی دیکھی تو صدر اوبامہ کی سیاسی محبت سے آلودہ باتیں مجھے بھول گئیں جو انہوں نے بھارت کی ’’فوری دوستی‘‘ کے دھوکے میں کہیں اور اپنے بہادر اور لیڈر جرنیل راحیل شریف کے کامیاب ترین دورۂ چین کے حوالے سے بات کرنا چاہتا تھا اور یہ بات ضرور کروں گا۔ یہ بھی بتائوں گا کہ ایک سیاستدان اور ایک جرنیل کے دورے میں کیا فرق ہے۔ وہ آرمی پبلک سکول میں دہشت گردی کے فوراً بعد افغانستان گئے اور اب فوری طور پر چین گئے۔ اس کے لئے سیاستدان نے بھی اطمینان کا اظہار کیا اور یہ اظہار اطمینان بھی قابل ذکر ہے کہ جنسی تشدد اور پھانسی کے بعد معصوم معین کے قاتل حجام کے بیٹے شعیب کو پولیس مقابلے میں قتل کرنے پر مقتول کے والدین نے اظہار اطمینان کیا۔ ’’اس طرح ہمارا بچہ تو واپس نہیں آئے گا مگر آئندہ ایسے مجرم کئی بار ظلم کرنے سے پہلے کئی بار سوچیں گے۔
یہ تصویر چھاپنے پر بھی بہت دفاعی انداز میں معمولی سا اعتراض سامنے آیا ہے۔ انہوں نے قاتل کے ماورائے عدالت قتل پر بھی اعتراض کیا ہے۔ ماورائے عدالت قتل کے میں بھی خلاف ہوں مگر عدالت نے ایسے کتنے واقعات میں انسان نما درندوں کو سزا دی ہے۔ اس پر بھی بحث کی جا سکتی ہے کہ اس میں بھی اصل ذمہ دار کون ہے مگر قاتل درندوں کو کیفر کردار تک تو نہیں پہنچایا جاتا بلکہ پہنچایا جا نہیں سکتا۔ یہ تصویر دیکھ کر وہ نفرت جو انسانی درندوں کے خلاف دل میں ابلتی رہتی ہے مزید ابل کر باہر آ گئی ہے۔
مجھے یقین ہے کہ اس سے پہلے سینکڑوں ایسے واقعات کی طرح یہ سانحہ بھی بھولی کہانی بن جائے گا۔ کسی جانور کے بچے کے ساتھ کوئی درندہ ایسا ظلم نہیں کرتا۔ تو یہ انسان درندوں سے بڑے درندے ہیں۔ درندوں پر مقدمہ نہیں چلایا جاتا۔ انہیں گولی مار دی جاتی ہے۔ ایسے ظالمانہ سانحوں کے لئے ہمارے خادم پنجاب وزیراعلیٰ شہباز شریف بھی مظلوم خاندان والوں کے پاس جاتے ہیں۔ یہ ایک اچھی روایت ہے۔ مظلوموں کی دلجوئی کرنا بہت مستحسن عمل ہے۔ مگر مجھے تو معلوم نہیں کہ اس کے بعد بھی کسی انسانی درندے کو سزا دینے کے لئے کوئی پھرتی دکھائی گئی ہے۔ لوگ اہلکاروں کی ’’آنیاں جانیاں‘‘ دیکھتے رہتے ہیں اور صبر کر لیتے ہیں۔ صبر کرنے کا فائدہ صبر کرنے والے کو ملتا ہے۔ اب تو صبر کا اجر بھی نہیں ملتا۔ ہماری کوئی دعا بھی قبول نہیں ہوتی۔ کہتے ہیں کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے مگر شاید ہم سب کو شوگر ہو گئی ہے۔ امیر لوگ تو س سے بھی سبق نہیں سیکھتے۔ ’’اس کی چار شوگر ملیں ہیں مگر بے چارے کو شوگر ہو گئی ہے۔‘‘ قانون کی حکمرانی قانون توڑنے والوں پر نہیں ہوتی جن کے خلاف قانون توڑنے کی سرگرمی ہوتی ہے۔ قانون کی حکمرانی صرف انہی پر ہوتی ہے۔
ایک تو ہمارے ملک میں فارن فنڈڈ این جی اوز نے قیامت مچا رکھی ہے۔ خاص طور پر این جی اوز والوں نے اندھیر مچا رکھا ہے۔ ان کے خیال میں قاتل کے حقوق ہوتے ہیں۔ ان کے لئے اس میں ناحق کرنا بھی جائز ہے۔ مقتول کے تو کوئی حقوق نہیں ہیں۔ چھ سال کے معین نے کوئی جرم نہیں کیا ہو گا۔ تو پھر اس کے ساتھ یہ جرم جو درندگی سے بڑھ کر ہے کیوں کیا گیا۔ وہ درندہ کسی طور پر قابل معافی نہیں تھا۔ پھانسی تو قاتل کو دی جاتی ہے۔ چھ سال کے معصوم اور پھول جیسے بچے نے کس کو قتل کیا ہو گا؟
