• news

گورنر صاحب تاریخ کہیں مسخ نہ ہو جائے

محمد سرور نے پنجاب کی گورنر شپ سے مستعفی ہوتے ہوئے کچھ گلے شکوے کئے ہیں۔ کچھ لوگ اسے حکومت کے خلاف چارج شیٹ قرار دیتے ہیں۔ مگر تاریخ کا ریکارڈ درست رکھنا ضروری ہے۔ محمد سرور نے گورنری کے عہدے سے غیر آئینی توقعات وابستہ کر لیں تھیں۔ خاص طور پر ان کا یہ کہنا کہ قبضہ گروپ گورنر کے عہدے سے زیادہ طاقتور ہے۔ ان کے حامی عناصر نے انکشاف کیا ہے کہ پنجاب حکومت نے ہدایات جاری کر رکھی تھیں کہ گورنر کے کسی حکم کی تعمیل نہ کی جائے۔ گورنر کے بھائی محمد رمضان کا ایک بیان شائع ہوا ہے کہ ان کے خاندان کی زمینوں پر مسلم لیگ (ن) کے طاقتور عناصر کا قبضہ ہے۔
پہلی بات یہ ہے کہ گورنر کا منصب آئین کے اندر محض ایک نمائشی، علامتی حیثیت رکھتا ہے، وہ وفاق کا نمائندہ ہے اور اسے صوبے کی گورننس پر نظر رکھتے ہوئے گاہے گاہے اپنی رپورٹیں وفاقی حکومت کو ارسال کرنا ہوتی ہیں۔ وہ کسی محکمے کو براہ راست کوئی حکم نہیں دے سکتا، نہ اس کا حکم کسی محکمے کے لئے آئینی طور پر ماننا ضروری ہے۔ گورنر کے طور پر وہ زبانی کلامی جتنی چاہے سفارشیں کرتا پھرے، اگر کوئی اس کا واقف کار ہے اور اس کی دید لحاظ کرتا ہے تو اس کی سفارش پر کام ہو سکتا ہے ورنہ نہیں۔ گورنر صاحب پنجاب کی نوکر شاہی کے بعض اعلی ارکان کی برطانیہ میں میز بانی کرتے رہے ہیں، مختلف افسران یا تو محکمانہ تربتیی کورسز پر وہاں جاتے ہیں یا ذاتی طور پر سیر سپاٹے کے لئے، ان کی سیوا کرنے میں سرور صاحب پیش پیش رہتے تھے، ان کے علاوہ ہر پاکستانی کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اہل وطن کی میزبانی کرے، بعض تو اسے خدمت سمجھ کر کرتے ہیں اور بعض اپنے تعلقات بناتے ہیں تاکہ وطن واپسی پر ان کو ایئر پورٹ پر پروٹوکول دیا جائے، ایف آئی اے ا ور کسٹم اہلکاروں کے شکنجے میں پھنسنے سے بچایا جائے اور گھر بار میں انہیں جو مسائل درپیش ہوں، انکے حل میں مدد مل جائے۔ زیادہ تر اوورسیز پاکستانیوں کی جائیدادوں پر قبضہ ہو جاتا ہے، بھائی بند ہی اس پر ہاتھ صاف کر لیتے ہیں، ہاﺅسنگ ادارے بھی انہیں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے ہیں، ساری عمر پلاٹوں کی قسطیں وصول کرتے ہیں اور ان پر جرمانوں پر جرمانے کر کے ان میں اضافہ کئے چلے جاتے ہیں، کئی ہاﺅسنگ ادارے سرے سے فراڈ ثابت ہوتے ہیں۔ اٹھانوے میں ایٹمی دھما کوںکے بعد اوورسیز پاکستانیوں پر حکومت نے اجتماعی طور پر شب خوں مارا اور ان کے فارن کرنسی اکاﺅنٹ منجمد کر دیئے گئے۔ اوور سیز پاکستانیوں کو لوٹنے میں ایک اور گروہ بھی پیش پیش ہے اور یہ مذہبی لبادے میں باہر جاتا ہے ، یا تو وہیں مذہبی مراکز کی تعمیر کا پروجیکٹ شروع ہو جاتا ہے یا پھر ملک کے اندر مذہبی اداروں کی تعمیر کے نام پر چندے بٹورے جاتے ہیں۔ لوٹ مار کرنے والوں میں گلوکار بھی شامل ہو گئے ہیں، ان کے طائفے کے طائفے باہر جاتے ہیں، انفرادی طور پر بھی فنکاروں اور کھلاڑیوں نے اپنی ماﺅں کے نام پر ہسپتالوں کی تعمیر کا بیڑہ اٹھا رکھا ہے ا ور اس کے لئے بھی ڈونر انہیں باہر ہی سے ملتے ہیں۔ ایسی گوناں گوں خدمات انجام دینے والے پاکستانی بجا طور پر خیال کرتے ہیں کہ اپنے وطن میں ان کی داد رسی ہو اور ہونی بھی چاہئے مگر اس کے لئے کسی گورنر کے ہاتھ میں کبھی کوئی اختیار نہیں رہا اور نہ ہو سکتا ہے۔ آئین میں ایسی کوئی گنجائش ہی موجود نہیں۔ محمد سرور برطانوی پارلیمنٹ میں برسوں رہے ہیں ، انہیں پاکستانی آئین سے کچھ تو شد بد ہونی چاہیئے تھی۔ ایک بار گورنر محمد اظہر کو آئین سے ماورا اختیار سونپا گیا تھا، ان دنوں وزیر اعلیٰ کے منصب پر غلام حیدر وائیں سرفراز تھے، انہیں ایک کمزور انتظامی سربراہ سمجھا جاتا تھا جبکہ میاں محمد اظہر نے لاہور کے لارڈ میئر کی حیثیت سے اپنی انتظامی صلاحیتوں کا لوہا منوایا تھا اور اسی پس منظر میں انہیں گورنر بننے پر امن و مان کا خصوصی چارج دے دیا گیا۔ مگر کچھ عرصہ گزرنے کے بعد لوگوں نے وزیر اعلیٰ کو بھڑکایا کہ آپ کی تو حیثیت ہی ختم ہو گئی ہے۔اس پر گورنر اظہر کو بے دست و پا کر دیا گیا۔ سندھ میں گورنر عشرت العباد کو خصوصی حیثیت حاصل ہے، ایک تو وہ لمبے عرصے سے اس منصب پر سرفراز ہیں ، دوسرے بے پناہ اختیارت استعمال کر رہے ہیں اور یہ کوئی آئینی انتظام نہیں، بلکہ پیپلز پارٹی اور متحدہ کے مابین ایک خاموش مفاہمت کا نتیجہ ہے جس پر اسٹیبلشمنت اور عدلیہ نے بھی کبھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا، بلوچستان اور خیبر پی کے میں کون گورنر ہے ، اسّی فیصد لوگوں ان کا نام تک نہیں جانتے اور وہ اپنے دفتر کے باہر جھانک بھی نہیں سکتے۔ گورنر محمد سرور ان حقائق کو جھٹلا نہیں سکتے۔ اب اگر انہوںنے شریف برادران کی بیرون ملک کوئی خدمت شدمت کی تھی اور اس کا صلہ چاہتے تھے تو یہ شریف برادران کی مرضی پر منحصر ہے کہ وہ ان کو کس حد تک نوازنے کو تیار ہیں ، ظاہر ہے اسحا ق ڈار سے زیادہ نہیں، مریم صفدر سے زیادہ نہیں، حمزہ اور سلمان شہباز سے بھی زیادہ نہیں اور چیف منسٹر شہباز شریف اپنے سے زیادہ انہیں طاقتور نہیں کر سکتے تھے، اس لئے کہ وہ تو عوامی مینڈیٹ رکھتے تھے جبکہ سرور کی حیثیت محض ایک نامزد کی سی تھی۔
جتنی دیر محمد سرور گورنر ہاﺅس میں رہے، لوگوںنے دیکھا کہ وہاں اوورسیز پاکستانیوں کا مجمع لگارہا یا وہ لوگ جو محمد سرور سے باہر جا کر کبھی ملے ہوں گے۔اس عرصے میں گورنرہاﺅس کا تقدس اور بھرم ختم ہو کر رہ گیا تھا۔ یہ کوئی اوورسیز منسٹر کا دفتر نہیں تھا، پاکستان کے سب سے بڑے صوبے کا سب سے بڑا آئینی مرکز تھا۔ گورنر کو ایسا ہرگز نہیں کرنا چاہئے تھا۔
