ملٹری کورٹس کی صورت میں منی مارشل لا لگا دیا گیا: عاصمہ جہانگیر
لاہور (وقائع نگار خصوصی) آل پاکستان وکلاء کنونشن کا انعقاد لاہور ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے زیر اہتمام کیا گیا۔کنونشن سے خطاب میں عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ کیا آمروں کا کام یہ ہے کہ وہ ہمارے سروںکے اوپر لوہے کی ٹوپیاں پہنائیں، 21ویں ترمیم کے ذریعے سیاست کو ملٹرائزڈ کرنے کی کوشش کی گئی ہے جس کا کوئی جواز نہیں ہے پشاور میں فوجی سکول پر حملے کا یہ مقصد نہیں تھا کہ عدالتوں میں انصاف نہیں مل رہا۔ ہمارا عدالتی نظام ناقص ہے، عدالتیں اگر انصاف فراہم نہیں کرتیں تو ملٹری کورٹس کا قیام کر دیا جائے یہ کہاں کی حکمت عملی ہے۔ ملٹری کورٹس کے قیام کے بعد بنیادی حقوق سلب کئے گئے ہیں جسے کسی طور قبول نہیں کیا جائے گا ہم سے زیادہ دہشت گردی کے خلاف کوئی نہیں ہے ملٹری کورٹس ماضی میں بھی بنائیں گئیں لیکن اس سے کیا ہوا کوئی مثبت پیش رفت نہیں ہو سکی فوجی عدالتیں جب چاہے جسے چاہے کسی کو بھی بلیک، گرے ، یا وائٹ قرار دے دیں۔ پارلیمنٹ جو دعوے لے کر آئی تھی ان پر کیا کیا اور اب جو کالے کوٹ پہن کر پارلیمنٹ میں چوہے بنے بیٹھے ہیں اور دوسروں نے کہا کہ ہم نے ملٹری کورٹس بنانے کے حق میں ووٹ دیا اس حوالے سے شرمندہ ہیں، یہ 21ویں ترمیم کا معاملہ نہیں ہے پارلیمنٹ میں جو شیر موجود ہیں وہ گیدڑ بنے کیوں بیٹھے ہیں ہمیں تجربات سے سبق سیکھنا ہو گا ماضی میں ایسے اقدم کا ہم فلمی ٹریلر دیکھ چکے ہیں صرف میڈیا پر حکمرانی نہیں ہے ہر جگہ پردہ نشین بیٹھے ہیں ملٹری کورٹس کی صورت میں منی مارشل لاء لگا دیا گیا ہے۔ حکومت کی جانب سے جنگلہ بس سمیت دیگر منصوبوںکے لیے وسائل بروئے کار لائے کیا دہشت گردی کے خاتمے کے لیے ایسے اقدمات کئے گئے؟ کیا عدالتی نظام میں اصطلاحات کے لیے ایسے وسائل بروئے کار لائے گئے۔ عابد حسن منٹو نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے قیام کے حوالے سے سپریم کورٹ میں درخواست کی سماعت کے لیے لارجر بنچ ہونا ناگزیر ہے فوجی عدالتیں آئین سے متصادم ہیں۔ سول حکومت نے سیاسی جماعتوں کی مدد سے فوج کو آئین کے اندر جگہ دی۔ پاکستان بار کونسل کے وائس چئیرمین اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ماضی کی روایات کو برقرار رکھتے ہوئے آج بنیادی آئینی ڈھانچہ کی تبدیلی کے خلاف نعرہ بلند کر رہے ہیں کالے کوٹ نے ہمیشہ آئین کے تحفٖظ، قانون کی پاسداری کے لیے جدوجہد کی ہے ہمیں جوش سے نہیں بلکہ ہوش سے کام لینا ہے ہمیں خود احتسابی بھی کرنا ہے۔ ملٹری کورٹس کے قیام کے خلاف نیشنل کوارڈینیٹر کمیٹی تشکیل دے رہے ہیں۔ حامد خان نے کہا کہ ملٹری کورٹس کے قیام کے خلاف لاہور ہائی کورٹ بار نے قرارداد پاس کرکے قابل ستائش اقدام کیا ہے۔ سول حکومت نے گھٹنے ٹیک دئیے ہیں۔ جب تک یہ ملٹری کورٹس قائم ہیں وکلاء اس کے خلاف ہر جمعرات کو یوم سیاہ منائیں گے۔ سید منظور علی گیلانی نے کہا کہ وکلاء نے ہمیشہ قوم کو قیادت فراہم کی ہے۔ کنونشن میں منظور قرارداد میں وکلاء نے21ویں آئینی ترمیم اور ملٹری کورٹس کے قیام کو یکسر مسترد کردیا گیا۔ قرارداد کے مطابق کنونشن کے شرکاء کی رائے ہے کہ 21 ویںآئینی ترمیم بنیادی انسانی حقوق کے منافی ہے اور آئینی ڈھانچے سے متصادم ہے۔ ملک بھر کے وکلاء عہد کرتے ہیں کہ وہ آئین کی بالادستی اور قانون کی حکمرانی کیلئے جدوجہد جاری رکھیں گے۔ موجودہ عدالتی نظام کو بہتر انداز میں چلانے کیلئے وکلاء عہد کرتے ہیں کہ غیر ضروری ہڑتالوں سے گریز کریں گے اور آئندہ ہڑتال کا فیصلہ نیشنل کوآرڈینیشن کمیٹی فیصلہ کرنے کے مجاز ہو گی۔ وکلاء برادری دہشت گردی کی پرزور مذمت کرتی ہے اور اس جنگ میں مسلح افواج کے ساتھ ہیں مگر سیاسی معاملات میں مداخلت کو فوج کے وقار کے خلاف سمجھتے ہیں۔