ہمارا معاشرہ کتنا گھنائونا اور بدصورت ہو گیا ہے۔ جنگل میں بھی کوئی قانون ہوتا ہے۔ وہاں فطرت کی حکمرانی تو ہوتی ہے۔ وہی کچھ ہوتا ہے جس کا رواج ہے۔ جو ہوتا چلا آ رہا ہے۔ مگر انسانوں کے جنگل میں وہ کچھ ہو رہا ہے جو نہیں ہوتا۔ اور نہیں ہونا چاہئے۔ جو انہونا ہے۔ اب یہاں انہونی ہونی بنتی جا رہی ہے۔ یہ تصویر دیکھنے کی ہمت حوصلہ مجھ میں نہیں ہے۔ مگر میں نے یہ تصویر بار بار دیکھی ہے۔ اور اپنے آپ کو لعنت ملامت کی ہے۔ جنسی درندہ اور اندھا قاتل ہمارے درمیان رہتا تھا۔ ایسے کئی جانور ہمارے درمیان رہتے ہیں۔ یہ جو کچھ کرتے ہیں وہ سنا بھی نہیں جاسکتا تو ان کے ساتھ ایسا حیوانی وحشیانہ سلوک ہو جو ہم سے سنا نہ جا سکے مگر ہم سنیں اور خوش ہو جائیں۔ جن بے حال والدین نے اپنے چھوٹے سے بچے کو پھانسی دینے والے کے قتل پر اظہار اطمینان کیا ہے۔ یہ میرے لئے بھی اور ساری سوسائٹی کے اطمینان بخش ہے۔
خدا کی قسم میرا پوتا پوتی نواسہ نواسی گھر میں ہوتے ہیں۔ میں انہیں دیکھ دیکھ کے زندہ ہوتا ہوں مگر میں اس فکر میں پڑا رہتا ہوں کہ یہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ وہ ذرا سا نظر نہیں آتے تو میری بے قراری مجھ سے سنبھل نہیں سکتی۔ یہ کیا معاشرہ ہے جہاں پھول نہ کھلنے دیے جائیں۔ پرندوں کے معصوم بچوں کو اڑنے نہ دیا جائے۔ جہاں پرندوں اور پھولوں جیسے بچوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک کیا جائے۔ میں شرمندہ ہوں میں شرمندہ ہوں۔ اب مجھے یہ بھی محسوس نہیں ہوتا کہ میں زندہ ہوں یا شرمندہ ہوں۔ زندہ ہونے اور شرمندہ ہونے میں فرق نہیں رہا۔ دوسری طرف زندہ ہونے اور درندہ ہونے میں بھی فرق مٹ گیا ہے۔
میں معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں کہ یہ ماورائے عدالت بات نہیں۔ قانون کے خلاف بھی نہیں۔ ننھے پیارے معین کے والدین کے آنسو میرے قلم میں تڑپ رہے ہیں۔ آئندہ ایسے درندے کو سرعام پھانسی دو۔ معین کی پھانسی پاتے ہوئے تصویر میری اس گمشدہ آرزو کی گواہی ہے۔ گندی لاشیں پورا دن لٹکتی رہیں تو پھر میں دیکھوں گا کہ کوئی انسان ایسا ظلم کرے گا۔ خدا کی قسم ظالم بہت بزدل ہوتے ہیں اور بہادر کبھی ظالم نہیں ہوتے۔ ہمیں ظالموں اور بزدلوں کی ضرورت نہیں ہے جو ظالموں اور بزدلوں کی حمایت میں بولتے ہیں۔ وہ بھی ظالم اور بزدل ہیں۔ یہ دہشت گردی سے بڑی دہشت گردی ہے۔ ظالم مجرم شعیب دہشت گرد تھا اور وحشی بھی تھا۔ اس بڑی دہشت گردی کے لئے بھی فوجی عدالتیں بنائی جائیں۔ بچپن کو پھانسی دینے والوں کو بھی پھانسی دی جائے۔ پھر بھی کوئی ایسا ظلم ہوتا ہے تو مجھے سرعام پھانسی دے دی جائے۔ میں ایسے معاشرے میں زندہ رہنا نہیں چاہتا۔ مجھے یہاں زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔ میرے بھائی تخلیقی شخصیت اور انوکھے شاعر شعیب بن عزیز نے شاید میرے لئے کہا ہے:
خوف اور لالچ کے درمیاں نہیں رہنا
یہ جہاں ہو جیسا بھی اب یہاں نہیں رہنا