رہا یہ سوال کہ شریف برادران نے محمد سرور کی خدمات کا پورا عوضانہ نہیں دیا، یہ کھاتہ تو ماڈل ٹاﺅن کے کسی کمپیوٹر میں موجود ہو گا مگر میں بھی جانتا ہوں کی موصوف کو ٹکٹوں کی تقسیم کا اختیار تفویض کیا گیا تھا۔ جب مجھے پہلی بار یہ خبر ملی تو میں چکرا کر رہ گیا کیونکہ میں جب آخری مرتبہ محمد سرور کو ملا تھا اور میںنے ہی ان کی پہلی ملاقات نواز شریف نامی وزیراعظم سے کروائی تھی تو اس وقت تک وہ سکاٹ لینڈ پیپلز پارٹی کے سربراہ تھے۔ مشرف نے نواز شریف کو سیف ہاﺅس میں بند کیا تو محمد سرور پہلے شخص تھے جو نواز شریف کو اس سیف ہاﺅس میں ملے۔ اس وقت بھی ان کا تعلق پیپلز پارٹی ہی سے تھا۔ میں نہیں جانتا کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کب چھوڑی، کیوں چھوڑی اور مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کب اختیار کی اور کیوں کی۔ مگر یکایک خبر ملی کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹوں کے فیصلوں کے پردھا ن بنے بیٹھے ہیں تو یقین جانئے کہ میں اس اصول پرست شخص کے رویئے پر بھونچکا رہ گیا تھا۔
مجھے ان کے ایک اور کردار پر سخت اعتراض ہے، امریکہ تو خیر دنیا کی سپر پاور ہے، وہ ریمنڈ ڈیوس کو جیل سے لے گیا، مگر محمد سرور کی کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کے باوجود ایک بار وہ پاکستان آئے اور ایک نوجوان لڑکی کو پولیس شاہی کی طاقت کے بل بوتے پر واپس گلاسگو لے گئے۔ یہ لڑکی اپنی مرضی کی شادی کرنا چاہتی تھی، مگر اس کا باپ اسے پاکستان لے آیا۔ محمد سرور کو کوئی حق نہیں پہنچتا تھا کہ وہ ایک گھریلو مسئلے میں مداخلت کریں گے، وہ کوئی انٹرپول کے ایجنٹ بھی نہیں تھے اور لڑکی کے ا یسے کوئی وارنٹ بھی جاری نہیں ہوئے تھے مگر محمد سرور، پاکستان میںاپنے پولیس کے دوستوں کی مدد سے لڑکی کو واپس برطانیہ لے جانے میںکامیاب ہو گئے۔ اس کارنامے پر وہ برطانوی معاشرے کی آنکھوں کا تارا بن گئے کیونکہ انہوں نے وہاں کے قانون کی بالادستی قائم کرنے میں برق رفتار اقدام کیا تھا۔یہ الگ بات ہے کہ بے چارے والدین کی ناک کٹ گئی۔
نہیں۔ نہیں، محمد سرور، نہیں ۔ پاکستان میں من مانی کر نے کے ایسے اختیارات آپ کو تفویض نہیں کئے جا سکتے۔ آپ کی چارج شیٹ تاریخ کی نظر میں ردی کا ایک ڈھیر ہے، مﺅرخ آپ کو داد دینے سے قاصر رہے گا۔ آپ کے اندر اگر کوئی بے پناہ طاقت ہے تو جایئے کشمیر میں عفت مآب خواتین کو بھارتی فوج کے ہاتھوں گینگ ریپ ہونے سے بچایئے، اس پر تو ارون دھتی رائے بھی سراپا احتجاج بنی ہوئی ہے۔


اسد اللہ غالب....انداز جہاں

اسد اللہ غالب....انداز جہاں

ای پیپر-دی نیشن