غیرسرکاری ایوارڈ زیادہ قدروقیمت رکھتے ہیں
ہیومین رائٹس سوسائٹی آف پاکستان ایک این جی او ہے مگر یہاں ایک ادارے کی طرح کام کیا جاتا ہے۔ اس کے 34ویں ایوارڈ اجلاس میں سوسائٹی کے چیئرمین ایس ایم ظفر نے گہری مگر ہلکی پھلکی باتیں کرتے ہوئے کہا کہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ابھی تک تالیاں بجانے پر ٹیکس نہیں لگایا۔ اس کے بعد بھی اہم خواتین و حضرات نے خاص طور پر تالیاں نہیں بجائیں۔ اس اجلاس میں جو آ جاتی ہے یا آ جاتا ہے تو وہ خود بخود اہم ہو جاتا ہے۔ تالیاں بجیں جب مسنگ پرسنز کے لئے بے مثال جدوجہد کرنے والی دلیر اور کمپلیکس فری خاتون آمنہ مسعود جنجوعہ اور بہترین سوچ اور لطف کے امتزاج سے کارٹون بنانے والے ادیب جاوید اقبال کو ایوارڈ وصول کرنے کے لئے بلایا گیا خوب تالیاں بجیں۔ جاوید اقبال نے کہا کہ مجھے سرکاری ایوارڈ بھی ملتے ہیں مگر اس غیرسرکاری ایوارڈ کی جو اہمیت اور عزت میرے دل میں ہے وہ بہت زیادہ ہے۔ یہ بات معروف سینئر صحافی خاور نعیم ہاشمی نے بھی کہی تھی جو شہید صحافی ولی بابر کے لئے ایوارڈ وصول کر رہے تھے۔ انہوں نے کہا کہ میں نے خود ایوارڈ لیا تھا مگر آج زیادہ خوشی ہو رہی ہے۔ صحافیانہ سچ اور بھٹو کے ساتھ عشق میں خاور نے بھی کوڑے کھائے تھے۔ یہ بھی ایک ایوارڈ ہی ہے۔ جاوید نے فرانس میں چھاپے جانے والے قابل اعتراض کارٹون چھاپنے کے حوالے سے کہا کہ یہ صحافیانہ بددیانتی ہے۔ ہم کارٹون بناتے ہوئے کوشش کرتے ہیں کہ کسی فرد واحد کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ توہین آمیز کارٹون چھاپ کر اربوں کی تعداد میں مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی گئی ہے۔ عشق و مستی سے سرشار مسلمان خاص طور پر پاکستانی مسلمان اس کے لئے آخری حد تک جانے کے لئے تیار ہیں مگر حکمرانوں نے صرف رسمی بیانات کے علاوہ کوئی جرات اظہار نہیں کی۔ آزادی اظہار کے مقابلے میں جرات اظہار زیادہ طاقتور جذبہ ہے۔ سوسائٹی میں ایس ایم ظفر کی موجودگی نے اس ایوارڈ کی قدر و قیمت میں اضافہ کر دیا ہے۔ جاوید اقبال کا کارٹون ایک مکمل کالم کی طرح ہوتا ہے۔ اس کے لئے جتنا غور کرتے چلے جائیں اس کے معانی اور دلچسپی میں اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔ ایک زمانے میں جاوید اقبال نے نوائے وقت کے لئے بھی کارٹون بنائے تھے۔ صحافت کو کئی کالم نگار، ایڈیٹر اور کارٹونسٹ نوائے وقت کا ایک تحفہ ہیں۔ جاوید اقبال کے تعارف کے لئے زاہد شمسی نے بڑی گرمجوشی سے تحریر پڑھی تھی۔
آمنہ مسعود جنجوعہ کے لئے تعارف نامہ سید عاصم ظفر نے پیش کیا جیسے یہ الفاظ سب حاضرین کے دل کی آواز ہوں۔ آمنہ بی بی کی بہت عزت لوگوں کے دل میں ہے۔ انہوں نے اپنے ذاتی دکھ کو دوسروں کے دکھوں میں ملا دیا ہے۔ ان کے خاوند لاپتہ ہوئے جس کے لئے گمشدہ کا لفظ زیادہ مناسب ہے جو ہمسفر ہو، شریک حیات ہو۔ اس کے انتظار میں جو اضطرار ہے اسے اضطراب بنانے میں سارے گمشدہ حضرات کو اس تحریک میں یاد رکھنا ضروری تھا۔ آمنہ نے اپنی یاد یادوں میں ملا دی ہے۔ جس طرح میرے قبیلے کے سردار شاعری کے خان اعظم منیر نیازی نے کہا ہے۔
