• news

اب امریکہ کا رجحان بھارت کی طرف ہے: سیکرٹری خارجہ

اسلام آباد (سٹاف رپورٹر) سینٹ کی مجلس قائمہ برائے خارجہ امور نے امریکی صدر بارک اوباما کے حالیہ دورہ بھارت اور پاکستان کو مکمل نظرانداز کرنے کے معاملہ پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے  مجلس قائمہ کو بتایا کہ اب امریکہ کا رجحان بھارت کی طرف ہے۔ مجلس قائمہ کا اجلاس  اس کے سربراہ حاجی عدیل کی زیر صدارت ہوا۔ سیکرٹری خارجہ اعزاز چودھری نے مختلف امور پر بریفنگ دی۔ انہوں نے شرکاء کو بتایا کہ وزیراعظم کا دورہ بحرین اہمیت کا حامل تھا۔ بحرین پاکستان میں ہسپتال بنا رہا ہے۔ سرمایہ بحرین حکومت فراہم کرے گی بحرین کی ٹیم ہسپتال کے قیام کے حوالے سے جلد پاکستان کا دورہ کرے گی۔ بحرین پاکستان کے اہم شعبوں دفاعی پیداوار، توانائی میں سرمایہ کاری میں دلچسپی رکھتا ہے۔  امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے دورہ پاکستان کے حوالے سے انہوں نے قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ 2011 میں دونوں ممالک کے درمیان تلخی رہی تھی۔ 2013 میں جان کیری نے پاکستان کا دورہ کیا تھا جس سے تعلقات کی بحالی شروع ہو گئی تھی۔ اُن کے حالیہ دورے کے دوران پاکستان نے اپنے خدشات سے آگاہ کرتے ہوئے کہا کہ امریکہ کا بھارت کی طرف بڑھتا ہوا رجحان خطے میں عدم توازن کا باعث بنے گا۔ امریکہ  اہم ملک ہے اس کو پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کم کرنے میں کردار ادا کرنا چاہیے۔ امریکہ پر واضح کر دیا ہے کہ اگر خطے میں عدم توازن بڑھے گا تو امن و سلامتی کو بھی خطرہ ہوگا۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات مثبت سمت میں جا رہے ہیں اچھے تعلقات کیلئے دونوں اطراف سے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ دونوں ممالک نے اعادہ کیا ہے کہ دہشت گردوں کو اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیں گے،  دونوں ممالک کے درمیان تجارت کے فروغ کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں۔ چین کے ساتھ تعلقات بہت اچھے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان تجارتی تعلقات وقت کے ساتھ فروغ پا رہے ہیں۔ چین پاکستان میں دفاع، توانائی، مواصلات کے علاوہ دیگر شعبوں میں سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ آرمی چیف کا دورہ چین دونوں ممالک کے برادرانہ تعلقات کی مثال ہے۔ ایران کے ساتھ معاملات کو آگے بڑھانے کے لئے دونوں ممالک اقدامات کر رہے ہیں۔ بھارت کے ساتھ تعلقات میں کامیابی نہیں ملی ابھی دونوں ممالک کے درمیان کوئی رابطہ نہیں  ہوا باہمی احترام اور مفاد کی بنیاد رابطوں کو آگے بڑھایا جائے گا۔ وزارت خارجہ نے جو بیانات جاری کئے ہیں وہ  عوام کے جذبات کی عکاس ہیں۔ عرب ممالک کے ساتھ پاکستان کی خارجہ پالیسی مثبت سمت میں جاری ہے۔ ارکان کمیٹی نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کی جنگ میں ہمیشہ امریکہ کا ساتھ دیا ہے مگر امریکہ کے صدر کا صرف بھارت تک کا دورہ اور پاکستان کو نظر انداز کرنا تشویش کا باعث ہے۔ رکن کمیٹی سینیٹر سحر کامران نے کہا کہ امریکی سفیر کو کھل کر اپنے تحفظات سے آگاہ کرنا چاہیے۔ بھارت کی پاکستان میں دہشت گردی کے ثبوت اُن کو فراہم کرنے چاہئیں۔ سینیٹر بابر غوری نے کہا کہ جب سے پاکستان بنا ہے ہم امریکہ کے کیمپ میں ہیں اور ہر حال میں دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا ساتھ دیا ہے مگر امریکہ کا رجحان بھارت کی طرف ہے۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ اب صورتحال تبدیل ہو چکی ہے۔ امریکہ ہمیں ڈومور نہیں کہتا بلکہ ہم اُن کو ڈومور کہتے ہیں۔ امریکہ کے بھارت کے ساتھ معاہدے پر ہم نے کھل کر بیان جاری کیے ہیں اور پاکستان کہیں بھی دنیا میں ہونے والی دہشت گردی کی حمایت نہیں کرتا۔ تمام ہمسایہ ممالک کے ساتھ بہتر اور پرامن تعلقات کا خواہاں ہے۔ محمد جہانگیر بدر نے کہا کہ پی آئی اے نے اپنی بارسلونا میں اپنی فلائٹ بند کر دی جس سے پاکستانیوں کی بڑی تعداد متاثر ہو گی۔ اس بارے قائمہ کمیٹی کو تفصیلی آگاہ کیا جائے۔  اجلاس میں راجہ محمد ظفر الحق، سینیٹرز بابر خان غوری، مسز سحر کامران، ڈاکٹر محمد جہانگیر بدر اور ملک محمد رفیق رجوانہ کے علاوہ سیکرٹری خارجہ امور اعزاز احمد چودھری، سیکرٹری پلاننگ ڈویژن حسن نواز تارڑ ، ایڈیشنل سیکرٹری خارجہ امور محمد عاقل ندیم  کے علاوہ دیگر اعلیٰ حکام نے شرکت کی۔ اعزاز احمد چودھری نے کہا کہ امریکہ پاکستان کو بائی پاس نہیں کر سکتا۔ پہلا موقع ہے کہ پاکستان امریکہ سے ڈومور کا مطالبہ کر رہا ہے۔ واضح کر دیا ہے  خطے کے بارے میں امریکی فیصلوں سے عدم توازن پیدا ہو رہا ہے۔ پانچ بڑے ممالک اور یورپی یونین کو امریکی صدر کے دورہ بھارت پر پاکستانی خدشات سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔کمیٹی نے امریکی صدر کے افغانستان کے معاملے پر بھارت کو پراعتماد ساتھی قرار دینے کے بیان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے پاکستان کی خارجہ پالیسی کی ناکامی قرار دے دیا ہے۔ اراکین بشمول چیئرمین کمیٹی سینیٹر حاجی عدیل نے اس معاملے پر امریکی سفیر کی دفترخا رجہ میں طلبی اور پاکستانی عوام کے خدشات سے باضابطہ طور پر آگاہ کرنے کا مطالبہ کیا۔ سیکرٹری خارجہ نے واضح کیا کہ امریکہ کے بھارت کے ساتھ بڑھتے ہوئے یکطرفہ دفاعی تعاون سے خطے میں فوجی عدم توازن پیدا ہو سکتا ہے۔ پاکستان کے مفادات کا تحفظ کرنا جانتے ہیں۔ اعزاز چودھری نے انکشاف کیا ہے کہ پی آئی اے کے پاس طیاروں کی عدم فراہمی کے باعث ملک کی بڑی ہوائی کمپنی کا آپریشنل سسٹم بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ بارسلونا، بنکاک اور منیلا میں پی آئی اے کی پروازیں بند کر دی گئی ہیں۔ دیگر ممالک میں پروازیں بند کرنے کی بھی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ پی آئی اے کے انتظامی امور اور بیرون ملک آنے جانے والے شہریوں کو درپیش مشکلات کے پیش نظر سیکرٹری سول ایوی ایشن کو متعدد بار بذریعہ ٹیلیفون بھی آگاہ کر چکا ہوں۔ انہیں واضح کیا ہے کہ پی آئی اے کی پروازیں بند کرنا نہ ہی ملکی مفاد میں ہے نہ شہریوں کے۔  اعزاز چودھری  نے  کہا کہ اگر بھارت افغانستان  کی ترقی میں کردار ادا کرتا ہے تو اس  پر اعتراض نہیں  بھارت کی افغانستان  کے اندر سے پاکستان میں  مداخلت ناقابل  برداشت ہو گی۔ راجہ ظفر الحق  نے کہا کہ جب تک چین موجود ہے بھارت سلامتی کونسل کا رکن  نہیں بن سکتا۔ قائمہ کمیٹی  نے دفتر خارجہ  کی خاموشی پر  کہا کہ امریکی صدر کے بھارت کو افغانستان میں قائدانہ  کردار دینے کے بیان پر دفتر خارجہ امریکی سفیر کو بلا کر وضاحت  طلب کرتا۔
