باسکٹ بال کی ترقی کے لیے کمر کس لی ہے: خالد بشیر
کھیل کوئی بھی جب تک اس کے گراس لیول پر توجہ نہیں دی جائے گی اس کے روشن مستقبل کا خواب نہیں دیکھا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں کرکٹ کے کھیل کو جو عزت اور شہرت ملتی ہے دوسرے کسی کھیل کو نہیں ملتی۔ پاکستان میں کھیلوں کا دارومدار حکومتی سرپرستی سے مشروط ہے افسوس حکومتی سطح پر ایسے اقدامات دیکھنے کو نہیں مل رہے ہیں کہ کہا جا سکے کہ سپورٹس حکومت کی ترجیحات میں شامل ہیں۔ بہرکیف کھیلوں کی تنظیمیں اپنی مدد آپ کے تحت قومی اور بین الاقوامی سطح پر پاکستان کا نام روشن کرنے کے لیے کوشاں ہیں جنہیں سراہا جانا ضروری ہے۔ باسکٹ بال کا شمار بھی ان کھیلوں میں ہوتا ہے جس پر حکومتی توجہ کی اشد ضرورت ہے۔ ٹیلنٹ کی کمی نہیں اس مقصد اسے سامنے لانے اور انہیں کھیل کے مواقعے فراہم کرنا ہے۔ 14 سال تک عدالتی جنگ لڑنے کے بعد معرض وجود میں آنے والی پاکستان باسکٹ فیڈریشن نے اس کھیل کو گراس روٹ لیول پر زندہ کرنے کا ایک بار بھر عزم کیا ہے۔ اس حوالے سے فیڈریشن کے سیکرٹری خالد بشیر کا کہنا ہے کہ پاکستان میں باسکٹ بال کے کھیل کی ترقی کے لیے کمر کس لی ہے۔ گراس روٹ لیول پر کھیلوں کے زیادہ سے زیادہ مقابلوں کے انعقاد کے لیے پرانے ساتھیوں کو اکھٹا کیا گیا ہے۔ اس سلسلہ میں لاہور میں جنرل کونسل اجلاس بھی بلایا گیا جس میں فیڈریشن سے الحاق رکھنے والے یونٹس کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ ان کا کہنا تھا کہ 14 سال بعد ہماری فیڈریشن کی بحالی ہوئی ہے اس عرصہ میں باسکٹ بال کھیل کو جو نقصان پہنچ چکا ہے اس کی تلافی راتوں رات نہیں ہو سکتی، جنرل کونسل اجلاس میں پلان تیار کیا گیا ہے جس پر عمل کر کے اسے زندہ کیا جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل کونسل اجلاس کی صدارت فیڈریشن کے صدر بریگیڈئیر (ر)رشید علی ملک نے انجام دی۔ جس میں اہم فیصلے بھی کیے گئے۔ پاکستان باسکٹ بال فیڈریشن کے نئے آئین کی تشکیل کے لئے 6 رکنی آئین کمیٹی بنائی گئی جس کے سربراہ خالد بشیر، سیکرٹری پروفیسر سراج الحق قریشی کے علاوہ محکمہ پولیس، ریلوے اور ہائر ایجوکیشن کے ایک نمائندہ، آرمی، ائر فورس اور نیوی کا ایک نمائندہ، چاروں صوبوں، اسلام آباد اور فاٹا کا ایک نمائندہ جبکہ 9 ڈویژنز سے ایک نمائندہ آئینی کمیٹی کا ممبر ہو گا جو چھ ماہ میں نئے آئین کو حتمی شکل دیکر اس کی اگلے اجلاس میں باقاعدہ منظوری لی جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ نئے آئین کی منظوری تک فیڈریشن کی سرگرمیوں کو چلانے کے لئے 29 نکات پر مشتمل ایک ضابطہ اخلاق بھی جاری کیا گیا جس کے مطابق تمام کھیلوں کی سرگرمیوں کے علاوہ ریفری اور ججز کورس بھی کرائے جائیں گے۔ اجلاس میں 2015ءمیں باسکٹ بال کی سرگرمیوں کو جاری رکھنے کے لیے سپورٹس کیلنڈر کی منظوری بھی دی گئی جس کے مطابق محکمانہ چیمئپین لیگ کی میزبانی ریلوے کو، ڈویژن بی گریڈ باسکٹ بال چیمپیئن شپ گوجرانوالہ کو، نیشنل ڈویژن باسکٹ بال چمپئین شپ حیدر آباد کو، نیشنل باسکٹ بال چمپئین شپ کی میزبانی راولپنڈی کو، انڈر 18 نیشنل باسکٹ بال چمپئین شپ سندھ میں، نیشنل سکول باسکٹ بال چمپئین شپ سرگودھا میں ہوگی جبکہ نیشنل ویمن باسکٹ بال چمپئین شپ کی میزبانی پنجاب کو دی گئی جب کہ ہزارہ، لاہور، بنوں، کوہاٹ، پشاور اور کراچی آل پاکستان میچز ٹورنامنٹ ویمنز ٹورنامنٹ کرائیں گے۔ اس کے علاوہ10 عدد ریفری اور آفیشل کورسز منعقد ہونگے۔ فور اے سائیڈ پہلی نیشنل باسکٹ بال چمپئین شپ فیڈریشن خود کرائے گی۔ صوبائی چمپئین شپ اسلام آباد میں جبکہ ویمن صوبائی چمپئین شپ پنجاب کرائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان باسکٹ بال کی ترقی کے لیے بہت سارے افراد نے خدمات انجام دے رکھی ہیں جن میں سے بعض اب اس دنیا میں نہیں، اجلاس میں گذشتہ 15 سالوں میں فیڈریشن کے فوت ہونے والے سابق آفیشلز اور کھلاڑیوں کے بلند درجات کے لئے دعائی کرائی گئی جن میں ائیر کموڈور محمد افضل خان ایس ایس شاہ، میاں رفیع الدین، فلائیٹ لفٹیننٹ ایم افضل خان، شیخ محمد امین، محمد فہیم، چاچا فیروز دین، نور دین، خانزادہ احسان، شیخ محمد فاروق، سابق کپتان، بریگیڈئیر ڈینٹل اوسٹن، جاوید شاہ، محمد خان، ویلسن بدر الدین اور ایلبن اللہ رکھا۔ سابق انٹرنیشنل کھلاڑیوں میں محمد ناصر، محمد سعید خان، محمد افضل شیروانی، احمد اقبال، خالد محمود، واجد علی شاہ اور محمد اشرف شامل ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اجلاس میں انٹرنیشنل باسکٹ بال کی جانب سے پاکستان میں بننے والی جعلی فیڈریشن پر عائد کی جانے والی پابندی کی بھی توثیق کی گئی۔ خالد بشیر کا کہنا تھا کہ ہم نئے عزم کے ساتھ اس کھیل کی ترقی کے لیے میدان میں اتریں ہیں ہماری پاکستان سپورٹس بورڈ اور حکومت سے اپیل ہے کہ وہ ہماری سرپرستی کرئے۔ انشااﷲ قوم کو اچھے نتائج دینے کی کوشش کرینگے۔