بے مثال قریوں کے بے کنار یادوں کے
اپنے خواب لوگوں کے خواب میں ملا دوں گا
ظفر صاحب نے کہا کہ اندھیروں کو دور کرنے کی خواہش میں کئی چراغ جلانے پڑتے ہیں۔ کوئی پھل حاصل کرنے کے لئے درخت ہلانے پڑتے ہیں۔ یہ سب کام آمنہ مسعود جنجوعہ کر چکی ہیں۔ چراغ بھی جلے ہیں، پھل بھی گرے ہیں۔ آمنہ کو تو ابھی یہ بتایا گیا ہے کہ صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے۔ یہ بات وہ لوگ کہہ رہے ہیں جن کو شوگر ہو چکی ہے۔ ’’اور چراغ تو صرف قبروں پر جلائے جاتے ہیں۔‘‘ آمنہ جن لوگوں کے اندر روشنی دیکھنا چاہتی ہے ان کے باہر بھی اندھیرے ہیں۔ صرف ایک بات عرض ہے کہ اغوا کرنے والے اغوا برائے تاوان والے بھی ہوتے ہیں۔ بندے اٹھانے کا شوق سیاستدانوں کو بھی ہے۔ کچھ لوگ الزام صرف فوج پر ڈال دیتے ہیں۔ اس سے پریشانی پیدا ہوتی ہے۔ فوج کو بدنام کرنے کے لئے نجانے کیا کیا طریقے نکل آئے ہیں۔ معروف آرٹسٹ ثمینہ پیرزادہ نے شرمین عبید چنائے کے لئے تعارف پڑھا مگر وہ نہ آئی۔ اسے اس ایوارڈ کی اصل اہمیت کا علم نہیں ہے۔ اس کا ایوارڈ مسرت مصباح نے وصول کیا۔ یہ ایوارڈ بھی مسرت مصباح کو ملنا چاہئے تھا۔
یہ غیرسیاسی ایوارڈ ایک سیاسی شخصیت کو بھی دیا گیا مگر شاید ایوارڈ دینے والوں کے سامنے خیبر پختون خوا کے میاں افتخار حسین کی غیرسیاسی معرکہ آرائی تھی۔ انہوں نے قتل ہونے والے اپنے بیٹے کے لئے جو صبر کیا اس کا انداز بالکل غیرسیاسی تھا۔ انہوں نے اتنا ضبط و تحمل دکھایا کہ زیادہ افسوس غیرسیاسی لوگوں نے کیا۔ ان کے لئے صدر بار ایسوسی ایشن لاہور شفقت چوہان نے تعارف میں غیرسیاسی معاملات کی بات کی۔ میں نے میاں صاحب سے پوچھا کہ میاں تو پنجاب میں ہوتے ہیں۔ تو انہوں نے بہت دلچسپ بات کی کہ خیبر پختون خوا میں لوگ میاں عزت کے لئے کہلاتے ہیں اور پنجاب میں دولت کے لئے پہچانے جاتے ہیں۔ میں یہاں افتخار حسین سے عرض کروں کہ ایوارڈ کی بھی اہمیت اپنی جگہ مگر پاکستان میں اہمیت ریوارڈ کی بھی بنانا چاہئے۔ ایوارڈ تو مل جاتے ہیں ریوارڈ نہیں ملتا۔
حسب معمول اس تقریب میں ہمیشہ تنویر عباس تابش کی باتیں بہت دلچسپی سے سنی جاتی ہیں۔ وہ تقریب کی کمپیئرنگ ایک فرض کی طرح کرتے ہیں۔ فرض کو عبادت بنانا آسان ہے مگر عبادت میں ذوق و شوق کی کیفیت ملا دینا ایک فن ہے۔ اور یہ فن تنویر عباس تابش کو بہت آتا ہے۔ میری تجویز ہے کہ آئندہ ایوارڈ کمیٹی اسے بہترین کمپیئرنگ کے لئے ایوارڈ عطا کرے۔ اس سوسائٹی کے لئے مہناز رفیع، ہمایوں احسان اور شکوری صاحب نے بہت خدمات سرانجام دی ہیں۔ ایوارڈز تقریب میں امجد اسلام امجد نظم سناتے ہیں۔ اور ظفر علی راجہ ایک مزاحیہ غزل پڑھتے ہیں اور محفل کشت زعفران بن جاتی ہے۔ راجہ صاحب سوسائٹی کے اغراض و مقاصد کو ہمیشہ ذہن میں رکھتے ہیں۔
تقسیم ہو رہی تھیں کھجوریں حقوق کی
تابش چرا کے لائے چھوارا حقوق کا
ایس ایم ظفر کا فیض نظر ہے اسی لئے
اب تک چمک رہا ہے ستارہ حقوق کا