اسلام آباد (سٹاف رپورٹر + نوائے وقت نیوز) پاکستان سلامتی کونسل میں اصلاحات کا حامی ہے تاہم عالمی ادارے میں مستقل رکنیت کی توسیع غیر جمہوری ہو گی۔ سلامتی کونسل اقوام متحدہ کی اہم تنظیم ہے۔ ہفتہ وار پریس بریفنگ میں ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے کہا کہ بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی مسلسل خلاف ورزی کر رہا ہے۔ پاکستان سلامتی کونسل میں اصلاحات کا حامی ہے، توسیع کا نہیں۔ بھارت نے اپنے دفاعی بجٹ میں 12 فیصد اضافہ کر دیا ہے۔ امریکہ بھارت دفاعی تعاون سٹریٹجک توازن کے لئے خطرے کا باعث بنے گا۔ بھارت خطے میں روایتی ہتھیاروں کی بڑے پیمانے پر خریداری کر رہا ہے۔ ہم چین کے ساتھ گہرے روابط میں ہیں۔ خطے میں امن و استحکام کے لئے چین اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ ہمارے امریکہ کے ساتھ تعلقات آزادانہ اور دو طرفہ ہیں۔ بھارت سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بننے کا اہل نہیں۔ بھارت گزشتہ تین برسوں سے ہتھیاروں کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ہے۔ اس صورتحال میں امریکہ اور بھارت کے درمیان دفاع کا دس سالہ منصوبہ، خطہ میں روایتی طاقت کے پہلے سے موجود عدم توازن کو مزید بگاڑے گا۔ سٹرٹیجک استحکام کے لئے پاکستان تین رخی تجاویز دیتا رہا ہے جس کے تحت تجویز کیا گیا ہے کہ تنازعات حل کئے جائیں۔ ایٹمی ہتھیاروں اور میزائلوں کے ضمن میں روک کا مظاہرہ کیا جائے، روایتی ہتھیاروں کی طاقت کا توازن قائم کیا جائے۔ ہتھیاروں میں تخفیف کی جائے۔ بلوچستان اور ملک کے دیگر حصوں میں غیرملکی دہشت گردی کے حوالے سے سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا ہم میڈیا کے ذریعہ الزام تراشی نہیں کرتے البتہ اس ضمن میں شواہد سے تمام متعلقہ ملکوں کو آگاہ کر دیا گیا ہے۔ چینی صدر کے دورہ پاکستان کا پروگرام موجود ہے۔ تاہم اس کی کنفرم تاریخوں کا علم نہیں ہے۔ مسئلہ کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کرنے والا بھارت سلامتی کونسل کا مستقل رکن نہیں بن سکتا۔ پاکستان نے ہمیشہ سلامتی کونسل کی اصلاحات کی حمایت کی ہے لیکن یہ اصلاحات اقوام متحدہ کی رکنیت رکھنے والے ممالک کے مفادات کی عکاس ہونی چاہئیں، سلامتی کونسل میں مستقبل ارکان کی تعداد میں اضافے سے طاقت کے نئے مراکز قائم ہوں گے اور یہ ادارہ مزید غیر جمہوری ہوجائے گا۔ بھارت کشمیر پر اقوام متحدہ کی قراردادوں کی خلاف ورزی کررہا ہے۔ ایسی صورت میں وہ کیسے سلامتی کونسل کا مستقل رکن بن سکتا ہے۔ خطے میں امن و استحکام کے لیے پاکستان کا کردار اہم ہے، بھارت کا سالانہ دفاعی بجٹ 38 ارب ڈالر سے تجاوز کرگیا ہے۔ ایسی صورت میں امریکہ بھارت دفاعی تعاون خطے میں سٹرٹیجک توازن کے لیے خطرہ کا باعث بنے گا۔ چین عالمی طاقت ہے اور یہ علاقائی استحکام کے لئے نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔ پاکستان دہشت گردی کی لعنت سے نمٹنے کی جامع حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔ عالمی برادری کو بھی دہشت گردی کے خاتمے کے لئے ایسی ہی حکمت عملی وضع کرنی چاہئے۔ ترجمان نے کہا کہ امریکہ کی جانب سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کا اعلان حیران کن ہے۔ بھارت امریکہ کے درمیان دفاعی اور ایٹمی معاہدوں سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑ جائیگا۔ بھارت امریکی سول ٹیکنالوجی ایٹمی ہتھیار بنانے کے لئے استعمال کرسکتا ہے جو پاکستان کیلئے انتہائی تشویش کا باعث ہے۔ امریکہ اور بھارت کے ٹیکنالوجی کی منتقلی کے ساتھ روایتی ہتھیار وں کے حوالے سے دفاعی معاہدے پر دستخط ہیں جس سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوگا۔ یہ حیران کن بات ہے کہ امریکہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کی مستقل رکنیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے حالانکہ بھارت نے اقوام متحدہ کی کئی قراردادوں پر عملدرآمد نہیں کیا ہے۔ پاکستان کی طرف سے امریکی صدر کے دورہ بھارت اور اس کے نتائج پر ردعمل کے اظہار کا سلسلہ جاری ہے۔ سلامتی کونسل کے مستقل ارکان (پی فائیو) اور یورپی یونین کے سفیروں کیلئے بریفنگ کے دوران پاکستان نے مطالبہ کیا ہے کہ خطہ میں امن‘ سلامتی اور استحکام کے لئے اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق مسئلہ کشمیر کا حل تلاش کیا جانا چاہئے‘ مقبوضہ کشمیر میں انتخابات اقوام متحدہ کی قرار دادوں کے مطابق رائے شماری کا متبادل نہیں ہو سکتے ہیں ، عالمی برادری کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لے۔ صدر اوباما کے دورہ بھارت کے دوران دیئے گئے ان بیانات پر تحفظات ہیں جو خطے میں طاقت کا توازن بگاڑنے کا باعث بن سکتے ہیں۔ امریکہ سٹرٹیجک ڈائیلاگ اور ورکنگ گروپوں کے اجلاسوں سے دونوں ممالک کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چودھری نے کشمیری عوام کی مقامی جدوجہدکا حوالہ دیتے ہوئے پاکستان کی جانب سے کشمیری عوام کی غیر متزلزل سیاسی، اخلاقی اور سفارتی حمایت کا اعادہ کرتے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر کا حل خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کو یقینی بنانے کے لئے بہت ہی اہم ہے ۔ حق خود ارادیت کے حصول کے لئے کشمیری عوام کی قربانیوں کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے سیکرٹری خارجہ نے اس دیرینہ تنازعہ کا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل تلاش کی ضرورت پر زور دیا ۔انھوں نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں ہونے والے انتخابات اقوام متحدہ کی قراردادوں میں تجویز کی گئی رائے شماری کے متبادل نہیں ہو سکتے ہیں ۔سیکرٹری خارجہ نے آبادی میں تبدیلی کے ذریعے زمینی صورت حال کو تبدیل کرنے کی بھارتی کوششوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے مسئلہ کشمیر کے پائیدار اور دیرپا حل کے لیے مدد کرنے میں بین الاقوامی برادری کے اہم کردار پر زور دیا۔ سیکرٹری خارجہ نے اس توقع کا اظہار کیا کہ عالمی برادری اس اہم معاملے پر پر اپنی توجہ مرکوز کرے گی۔ پاکستان اپنے مؤقف پر قائم رہتے ہوئے جموں و کشمیر کے بنیادی مسئلے سمیت تمام تصفیہ طلب مسائل کے حل کے لئے بھارت کے ساتھ بامعنی اور تعمیری بات چیت کے لئے تیار ہے۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعاون پر مبنی تعلقات کے حوالے سے سیکرٹری خارجہ نے حالیہ مثبت پیش رفت پر سفیروں کو بریفنگ دی۔ سیکرٹری خارجہ نے پاکستان امریکہ سٹرٹیجک مذاکرات کے بارے میں سفیروں کو بریفنگ دیتے ہوئے بتایا کہ گزشتہ ایک سال کے دوران دونوں ممالک کے پانچ مشترکہ ورکنگ گروپس کے اجلاس ہوئے ہیں جن میں دونوں ممالک کے باہمی تعاون کو مزید گہرا بنانے کے لئے بات چیت ہوئی ہے ۔ان سفیروں کی توجہ امریکی صدر کے دورہ بھارت کے دوران دیے گئے ان بیانات کی توجہ دلائی جو جنوبی ایشیا میں سٹرٹیجک عدم توازن سمیت علاقائی اور عالمی اثرات کے حامل تھے اور جن پر پاکستان نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ اس بریفنگ کا اہتمام 5 فروری کو منائے جانے والے یوم یکجہتی کشمیر کے حوالے سے کیا گیا تھا۔ سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ خطے میں امن، سلامتی اور استحکام کیلئے تنازعہ کشمیر کا حل ناگزیر ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں مسئلے کا بہترین حل فراہم کرتی ہیں۔

ای پیپر-دی نیشن